اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے معروف وکیل اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہادی علی چٹھہ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد انہیں عدالت کے باہر سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔بدھ کو ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ کی عدالت میں ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف ’متنازعہ ٹویٹ کیس‘ کی سماعت ہوئی، جس کے دوران عدالت نے ہادی علی چٹھہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس پر این سی سی آئی اے کاروائی کی۔اس موقع پر ہادی علی چٹھا نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صبح سے اب تک تین مرتبہ سماعت ہو چکی ہے، ایمان مزاری ہر بار پیش ہوتی رہیں، میں ابھی آیا ہوں اور تین بجے سے پہلے ہی عدالت پہنچ گیا تھا، مگر جج صاحب چیمبر سے باہر نہیں آئے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتی عملہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ جج صاحب نے چیمبر سے ہی وارنٹ جاری کر دیے ہیں، جو عدالتی بدعملی (مس کنڈکٹ) کے مترادف ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے عملے سے درخواست کی کہ جج صاحب اگر سماعت کرنا چاہتے ہیں تو میں عدالت کے باہر موجود ہوں، مگر چیمبر میں بیٹھے رہ کر کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘دوسری جانب پراسیکیوشن ٹیم کے رکن محمد عثمان رانا نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’ہم صبح وقتِ مقررہ پر عدالت میں پیش ہوئے مگر ملزمان کی جانب سے صرف معاون وکیل آئے۔ عدالت نے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت دیا تھا، مگر وہ پیش نہ ہوئے۔ بعد ازاں دوپہر دو بجے بھی سماعت ممکن نہ ہو سکی۔ ہمیں لگتا ہے کہ ملزمان جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔‘اس گفتگو کے کچھ دیر بعد ہی معروف وکیل ایمان مزاری کے شوہر ہادی علی چٹھہ کو عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف مقدمہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے درج کیا گیا، جس کی بنیاد ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع ہونے والی چند پوسٹس اور ٹویٹس کو قرار دیا گیا۔ ادارے کا مؤقف ہے کہ ان پوسٹس میں مبینہ طور پر ریاستی اداروں اور سکیورٹی فورسز پر ایسی تنقید کی گئی تھی جسے نسلی یا ادارہ جاتی نفرت پھیلانے کی کوشش سمجھا گیا۔
ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ اپنے خلاف درج مقدمے کو غیر منصفانہ قرار دے چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایف آئی آر کے مطابق ایمان مزاری کے بیانات کو ریاست مخالف قرار دیا گیا جبکہ ہادی علی چٹھہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ان بیانات کی حمایت یا شیئرنگ کے ذریعے ان کا ساتھ دیا۔ مقدمے میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (پیکا) کی مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں، جن میں شق 9، 10، 11 اور 26 شامل ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد کی اسی عدالت نے ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازع ٹویٹ کیس میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا تھا اور دونوں پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ اپنے خلاف درج مقدمے کو غیر منصفانہ، سیاسی بنیادوں پر مبنی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر شہری اپنی رائے کے اظہار پر مقدمات بھگتنے لگیں تو یہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے، جو ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔