پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بعد کے ممکنہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی تو ہمیں اگر افغانستان کے اندر دور تک جا کر جواب دینا پڑا تو ضرور دیں گے۔ ہم سٹرائیکس (فضائی حملے) کریں گے۔‘خواجہ آصف نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب یہ بات ثالثوں پر بھی عیاں ہو گئی ہے کہ کابل کی کیا نیت ہے۔ ان کی نیت کا فتور سب پر ثابت ہو گیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم نے یورے خلوص کے ساتھ یہ کوششیں کی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان اچھے ہمسائیوں کی طرح امن میں رہ سکیں لیکن اگر انہوں (طالبان )نے اپنی باگ ڈور دہلی کے حوالے کر دی ہے تو پھر یہ مشکل بات ہو گی۔‘انہوں نے مذاکرات کے تفصیل سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’وہ مانتے تھے کہ ٹی ٹی پی کو روکنا چاہیے اور یہ کہ وہ ان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں لیکن اسے لکھ کر وہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔‘وزیر دفاع نے ٹی ٹی پی کو مذاکرات میں شامل کرنے کے امکان کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ ایسا کہتے بھی تو ہم نہیں مان سکتے تھے۔ دیکھیں تحریک طالبان افغانستان کی بھی ابھی اس طرح کی حیثیت نہیں۔ دو چار ممالک نے انہیں تسلیم کیا ہے لیکن ان کی ابھی تو وہاں پوری طرح رٹ بھی قائم نہیں ہے۔‘’افغانستان کے حصے بخرے ہوئے پڑے ہیں جہاں مختلف دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں۔ افغانستان ریاست کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔وہ ریاست کے دنیا میں مسلمہ تشخص کے عادی بھی نہیں ہیں۔‘خواجہ آصف نے مذاکرات کی روداد سے متعلق بتایا کہ ’جب بھی کوئی حتمی معاہدہ تیار ہو جاتا تھا تو وہ کابل فون کرتے ہیں جہاں سے نہیں میں جواب آ جاتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کابل کسی بھی مرحلے پر بھی مخلص نہیں تھا۔ انڈیا افغانستان کو پراکسی بنا کر ایسے ہتھکنڈوں سے پاکستان پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس سے قبل منگل اور بدھ کی درمیانی شب دیر گئے پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کیا تھا۔انہوں نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔‘
بدھ کی دوپہر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا تھا کہ ’پاکستان واضح کرتا ہے کہ اسے طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔‘
’البتہ طالبان رجیم کی اگر خواہش ہو تو تورا بورا میں ماضی کی شکست کے مناظر، جہاں وہ دُم دبا کر بھاگے تھے، دوبارہ دیکھنا یقیناً اقوام عالم کے لیے ایک نیا دلچسپ منظر ہو گا۔‘