صفی نے کبھی یہ نہ سوچا تھا ان کا اپنے دوستوں کو بچانے کا منصوبہ انھیں ان کی محبت سے ملوانے کا باعث بنے گا اور یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ ایک ایسی خاتون کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے جن سے ان کا فاصلہ صرف میلوں کا نہیں بلکہ عقیدے کا بھی ہو گا
طالبان کی حراست بھی سَمی اور صفی کی محبت کو کم نہ کر سکی2021 میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو دنیا بھر نے دیکھا کہ کس طرح لوگ افغانستان سے نکلنے کی کوشش میں ہوائی اڈے پر جمع ہو گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر کوئی وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین ہے۔
کابل سے ہزاروں میل دور امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھے امریکی بحریہ کے سابق ڈاکٹر صفی رؤف صرف یہ مناظر ٹی وی اور انٹرنیٹ پر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ وہ خاموشی سے ایک منصوبہ بنا رہے تھے: افغانستان میں پھنسے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی مدد کا منصوبہ۔
تاہم صفی نے کبھی یہ نہ سوچا تھا ان کا اپنے دوستوں کو بچانے کا منصوبہ انھیں ان کی محبت سے ملوانے کا باعث بنے گا اور یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ ایک ایسی خاتون کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے جن سے ان کا فاصلہ صرف میلوں کا نہیں بلکہ عقیدے کا بھی ہو گا۔۔۔ مسلمان ہوتے ہوئے ایک یہودی خاتون سے محبت۔
وہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی صورتحال کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلے پہل انھوں نے تھوڑی بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ پہلے شخص کی مدد کی اور وہ کام کر گیا۔
’اس کے بعد میں نے ایک اور کی مدد، اور پھر ایک اور۔ آہستہ آہستہ یہ ایک بڑے پیمانے کے آپریشن میں تبدیل ہو گیا، جس کے تحت سینکڑوں لوگ افغانستان جبکہ درجنوں افراد واشنگٹن میں کام کر رہے تھے۔‘
سمی اور صفی کی شادی میں افغان اور یہودی روایات کا امتزاج دیکھنے کو ملاصفی ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور نو عمری میں ہی امریکہ آ گئے تھے لیکن اب وہ خود ایک ایسے ریسکیو آپریشن کا حصہ تھے جس کا مقصد افغانستان میں پھنسے لوگوں کو نکالنا تھا۔
ایسے مشکل حالات میں ان کی ملاقات نیویارک میں مقیم تھیٹر ڈائریکٹر سَمی کینولڈ سے ہوئی جو اپنی ایک دوست کے خاندان کو کابل سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
طالبان کی حراست سے کی گئی خفیہ کالز نے سَمی اور صفی کی محبت کو زندہ رکھاسَمی بتاتی ہیں کہ وہ زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی تھیں لیکن پھر ایک دن انھوں نے ٹی وی پر صفی کے گروپ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا۔
’میں نے انھیں مدد کے لیے لکھا اور انھوں نے کہا کہ مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ میں واشنگٹن جا کر ان کی ٹیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کروں۔‘
اس کے بعد سَمی نے اپنا سامان باندھا اور ٹرین پکر کر واشنگٹن ڈی سی پہنچ گئیں۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے خود کو ایک ایسے آپریشن سینٹر میں پایا جہاں صرف مرد کام کر رہے تھے۔ یہ جگہ ان کی تھیٹر کی اُس دنیا سے یکسر مختلف تھی جس میں وہ پلی بڑھی تھیں۔
سَمی تب تک افغانستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں لیکن ان کے پاس وہ ہنر تھا جو بعد میں بہت کارگر ثابت ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ انھیں سپریڈ شیٹس اور کمیونیکیشن میں مہارت حاصل تھی تو انھوں نے اس تمام آپریشن کی کمیونیکیشن سنبھال لی۔
صفی ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے اور نوعمری میں امریکہ منتقل ہو گئے تھےافراتفری کے ماحول میں پنپتی محبت
آپریشن سینٹر کی تمام ہلچل اور ایمرجنسی صورتحال کے باوجود فضا میں کچھ تو تھا۔
سَمی کہتی ہیں کہ اگر اسے کشش کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
انھیں آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے صفی کی عمر معلوم کرنے کے لیے گوگل کا سہارا لیا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں وہ ڈیٹ کرنے کے لیے زیادہ بوڑھے تو نہیں۔
’میں نے صفی کا نام اور ان کی عمر گوگل کی کیونکہ ان دنوں وہ پریشانی کے باعث اتنے دبلے ہو گئے تھے کہ وہ اپنی عمر سے کہیں بڑے لگتے تھے۔‘
صفی اور سَمی پہلی بار رات کے تین بجے ایک ساتھ چہل قدمی کے لیے گئے۔ اس دن وہ لوگ افغانستان سے انخلا کی کوشش کرتے کچھ افراد کے طالبان کی چیک پوسٹیں سے بحفاظت نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
اس رات وہ ایک ساتھ چلتے چلتے کافی دور تک نکل گئے یہاں تک کہ وہ لنکن میموریل پہنچ گئے۔
’سب کچھ بالکل کسی فلم کی طرح لگ رہا تھا۔‘
سَمی کہتی ہیں انھوں نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ کیا وہ اس شخص سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟
ان دونوں نے پہلی مرتبہ آپریشن سینٹر کی بالکونی پر ایک دوسرے کو بوسہ دیا۔ صفی تھوڑے گھبرائے ہوئے تھے اور انھوں نے گاڑیوں کے بارے میں باتیں کرنی شروع کر دیں۔ ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود جلد ہی دونوں قریب آ گئے۔

صفی کہتے ہیں کہ سَمی ان سے ہمیشہ پوچھا کرتی تھیں کہ کیا وہ انھیں گھر والوں سے ملوائیں گے اور ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ یہ ممکن نہیں۔
صفی کے اسلامی عقائد پر عمل پیرا خاندان کو توقع تھی کہ وہ کسی افغان خاتون سے ارینج میرج کریں گے جبکہ سَمی یہودی ہیں۔
اس کے باوجود انھوں نے اپنے رشتے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے رشتے کا پہلا امتحان اس وقت آیا جب سَمی نے صفی کو اپنی دنیا سے متعارف کروانے کے لیے انھیں میوزیکل تھیٹر ’لیز میزریبل‘ دکھانے لے کر گئیں۔
سَمی (دائیں) کا صفی سے رابطہ اس وقت بحال ہوا جب وہ طالبان کی قید میں فون حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے’اگر مختصراً کہوں تو صفی ایک دم پاگل ہو گیا تھا۔‘
سَمی کہتی ہیں کہ صفی کو ناقابل یقین حد تک میوزیکل شو پسند آیا تھا جو ان کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھا۔
صفی پر تو سحر سا طاری ہو گیا تھا۔
’میں بقا کی جنگ لڑتے ہوئے بڑا ہوا ہوں اور میں واقعی میں اس میوزیکل کے مرکزی کردار ماریئس کو سمجھ سکتا تھا جو ایک باغی تو تھا لیکن ساتھ ہی ایک عاشق بھی تھا۔‘
طالبان کی قید
دسمبر 2021 میں صفی ایک بار پھر کابل لوٹے۔ اس بار وہ اپنے بھائی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے۔
انھیں لوگوں نے افغانستان کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ صفی کہتے ہیں کہ طالبان نے انھیں حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
تاہم جب افغانستان میں ان کا آخری دن تھا تو طالبان انٹیلیجنس نے صفی، ان کے بھائی اور پانچ دیگر غیر ملکی باشندوں کو حراست میں لے لیا۔
ابتدا میں کچھ دن تک تو انھیں ایک زیرِ زمین کوٹھری میں رکھا گیا۔ ’وہ ایک چھ فٹ کی کوٹھری تھی جس میں نہ کوئی کھڑکی تھی نہ بستر۔‘
اس تصویر میں سَمی اپنی والدہ کے ساتھ کھڑی ہیںنیویارک میں موجود سَمی اس ساری صورتحال سے کافی گھبرا گئی تھیں۔ انھوں نے گوگل میپ پر لوکیشن چیک کی تو وہ طالبان انٹیلیجنس کا ہیڈکوارٹر تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے کابل کے زیادہ مقامات کے بارے میں معلوم نہیں تھا لیکن میں اتنا جانتی تھی کہ یہ ٹھیک نہیں۔‘
کئی ہفتوں تک صفی کی جانب سے کوئی اطلاع نہیں آئی لیکن بالآخر وہ ایک گارڈ سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
گارڈ کو پیسوں کی ضرورت تھی جس کا صفی نے فائدہ اٹھایا اور اپنے کزن کی مدد سے کچھ رقم اور ایک موبائل فون کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
افغانستان میں صفی کا آخری دن تھا جب طالبان نے انھیں حراست میں لے لیازیرِ زمین کوٹھری میں ان کے موبائل فون پر سگنل نہیں آ رہے تھے۔
انھوں نے بھائی کے کندھے پر چڑھ کر کوشش کی اور بالآخر موبائل فون کے سگنل آئے تو انھوں نے سَمی کو میسج بھیجا کہ ’ہائے، کیسی ہو؟ آئی لوو یو۔‘
سَمی بتاتے ہیں کہ تقریباً 17 دن کے انتظار کے بعد پہلی کال موصول ہوئی۔
’بس یہ جاننا کہ وہ زندہ ہیں، میرے لیے سب کچھ تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ صفی کی آواز سن کر انھیں بہت خوشی ہوئی لیکن یہ سوچ کر بہت ڈر لگا کہ پتا نہیں صفی کس حالت میں ہوں گے۔
دورانِ حراست لیز مزریبل صفی کا واحد سہارا ثابت ہوا۔
صفی کہتے ہیں ’شروع میں 70 دن تک میں نے سورج نہیں دیکھا۔ سارا وقت ہمیں تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ وہاں سات دیگر غیر ملکی یرغمالی بھی تھے اور ان میں سے ایک بہت بیمار ہو گیا اور دوسرا بہت مایوس تھا۔‘
ان حالات میں وہ دھیمی آواز میں لیز مزریبل کا گانا گاتے تھے۔ ’یہ میری مزاحمت کا نغمہ بن گیا تھا۔‘
’اس تمام غیر یقینی صورتحال میں یہ یاد کرنے کی ایک اچھی چیز ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟‘
دوسری جانب سَمی کے ساتھ ان کی خفیہ کالز جاری رہیں۔
صفی کہتے ہیں کہ وہ کمبل میں لیٹ کر سرگوشی کے انداز میں بات کرتے تھے تاکہ گارڈز تک ان کی آواز نہ جائَے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا بھاَئی بھی محض دو فٹ کے فاصلے پر ہوتا تھا اور ایسے سَمی کے ساتھ رومانوی باتیں کرنا ممکن نہ تھا۔
والدین سے ملاقات

طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور 70ویں دن صفی کو رہا کرنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا۔
سَمی کہتی ہیں کہ ایک موقع پر طالبان نے دھمکی دی کہ اگر امریکہ نے جلد کچھ نہ کیا تو وہ صفی کو قتل کر دیں گے۔
’یہ طے پایا کہ صفی کے والدین اور مجھے قطر جانا چاہیے جہاں مذاکرات ہو رہے تھَے تاکہ اس سارے عمل کو تیز کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔‘
صفی اور سمی اس ٹیم کے ساتھ کھڑے ہیں جس نے صفی کو افغانستان سے باہر نکالاسَمی جب قطر گئیں تو وہاں ان کی پہلی مرتبہ صفی کے والدین سے ملاقات ہوئی۔ وہ اعتراف کرتی ہیں کہ اس وقت صفی کے والدین ’ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور پھر اچانک ہم دو ہفتوں کے لیے ایک ساتھ ایک ہی فلیٹ میں رہ رہے تھے۔‘
سَمی کے مطابق کیونکہ صفی کے والدین کی انگریزی اچھی نہیں تھی اس لیے میں ایک طرح سے خاندان کی ترجمان بن گئی۔
صفی کے قدامت پسند افغان مسلمان والدین کے لیے یہ بات کسی دھچکے سے کم نہ تھی کہ ان کے بیٹے کی ایک گرل فرینڈ ہے اور وہ بھی یہودی لیکن اس ساری پیچیدہ صورتحال نے انھیں مجبور کیا کہ وہ سَمی کو قبول کر لیں۔
سَمی اس کا سارا کریڈٹ صفی کے والدین کو دیتی ہیں۔
105 دن کے بعد صفی کو رہا کر دیا گیا اور وہ بالآخر افغانستان سے نکل کر ایک بار پھر سَمی سے مل پائے۔
105 دن کے بعد صفی کو رہا کر دیا گیا اور وہ افغانستان سے نکل کر ایک بار پھر سَمی سے مل پائےایک ساتھ زندگی
امریکہ واپس آنے کے بعد صفی اور سَمی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں منتقل ہو گئے۔
انھوں نے افغان، یہودی اور تھیٹر کی روایات کو ملا کر جلد ہی شادی کر لی۔
ان کی شادی کی تقریب میں مہمانوں نے افغان لباس زیب تن کیے، یہودی گانے گائے گئے اور صفی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر فیڈلر آن دی روف پر رقص کیا۔
شادی کے موقع پر سَمی نے وہ ڈائری بھی پڑھ کر سنائی جو وہ صفی کی اسیری کے دوران لکھا کرتی تھیں۔
سَمی اور صفی اپنی منگنی کے موقع پرصفی کو طالبان کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے 32ویں دن انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’میرا خواب ہے کہ ایک دن میں کہیں برآمدے میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر یہ ڈائری پڑھوں۔ پلیز، پلیز، پلیز واپس آجاؤ۔‘
صفی نے اسے ڈائری کو نہیں پڑھا تھا۔ ’یہ بہت تکلیف دہ تھا لیکن ہماری شادی کے موقع ہر ہم نے ایک ساتھ اسے پڑھا۔‘
ان دونوں کی منگنی کی انگوٹھی کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے: صفی نے اپنے جیل کے تالے کا ایک ٹکڑا اس انگوٹھی میں شامل کیا۔
وہ کہتے ہیں ’اس تجربے نے ہماری زندگی کی بنیاد رکھی۔‘

پیار میں سیکھے سبق
سَمی کا ماننا ہے کہ اس سارے حادثے نے ان کے رشتے کو ایک نئی شکل دی۔ وہ کہتی ہیں، ’کسی بھی دوسرے جوڑے کے مقابلے میں ہماری بہت کم لڑائی ہوتی ہے۔‘
’شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ جانتے ہیں کہ آپ کسی کو کھونے کے کتنے قریب تھے تو پھر آپ کے لیے چھوٹی چھوٹی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔‘