پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے بھاگ ناڑی میں اس شام فضاء اچانک گولیوں اور دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھی جب درجنوں مسلح افراد نے بیک وقت سرکاری عمارتوں اور پولیس تھانوں پر حملہ کیا۔پولیس حکام کے مطابق اس بڑے حملے کے دوران پولیس تھانہ سٹی کے ایس ایچ او انسپیکٹر لطف علی کھوسہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ان کے ساتھی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لطف علی کھوسہ نے آخری لمحے تک مزاحمت جاری رکھی۔ انہوں نے جان تو دے دی مگر ہتھیار نہیں ڈالے۔بلوچستان کے مختلف اضلاع میں حالیہ مہینوں کے دوران ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جب کالعدم تنظیموں کی جانب سے حملوں کے دوران لیویز یا پولیس اہلکاروں نے مزاحمت کی بجائے ہتھیار ڈال دیے۔ اس پس منظر میں بھاگ کے واقعے کو غیرمعمولی سمجھا جارہا ہے۔اپنی موت سے چند روز قبل انسپیکٹر لطف علی نے اپنے ماتحت پولیس افسران اور اہلکاروں کو ایک واٹس ایپ گروپ میں وائس میسج بھیجا تھا جسے لوگ اب سوشل میڈیا پر ان کی بہادری اور فرض شناسی کی تعریف کررہے ہیں۔اس پیغام میں وہ پولیس اہلکاروں کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ ’اب پہلے والے حالات نہیں۔ بی ایل اے کی جانب سے خطرہ ہے۔ میں اگر کسی اہلکار کو کہتا ہوں کہ ہوشیار رہو تو وہ کہتا ہے جان بچ جائے تو نوکری کرلیں گے۔ لعنت ایسی جان پر جس میں بے عزتی ہو اور ہم سے اسلحہ چھینا جائے۔ انسان وہ ہے جس میں غیرت ہو۔‘لطف علی کے چچا زاد بھائی اعجاز احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ حملہ ہونے والا ہے، اس لیے وہ پہلے سے ہی اہلکاروں کو تیار کر رہے تھے۔ انہوں نے سب سے کہا تھا کہ اگر حملہ ہوا تو ہتھیار نہیں ڈالنا بلکہ مقابلہ کرنا ہے۔پیر کی شام بالآخر یہ حملہ ہو ہی گیا۔پولیس رپورٹ کے مطابق 15 سے 20 موٹر سائیکلوں اور پک اپ گاڑیوں پر سواربھاری اسلحہ سے لیس 30 سے 40 عسکریت پسند بھاگ ناڑی میں داخل ہوئے اور پولیس کے دو تھانوں، تحصیل آفس اور نیشنل بینک کی شاخ پر حملہ کیا۔ایک تھانہ حال ہی میں لیویز سے پولیس کے حوالے کیا گیا تھا جس سے اسلحہ لوٹا گیا اور جوڈیشل لاک اپ میں موجود پانچ قیدیوں کو بھی آزاد کرا لیا گیا۔
انسپیکٹر نے پسماندگان میں بیوہ، چھ بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں (فائل فوٹو: محمد رفیق)
ایس ایس پی کچھی معاذ الرحمان نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ایک تھانے میں موجود ریکارڈ اور قریب واقع پٹوار خانے (تحصیل آفس ) کو جلایا۔ نیشنل بینک کے دروازے کو بھی توڑ دیا گیا لیکن پولیس اہلکاروں نے مقابلہ کیا جس کی وجہ سے وہ اندر داخل نہیں ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ’دوسرے تھانے میں ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کی قیادت میں پولیس نے بھرپور مزاحمت کی۔ اس لڑائی میں وہ شہید ہوئے جبکہ ایک اہلکار زخمی ہوا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں دو حملہ آور ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے۔‘حملے کے وقت لطف علی کے ساتھ رشتہ دار پولیس اہلکار نور محمد بھی ان کے ساتھ موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ کسی نے سرنڈر کرنے کا مشورہ دیا تو لطف علی نے کہا بزدلی کی زندگی سے موت بہتر ہے۔ انہوں نے فوراً تمام اہلکاروں کو پوزیشن لینے کا حکم دیا اور خود تھانے کی چھت پر مورچہ سنبھال لیا۔نور محمد نے کہا کہ ’حملہ آوروں نے دستی بم بھی پھینکے، مختلف اطراف سے گھیراؤ کیا۔ ہر طرف سے گولیاں چل رہی تھیں مگر ایس ایچ او لطف علی کھوسہ اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ وہ نصف گھنٹے سے زائد تک لڑتے رہے۔ اس دوران انہیں ایک فون آیا ۔وہ فون سننے کے لیے کھڑے ہوئے ہی تھے کہ ایک گولی سر میں لگی اور وہ موقع پر شہید ہوگئے۔‘ڈپٹی کمشنر کچھی کی جانب سے محکمہ داخلہ بلوچستان کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پولیس کے بروقت اور جرأت مندانہ ردِعمل نے جانی و مالی نقصان کو بڑی حد تک روک دیا حالانکہ حملہ انتہائی شدت کا تھا۔‘یہ ضلع کچھی میں چند دنوں کے دوران دوسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے پہلے کچھی کے علاقے حاجی شہر میں لیویز تھانے پر حملے کے دوران کالعدم بلوچ مسلح تنظیم نے عمارت کو نذرِآتش کیا اور اہلکاروں سے اسلحہ لوٹ لیا تھا۔کچھی کا علاقہ درّہ بولان کالعدم تنظیموں کا گڑھ رہا ہے جہاں رواں سال مارچ میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ بھی ہوا تھا تاہم بھاگ اور حاجی شہر جیسے علاقوں میں کالعدم تنظیموں کی اس طرز کی سرگرمیاں پہلی بار دیکھی جا رہی ہیں۔بھاگ ناڑی کوئٹہ سے تقریباً 230 کلومیٹر دور ہے ۔ یہاں بلوچ براہوی اور جاموٹ قبائل آباد ہیں۔ اس علاقے میں ڈاکوؤں کے کئی بڑے گروہ سرگرم ہیں۔
لطف علی تقریباً 30 برس سے محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہے تھے (فائل فوٹو:محمد رفیق)
ڈی آئی جی نصیرآباد کیپٹن ریٹائرڈ عاصم خان کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او لطف علی کھوسہ نے غیرمعمولی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے دہشت گرد پسپا ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ انہیں دائیں بائیں سے گولیاں لگی بلکہ انہیں پوری آگاہی تھی کہ سامنے دشمن موجود ہیں اور ان کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے سامنے کھڑے ہو کر بہادری سے مقابلہ کیا اور شہید ہوئے۔عاصم خان نے مزید کہا کہ جب بھاگ تھانے کے لیے ایس ایچ او لگایا جا رہا تھا تو دیکھا جا رہا تھا کہ کسی بہادر افسر کو تعینات کیا جائے۔اس موقعے پر لطف علی نے خود کو پیش کیا اور یہی ان کی بہادری کی واضح تصدیق ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی ایک بیان میں انسپیکٹر لطف علی کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ’شہید پولیس افسر نے فرض شناسی، بہادری اور حب الوطنی کی شاندار مثال قائم کی۔ قوم اپنے شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی نے بڑے نقصان سے بچایا ‘انسپیکٹر لطف علی کھوسہ کا تعلق سندھ سے متصل بلوچستان کے ضلع صحبت پور کے گاؤں یاسین آباد سے تھا۔ انہوں نے پسماندگان میں بیوہ، چھ بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے دو بھائی انسپیکٹر اور سب انسپیکٹر ہیں۔ ان کے بھائی انسپیکٹر محفوظ کھوسہ نے کہاکہ ’ہمارے بھائی نے بہادری سے وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ہمیں ان کی قربانی پر فخر ہے۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے انسپیکٹر لطف علی کو خراج عقیدت پیش کیا (فائل فوٹو:محمد رفیق)
لطف علی کے چھوٹے بیٹے محمد رفیق کھوسہ نے بتایا کہ والد کو خطرے کا ادراک تھا اور پہلے ہی اضافی نفری اور بکتربند گاڑی کی مرمت کی درخواست دی تھی مگر انہیں وسائل فراہم نہیں ہوئے۔’اگر انہیں بہتر سازوسامان مل جاتا تو شاید وہ آج زندہ ہوتے۔ ابو نڈر اور بہادر انسان تھے۔ ہم پر ان کا فخر ہے۔‘
لطف علی کے چچا زاد بھائی اعجاز احمد کے مطابق لطف علی تقریباً 30 برس سے محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ سپاہی کے طور پر بھرتی ہو کر انسپیکٹر کے عہدے تک پہنچے ۔ وہ منظم، نڈر اور بہادر افسر سمجھے جاتے تھے۔ جہاں حالات خراب ہوتے، افسران کہتے لطف علی کو تعینات کرو۔ان کے بقول لطف علی نے صحبت پور، جعفرآباد، نصیرآباد اور کوئٹہ میں خدمات انجام دیں۔ کچھ سال قبل نصیرآباد میں مطلوب اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کے دوران دوہرے قتل کا ایک ملزم مارا گیا جس کی وجہ سے انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور جیل جانا پڑا مگر بعد میں رہا ہو گئے۔ وہ آٹھ نو ماہ پہلے بھاگ میں ایس ایچ او لگائے گئے تھے کیونکہ وہاں ڈکیتیاں زیادہ ہو رہی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ’لطف علی زندگی میں بھی اپنی بہادری کے لیے پہنچانے جاتے تھے، انہوں نے موت بھی بہادری سے قبول کی۔ ان کی آخری لڑائی اور مزاحمت بھی بہادری کی مثال بن گئی ہے۔‘لطف علی کے بیٹے محمد رفیق کھوسہ نے رنجیدہ لہجے میں کہا کہ ’ابو ہمارے لیے سب کچھ تھے، ہمیں بہت لاڈ پیار کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم پڑھ لکھ کر پولیس افسر بنیں ۔ ہم دونوں بھائی پولیس میں جاکر ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔‘