تاریخ کا ’سب سے بڑا آپریشن‘: ’سر کٹی اور مسخ شدہ لاشوں‘ سمیت وہ مناظر جو ایک فوٹوگرافر نے کیمرے میں قید کر لیے

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اسے قتلِ عام قرار دیا ہے اور اس سکیورٹی پالیسی کے مؤثر ہونے پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔ فوٹوگرافر برونو اتان ان تنظیموں سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
برازیل
Getty Images

اٹھائیس اکتوبر کو صبح چھ بجے کا وقت تھا جب فوٹوگرافر برونو اتان موبائل فون پر آنے والے پیغامات کی آواز کے سبب نیند سے بیدار ہوئے۔

یہ پیغامات افواہوں سے بھرے ہوئے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپلیکسو ڈو الیماؤ میں فائرنگ ہو رہی ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں فوٹوگرافر برونو پرورش پا کر بڑے ہوئے تھے۔

اسی صبح ریو دے جینیرو کی پولیس نے خونی آپریشن کی ابتدا کی۔ برازیل کی یو ایف ایف یونیورسٹی کے مطابق یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس کی 1990 کے بعد سے کوئی مثال نہیں ملتی۔

ریو دے جینیرو کی سول ملٹری پولیس کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن میں 121 افراد ہلاک اور 113 مشتبہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ یہ آپریشن برازیل کی جرائم پیشہ تنظیم کومانڈو ورمیلہو کے خلاف الیماؤ اور پینہا کمپلیکس میں کیا گیا تھا۔

’موت کی سزا‘

اس آپریشن کو ریاستی حکومت نے ’ریو دے جینیرو میں سکیورٹی فورسز کا سب سے بڑا آپریشن' قرار دیا۔

ریو دے جینیرو میں پہلے سے ہی جرائم پیشہ تنظیم کے خلاف آپریشن جاری ہے اور 18 اکتوبر کو کی جانے والی کارروائیاں اسی آپریشن کا حصہ تھیں۔

ریو دے جینیرو کے گورنر کلاڈیو کاسترو نے اسے ایک ’کامیاب‘ آپریشن اور ’جرائم کے خلاف بڑا دھچکہ‘ قرار دیا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اسے قتلِ عام قرار دیا ہے اور اس سکیورٹی پالیسی کے مؤثر ہونے پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔

فوٹوگرافر برونو اتان ان تنظیموں سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

’برازیل میں سزائے موت نہیں۔ کسی بھی مجرم کو پکڑا جانا چاہیے اور اسے سزا کے لیے عدالت لایا جانا چاہیے لیکن 28 اکتوبر کو الیماؤ اور پینہا میں موت کی سزائیں دی گئیں۔‘

’سزائے موت کا تعین کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ پولیس تھی۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ کون جیے گا اور کون مرے گا۔‘

برونو 10 برس کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ الیماؤ میں شفٹ ہوئے تھے۔ سنہ 2008 میں انھوں نے بطور فوٹوگرافر کام کرنا شروع کیا تھا۔

وہ سنہ 2011 سے 2017 تک ریو دے جینیرو کی حکومت کے بھی سرکاری فوٹوگرافر تھے۔

وہ ایک منصوبے کے بھی بانی ہیں جس کے تحت کچی آبادی کو بچوں اور نوجوانوں کو فوٹوگرافی سکھائی جاتی ہے۔

’میری نگاہیں ان کچی آبادیوں کے مثبت پہلو پر رہتی ہیں، یہاں کا کلچر اور دیگر اچھی چیزیں۔‘

فوٹوگرافر نے آپریشن کے دوران کیا دیکھا؟

جیسے ہی برونو کو خبر ملی کہ ڈھائی ہزار پولیس اہلکار آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں وہ فوراً اس مقام پر پہنچ گئے جہاں آپریشن کیا جا رہا تھا۔

جب وہ صبح 10 بجے اس علاقے میں پہنچے تو وہاں جلی ہوئی گاڑیاں، گولیوں کے نشانہ اور گھبرائے ہوئے علاقہ مکین موجود تھے۔

فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ ’میں نے وہاں فائرنگ دیکھی، جلی ہوئی گاڑیاں دیکھیں اور سب کچھ ریکارڈ کیا۔ علاقہ مکینوں نے وہاں پولیس کے مظالم کی اطلاع بھی دی۔‘

قریب ہی واقع گیٹوئلو ورگاس ہسپتال میں تواتر سے لاشیں لائی جا رہی تھیں۔ ایک وقت پر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں 64 افراد کی لاشیں لائی گئی تھیں۔

برونو کہتے ہیں کہ ’وہاں متعدد لاشیں لائی گئیں، جن میں پولیس افسران کی لاشیں بھی شامل تھیں۔‘

پینہا کمپلیکس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی

برونو کے مطابق پینہا کمپلیکس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی تھی۔

’پولیس نے وہاں ہوائی فائرنگ کی اور ہمیں آگے نہیں جانے دیا۔ انھوں نے وہاں ایک لکیر کھینچ دی اور کہا میڈیا کو اس سے آگے آنے کی اجازت نہیں۔‘

چونکہ برونو خود بھی کچی آبادی میں ہی پیدا ہوئے تھے اس لیے وہ اندر آبادی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کے مطابق اسی رات علاقہ مکینوں نے لاپتا ہونے والے افراد کو ڈھونڈنا شروع کیا کیونکہ اموات کے حوالے سرکاری اعداد و شمار درست نہیں معلوم ہو رہے تھے۔

اس دوران علاقہ مکینوں کو 55 لاشیں ملیں جو وہ اس علاقے میں واقع مرکزی شاہراہ ساؤ لوکس سکوائر لے کر آئے۔

’علاقے میں آباد خاندانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں برآمد کیں۔ وہ موٹر سائیکلوں اور کاروں پر آئے تھے اور انھوں نے لاشوں کو کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔‘

ریو دے جینیرو کی سول پولیس کے سیکریٹری فلیپے کوری کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس معاملے کی انکوائری کا حکام دے دیا ہے اور انھیں شک ہے کہ عوامی مقامات پر لائی گئی لاشوں میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

کوری کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ان لاشوں کی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ کیموفلاج کپڑے، بلٹ پروف جیکٹیں پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاس ہتھیار بھی موجود تھے۔‘

’اس کے بعد کچھ لاشیں منظرِ عام پر آئیں جن کے جسم پر صرف انڈر ویئر تھے اور وہ ننگے پاؤں تھے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ ایک معجزہ ہے۔‘

مسخ شدہ لاشیں

فوٹوگرافر برونو کہتے ہیں کہ وہاں کچھ افراد چاقو کے وار سے بھی ہلاک ہوئے۔ ’یہ کوئی عام بات نہیں، یہ شاید ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن تھا۔‘

برونو مزید کہتے ہیں کہ ’وہاں سر کٹی لاشیں تھیں، بالکل مسخ شدہ، کسی کا چہرہ نہیں تھا، کسی کا آدھا چہرہ تھا، کسی کے ہاتھ نہیں تھے تو کسی کے پاؤں نہیں تھے۔‘

’مجھے سب سے زیادہ حیرانی ان لاشوں کو دیکھ کر ہوئی جن پر چاقو کے نشانات تھے۔ ایسی بہت سی تصاویر موجود ہیں جن میں آپ یہ ہتھیار دیکھ سکتے ہیں، ایک تیز دھار والے ہتھیار کا اثر دیکھ سکتے ہیں۔‘

برونو کہتے ہیں کہ ان کی یادداشت میں اب بھی ’موت کی بو‘ موجود ہے۔ ’جہاں میں ہوں وہاں لاشیں نہیں لیکن وہ بو اب بھی میرے حواس پر سوار ہے۔‘

بدھ کو فیڈرل پروسیکیوٹر کے دفتر نے ریو دے جینیرو میڈیکل فارینزک انسٹٹیوٹ سے اگلے 48 گھنٹوں میں تمام لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ طلب کر لی ہے۔

ریاستی حکومت سے بھی پوچھا گیا ہے کہ انھوں نے پولیس آپریشن کے دوران سپریم کورٹ کے تعین کردہ اصولوں پر عمل کیا تھا لیکن اس آپریشن کے بعد بروبو مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔

’اگر ہمارا معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جیت گیا تو یہ بات یاد رکھے کہ ہم سب ہارنے والے ہیں۔‘

’میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ منشیات کے کاروبار سے منسلک جب کوئی ایک شخص مرتا ہے تو دو، تین اور اس چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US