یقیناً نہیں۔ تو پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟ ناقابل یقین حد تک بدلتا قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامہ عجب گھمبیرتا اور غیر یقینی کی سی صورتحال برپا کیے ہوئے ہے۔ یقین کے ساتھ کسی بھی صورتحال کا جائزہ لینا یا اس کا منطقی انجام تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ واقعات کی ترتیب حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہوتی جا رہی ہے۔ بہار کا چناؤ سر پر ہے۔ پاک انڈیا جنگ میں ہوئی سبکی کے بعد مودی سرکار کے لیے اس چناؤ میں جیت از حد لازم ہوا چاہتی ہے۔
یہ چناؤ طے کرے گا کہ کیا مودی اپنی جنتا کو پاکستان مخالف چورن بیچنے میں کامیاب ہو کر بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار کا واحد حقدار ٹھہراتا ہے یا شکست کی صورت میں بالآخر بی جے پی کی سیاست کا یہ سیزن یہیں ختم ہو گا۔ بہار میں جیت کے لیے مودی سرکار اور ان کے فوجی اہلکار آئے روز پاکستان کو للکار رہے ہیں، چند روز پہلے تک وزیر دفاع راج ناتھ نے فوجوں کو جنگی صورتحال کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کا بھاشن دیا تھا۔
ساتھ ہی گجرات اور سندھ کے قریب سرکریک اور بحریہ عرب کے پانیوں میں ترشول نامی بڑی جنگی مشقوں کا آغاز بھی ہوچکا۔ یہاں انڈین بری فوج، بحری فوج اور نیوی بیک وقت ان ایکشن ہوگی۔ انڈین میڈیا میں رائے پائی جاتی ہے کہ یہ محض مشقیں نہیں بلکہ سرکریک کی متنازع پٹی پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے کہ مودی سرکار کو اپنی سیاست بچانے کے لیے اب کوئی فزیکل ٹرافی درکار ہے۔
ادھر کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھی بھارتی فوج کی غیر معمولی ہل چل کی اطلاع مل رہی ہے۔
اگلے فرنٹ پر نظر دوڑائیں تو استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کا انجام کسی طور پر خلاف توقع نہیں ہوا۔ ابھی یہ مذاکرات جاری ہی تھے کہ ستائیس اکتوبر کو انڈین سرکار نے کابل میں اپنے باقاعدہ سفارتخانے کے اجرا کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ گو کہ ملا متقی کے حالیہ دورہ دہلی میں ہی ہوچکا تھا لیکن عین مذاکرات کے بیچ سفارتخانے کا یوں چالو ہونا بہر حال قابل غور نکتہ قرار پائے گا۔
پاک افغان مذاکرات میں ٹی ٹی پی یا دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ان کے کراس بارڈر کارروائیوں پر متفقہ اور باہمی میکنزم تشکیل دینے پر زبانی کلامی تو طالبان رجیم کے نمائندے تقریباً تیار ہوئے لیکن تحریری ضمانت یا اتفاق رائے سے مسلسل انکاری رہے۔ کبھی ٹی ٹی پی کو ایک فریق کا درجہ دینے کا بہانہ تو کبھی امریکی مداخلت اور موجودگی کا ذکر۔ اور تو اور قطر کی العدید ائیر بیس سے امریکی ڈرون کے دیگر فضائی آپریشن کی ذمہ داری اور انہیں رکوانے کا ذمہ بھی پاکستان سرکار پر دھرا گیا۔
ان مذاکرات کے دوران ہی کرم ایجنسی سے لے کر باجوڑ تک اور بلوچستان بھر کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی پے در پے وارداتیں پیش آتی رہیں۔ پاک افغان حالیہ کشیدگی کے شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر عجب رنگ نظر آیا۔ وہ افغان اکاؤنٹس یا ہینڈلز جنہیں بالعموم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بوجوہ زیادہ نمایاں نہیں کیا کرتے تھے اچانک سرگرم اور نمایاں ہوتے دکھائی دیے۔
چکن نیک کوریڈور انڈیا کو بنگلہ دیشی حدود کے قریب انتہائی مختصر سی راہ فراہم کرتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا سے چلنے والے سینکڑوں افغان اور نان افغان اکاؤنٹس کے ذریعے انفارمیشن وار فئیر کا نیا سلسلسہ زور و شور سے توانا ہوتارہا۔ انڈین میڈیا اور تجزیہ نگار یہ تک کہہ اٹھے کہ افغانستان کے طالبان کے ہوتے ہوئے انڈیا کو اب براہ راست پاکستان سے جنگ کی ضرورت نہیں لیکن ان کے دفاعی تجزیہ نگار طالبان اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کے ہمراہ سرکریک اور کشمیر تک کے مختلف علاقوں میں انڈین فوج کی پیش قدمی کے حق میں دلائل دیتے رہے۔
یہ الجھن یہیں الجھی تھی کہ اچانک ڈھاکہ سے آنے والی خبریں انڈیا بھر کے لیے تشویش کا باعث بننے لگیں۔ جنرل مرزا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ہیں۔ ایک ایئر کموڈور اور دیگر معاونین کے ہمراہ بنگلہ دیش کے تاریخی دورے پر تھے۔
وہاں ایک نامی اخبار کے ایڈیٹر صلاح الدین کی خبر نے دہلی میں بھونچال پیدا دیا۔ خبر کے مطابق بنگلہ دیشی فوج جنرل مرزا کو چکن نیک کے قریب سلی گوڑی کوریڈور کے تذویراتی علاقوں کا دورہ کروائے گی۔ (یہ کوریڈور انڈیا کو بنگلہ دیشی حدود کے قریب انتہائی مختصر سی راہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے انڈیا سیون سسٹرز سٹیٹس یعنی میزورام ، میگھالیہ، آسام وغیرہ تک رسائی حاصل کرتا ہے)۔
اس کوریڈور کو کاٹ دیا جائے تو انڈیا کا اپنی ان شمال مشرقی سات ریاستوں سے زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو جاتا ہے کیونکہ اس راہ کی ایک جانب بنگلہ دیش کی طویل سرحد ہے تو دوسری جانب چین کی۔
بہار میں جیت کے لیے مودی سرکار اور ان کے فوجی اہلکار آئے روز پاکستان کو للکار رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
وہ بنگلہ دیشی ایئر چیف، بری چیف، بحری چیف اور ایڈوائزر محمد یونس سے بھی ملے۔ محمد یونس نے انہیں اپنی کتاب پیش کی تو اس تصویر نے بھی بھونچال پید اکیا۔ کتاب کے ٹائٹل میں گریٹر بنگلہ دیش کا نقشہ تھا جس میں مذکورہ سات بھارتی ریاستیں بھی نقشے کا حصہ تھیں۔
یا د رہے کہ انڈیا بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی رخصتی کےبعد بار بار ڈھاکہ سرکار، پاکستان اور چین کواس کوریڈور کے حوالے سے شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔
مسئلہ البتہ اندرون خانہ سیاسی صورتحال کا ہے۔ سہیل آفریدی سے زیادہ دبنگ لہجے والا ایم پی اے پوری اسمبلی میں مزید شاید کوئی نہ ہو۔ اگر ان کا انتخاب بطور وزیر اعلیٰ ہو چکا ہے تو کابینہ کے لیے ان کی ملاقات اڈیالہ کے مکین سے ہونے میں کیا امر مانع ہے؟
کیا کابینہ ارکان سہیل آفریدی سے زیادہ خطرناک ہوں گے جو ملاقات نہیں ہو پارہی؟ افغان پالیسی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبے اور وفاق کے بیچ ایک صفحے پر نہ ہونا ہے۔ کابل میں بیٹھے تجزیہ نگار اور طالبان نواز قوتیں اس کمزوری کو لسانی رنگ دے کر اپنی پتنگ اڑا نے میں مصروف ہیں۔ اور ہم؟