گھریلو ملازمین کی معمولی چوری یا منظم سازش، ’ماسی گینگ‘ کی کہانی کیا ہے؟

image
کراچی کے کئی گھروں میں گھریلو ملازمائیں صرف کام نہیں کرتیں بلکہ اکثر خاندان کا حصہ تصور ہونے لگتی ہیں۔ وہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی ہیں، اور چھوٹے بڑے معمولات میں خود بخود گھل مل جاتی ہیں۔

مگر گذشتہ چند برسوں میں کچھ معمولی لگنے والی چوریوں سے یہ ظاہر ہوا کہ چور آپ کے گھر میں ہی تھا مگر آپ نے کبھی اس پر شبہ نہیں کیا تھا۔

کراچی پولیس کی تفتیش نے اس راز کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک منظم گروہ ’ماسی گینگ‘ کے خلاف کارروائی کی ہے جو گھروں میں خاموشی سے وارداتیں انجام دیتا تھا۔

پولیس کے مطابق شہر کے مختلف گھروں میں گذشتہ کئی برسوں سے چوریوں کا ایک پراسرار سلسلہ چل رہا تھا۔ یہ جرائم بہ ظاہر معمولی دکھائی دیتے مگر یہ ایک منظم گینگ کے تحت انجام دیے جا رہے تھے۔

کراچی پولیس نے اس گروہ کو ’ماسی گینگ‘ کا نام دیا ہے، اور اب کئی برسوں بعد اس کا مرکزی کردار عمران ولد عباس علی بالآخر پولیس کی گرفت میں آ چکا ہے۔

ماسی گینگ ایک انوکھا مگر خطرناک نیٹ ورک

پولیس تفتیش کے مطابق عمران نے خواتین پر مشتمل ایک منظم نیٹ ورک بنایا تھا جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم تھا۔

یہ خواتین پہلے گھروں میں ملازمت حاصل کرتیں، رہائش اختیار کر لیتیں، اور جب گھر والے ان پر اعتماد کرنے لگتے تو یہ موقع پا کر قیمتی زیورات اور نقدی چرا کر غائب ہو جاتیں۔

عمران خود ان تمام سرگرمیوں کا سرغنہ تھا۔ وہ ان خواتین کو گھروں تک پہنچانے، معلومات فراہم کرنے، اور فرار کے انتظامات میں مدد دیتا تھا۔ اس کے پاس گاڑیاں، جعلی شناختی دستاویزات، اور ایسے نیٹ ورکس کی تفصیلات تھیں جن کی مدد سے یہ گینگ برسوں سے کام کر رہا تھا۔

یہ انکشاف ہوا کہ عمران ہی وہ شخص تھا جو ’ماسی گینگ‘ کے ہر رکن کو تحفظ فراہم کرتا تھا (فوٹو: سندھ پولیس)

پولیس کی تفتیش

بن قاسم انویسٹی گیشن پولیس کے مطابق یہ عام جرائم پیشہ افراد کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ ایک منظم نیٹ ورک تھا، جس میں منصوبہ بندی، نگرانی اور اندرونی رابطے شامل تھے۔

پولیس نے عمران کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی، اور کئی ماہ کی تفتیش کے بعد بالآخر اس کی گرفتاری ممکن ہو سکی۔ گینگ کی دو خواتین شاہدہ اور گلاب زادی کو اس دوران پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا۔

ان خواتین کی گرفتاری کے بعد جب پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی تو وارداتوں کے اصل کردار عمران کا نام سامنے آیا۔ یہ انکشاف ہوا کہ عمران ہی وہ شخص تھا جو ’ماسی گینگ‘ کے ہر رکن کو تربیت، سہولت، اور تحفظ فراہم کرتا تھا۔

ایک خاموش مگر خطرناک سازش

یہ گینگ خاموشی سے گھروں میں داخل ہوتا تھا۔ اکثر اوقات یہ خواتین انتہائی غریب علاقوں سے آتیں، اور خود کو مظلوم ظاہر کرتیں۔

وہ گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر بچوں کی دیکھ بھال تک ہر کام کرتی تھیں۔ کچھ دنوں یا ہفتوں میں گھر والوں کا ان پر اعتماد بڑھتا، اور پھر ایک دن یہ سب کچھ سمیٹ کر غائب ہو جاتیں۔ متاثرہ خاندان اکثر حیران رہ جاتے کہ ان کے خاندان کا ایک فرد بن چکی اس نرم مزاج عورت نے یہ سب کیسے کیا؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق ان میں سے کئی مقدمات ایک ہی انداز میں انجام پائے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس میں رپورٹ درج کروانے کے باوجود بھی کوئی سراغ نہ مل پاتا۔ لیکن دراصل، یہ وارداتیں ایک ہی مرکزی نیٹ ورک کے تحت منظم طریقے سے انجام دی جا رہی تھیں۔

پولیس کے مطابق یہ خواتین ایک ہی شخص سے رابطے میں رہتی تھیں۔ وہ اپنے کام کی رپورٹ دیتی تھیں اور چوری کا مال تقسیم کرتی تھیں۔ عمران اس تمام عمل کا نگران تھا۔

شہروں میں پھیلا ہوا جال

کراچی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں مشتبہ انداز میں گھریلو ملازماؤں کے غائب ہونے کی شکایات رپورٹ ہوئیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ان میں سے کئی مقدمات ایک ہی انداز میں انجام پائے تھے۔ ملازمہ چند ماہ تک کام کرتی، گھر والوں کا اعتماد حاصل کرتی، اور پھر طلائی زیورات یا نقدی لوٹ کر غائب ہو جاتی۔

پولیس کی تفتیش سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عمران نے اس گینگ کے لیے مخصوص علاقوں کا انتخاب کیا تھا۔ بن قاسم، کورنگی، ڈیفنس، گلشنِ اقبال اور نارتھ ناظم آباد کے علاقوں میں زیادہ تر وارداتیں ہوئیں۔

پولیس کے مطابق گینگ کی دو اہم خواتین چوریوں کی متعدد وارداتوں میں براہِ راست ملوث تھیں۔ ان کے ذریعے عمران کو گھروں کی تعمیراتی بناوٹ، قیمتی اشیا کے بارے میں معلومات اور گھر والوں کے معمولات کی تفصیلات حاصل ہوتیں۔

ایک خاتون نے پولیس کے روبرو انکشاف کیا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ پہلے خود کو ضرورت مند ظاہر کرو (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان دونوں نے دورانِ تفتیش بتایا کہ عمران انہیں ہر واردات سے پہلے ’ہدایات‘ دیتا تھا کہ کس وقت نکلنا ہے، کہاں جانا ہے، کس طرح گھر والوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، اور فرار کے بعد کس مقام پر جمع ہونا ہے۔

ان میں سے ایک خاتون نے پولیس کے روبرو انکشاف کیا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ پہلے خود کو ضرورت مند ظاہر کرو۔ کچھ دن بعد جب گھر والے مطمئن ہو جائیں تو موقع دیکھ کر زیور یا نقدی لوٹ لو جس کے بعد کے معاملات عمران دیکھ لے گا۔

معروف سیاسی شخصیت کا گھر بھی نشانہ

پولیس کے مطابق عمران کے گینگ نے صرف عام شہریوں کو نہیں بلکہ ایک معروف سیاسی رہنما سعدیہ جاوید کے گھر کو بھی نشانہ بنایا۔

درخشاں اور اس کی ساتھی نے اس واردات میں حصہ لیا۔ گھر سے زیورات اور نقدی چوری کی گئی، مگر کچھ ہی دنوں میں پولیس نے ان خواتین کو ٹریس کر کے گرفتار کر لیا۔

یہ واقعہ میڈیا کی توجہ کا باعث بنا، اور اسی کے بعد پولیس نے ’ماسی گینگ‘ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کیا۔

عمران کی گرفتاری

پولیس کا کہنا ہے کہ عمران کے نیٹ ورک کے باقی اراکین کی تلاش جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بن قاسم انویسٹی گیشن پولیس نے ملزم عمران کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عمران کے خلاف کراچی کے علاوہ پنجاب میں بھی متعدد مقدمات درج ہیں، اور پنجاب پولیس کو بھی اس کی گرفتاری کے حوالے سے اطلاع کر دی گئی ہے۔

ڈی ایس پی شاہ نواز میمن کے مطابق یہ ایک منظم جرائم پیشہ گروہ تھا جو خواتین کو جرم کی طرف راغب کرتا تھا۔ عمران نہ صرف ان سے کمیشن لیتا بلکہ خود ان کے حصے کا بڑا حصہ بھی ہتھیا لیتا تھا۔

جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق جب ایک نظام لوگوں کو باعزت روزگار نہیں دیتا، تو جرائم پیشہ عناصر ان کمزور طبقات کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ خواتین اکثر خود بھی متاثرہ ہوتی ہیں، مگر قانون کے مطابق ان کا کردار جرم ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

پولیس کی مستقبل کی حکمتِ عملی

کراچی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھریلو ملازماؤں کے اندراج کے نظام کو مزید سخت بنانے کے لیے محکمۂ محنت اور مقامی انتظامیہ سے رابطہ کرے گی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عمران کے نیٹ ورک کے باقی اراکین کی تلاش جاری ہے، اور جلد مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US