گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل سے البرغوثی کو رہا کرنے کا کہہ سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ میں انتظامیہ کی قیادت سنبھال سکیں۔ مروان البرغوثی کا نام ان سات قیدیوں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا جن کی رہائی کا حماس نے مطالبہ کیا تھا اور اس کے بدلے وہ 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ تھے لیکن اسرائیل اس پر راضی نہیں ہوا۔
مروان البرغوثی کا نام ان سات قیدیوں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا جن کی رہائی کا حماس نے مطالبہ کیا تھا اور اس کے بدلے وہ 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ تھےمغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے شمال میں تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں کوبر میں لوگ اس بات کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں کہ وہ طویل عرصے سے قید رہنے والے مروان البرغوثی کی رہائی کا جشن کس طرح منائیں گے۔
یاد رہے کہ مروان البرغوثی ایسی شخصیت ہیں جنھیں فلسطینیوں کے نیلسن منڈیلا اور ایک متحد کرنے والی قوت کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔
جمعے کی نماز کے بعد گاؤں کی مسجد کے باہر بات کرتے ہوئے ان کے کزن محمد البرغوثی نے مجھے بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ مروان جلد ہی رہا ہو جائیں گے۔ ہمارے ارد گرد کھڑے نوجوانوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔
مروان کے خاندان کے علاوہ اس گاؤں کے رہنے والوں کے اندر بھی امید ہے کہ یہ سب غزہ میں جاری امن کوششوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے دوہرے اثرات کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل سے البرغوثی کو رہا کرنے کا کہہ سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ میں انتظامیہ کی قیادت سنبھال سکیں۔
یاد رہے کہ مروان البرغوثی کا نام ان سات قیدیوں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا جن کی رہائی کا حماس نے مطالبہ کیا تھا اور اس کے بدلے وہ 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ تھے لیکن اسرائیل اس پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔
اتحاد کی علامت
مغبل البرغوثی کا دعویٰ ہے کہ مروان البرغوثی ہی وہ واحد شخص ہیں جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اکٹھا کر سکتے ہیںمروان البرغوثی جس دو منزلہ مکان میں پیدا ہوئے تھے وہاں وہ تب تک قیام پذیر رہے جب تک 1978 میں پہلی بار انھیں قید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ایک بڑی رنگین تصویر اُن کے جذبات اور حالات کو بیان کرتی ہے جس وقت انھیں جیل منتقل کیا جا رہا تھا۔
اس تصویر میں مروان ہتھکڑی لگے دونوں ہاتھ بلند کیے ہوئے پُرعزم انداز میں کھڑے ہیں۔
ان کے بھائی مغبل البرغوثی نے سگریٹ کے مسلسل کش اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مروان البرغوثی ہی وہ واحد شخص ہیں جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’وہ فلسطینیوں کو اس طرح متحد کر سکتے ہیں جیسے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔‘
مغبل البرغوثی فلسطینی اتھارٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ قیدیوں کی کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں اور اپنے گاؤں میں سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔
بارہا کیے جانے والے عوامی سروے کے مطابق 66 سالہ مروان البرغوثی اب تک کے سب سے مقبول فلسطینی سیاست دان ہیں۔
مروان البرغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 15سال کی عمر میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی قیادت میں فتح تحریک سے کیا تھا۔
مروان البرغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے ’فلسطینی کاز اور دو ریاستی حل‘ کی حمایت جاری رکھی۔
مروان البرغوثی کو سنہ 2002 میں اسرائیل کے آپریشن ’ڈیفنس شیلڈ‘ کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا۔ اسرائیل نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’الاقصیٰ شہدا بریگیڈز‘ کے قیام کے ذمہ دار ہیں۔ البرغوثی نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
قابل ذکر یہ ہے کہ الاقصیٰ بریگیڈ کا سنہ 2007 سے فتح تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔
دوسری انتفاضہ کے دوران ابھرنے والی الاقصیٰ بریگیڈز نے اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ برغوثی پر الزام ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے اندر شہریوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں بھی کیں۔
مروان البرغوثی کو حملوں کی مبینہ ذمہ داری پر 40 سال قید کی سزا کے علاوہ پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔
فلسطینی رہنما نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران اسرائیلی عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے خلاف عائد تمام تر الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
الاقصیٰ شہدا بریگیڈ نے کئی مہلک حملے کیے۔
مروان البرغوثی کی اہلیہ فدویٰ برغوثی (جو خود ایک فلسطینی وکیل ہیں) نے گزشتہ سال بی بی سی کو بتایا کہ ’اُن (برغوثی) کے خلاف الزامات اس لیے نہیں قائم ہوئے کہ انھوں نے یہ سب کارروائیاں کی ہیں بلکہ یہ سب اس وجہ سے تھا کہ وہ ایک فلسطینی رہنما تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران مروان البرغوثی نے ’اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا اور انھوں نے الاقصیٰ شہدا بریگیڈز کی بنیاد رکھنے کے الزام سے انکار کیا۔‘
سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے پا جائے تو مروان برغوثی فلسطینی اتھارٹی کو سنبھالنے اور مستقبل کی ریاست کی تیاری کے لیے ایک ’مشترکہ آپشن‘ ہو سکتے ہیں۔
البرغوثی کی سزا نے انھیں عوامی سطح پر معروف شخصیت بنا دیا اور انھیں عام طور پر صدر محمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل کو اپنانے کی حمایت کی۔
اگرچہ بہت سے اسرائیلی ان کی رہائی کے خیال کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ وہ پانچ افراد کے قتل میں ملوث ہیں اور ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں تاہم کچھ کا ماننا ہے کہ ان کی رہائی فلسطینیوں کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرنے، حریف دھڑوں کو متحد کرنے اور امن کے بہترین امکانات پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
’میرے والد کو سکیورٹی نہیں بلکہ سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں‘
عرب نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل میں کچھ انتہائی دائیں بازو کے وزرا ایسے ہیں جو واضح طور پر امن میں دلچسپی نہیں رکھتےمروان البرغوثی کے بیٹے عرب برغوثی کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک سیاست دان ہیں نہ کہ فوجی اہلکار جو اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث پائے گئے ہوں۔
عرب برغوثی ایک بااعتماد اور پُراثر ترجمان ہیں جو اپنے والد کے مؤقف اور مقصد کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔
رام اللہ کے ایک کیفے میں نہایت روانی سے انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے عرب نے مجھے بتایا کہان کے خاندان کو اطلاع ملی تھی کہ 14 ستمبر کو جیل میں موجود آٹھ محافظوں نے مروان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ بے ہوش ہو گئے۔
جب اس واقعے کے بارے میں بی بی سی نے اس ماہ کے اوائل میں اسرائیلی جیل انتظامیہ سے پوچھا تو انھوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’یہ الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اسرائیلی جیل سروس قانون کے مطابق کام کرتی ہے اور تمام قیدیوں کی صحت اور حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔‘
یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب غزہ میں ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق افواہیں گردش میں تھیں کہ مروان البرغوثی کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
عرب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل میں کچھ انتہائی دائیں بازو کے وزرا ایسے ہیں جو واضح طور پر امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ کھلے عام فلسطینی عوام کی نسلی کشی کی بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں وہ میرے والد کو ایک سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کبھی انھیں سکیورٹی خطرہ نہیں سمجھا کیونکہ وہ کبھی فوجی نہیں رہے، نہ ہی کوئی جنرل۔ وہ ہمیشہ ایک سیاست دان، پارلیمنٹ کے رکن اور فتح کی مرکزی کمیٹی کے ممبر رہے ہیں اس سے ذیادہ کچھ نہیں۔‘
واشنگٹن کو پیغام
مروان البرغوثی کی اہلیہ فدویٰ برغوثی وکیل ہیںمروان کی اہلیہ فدویٰ برغوثی نے صدر ٹرمپ کے نام بھیجے جانے والے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ان کے شوہر خطے میں امن قائم کرنے سے متعلق صدر کے ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے گزشتہ ہفتے ٹائم میگزین کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’جنابِ صدر، ایک سچا شراکت دار آپ کا منتظر ہے، ایک ایسا شخص جو ہمارے اُس مشترکہ خواب کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کر سکتا ہے جس سے خطے میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم ہو۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’فلسطینی عوام کی آزادی اور آنے والی نسلوں کے امن کی خاطر وہ مروان البرغوثی کی رہائی میں مدد کریں۔‘
عرب البرغوثی کا کہنا ہے کہ ان کے والد تقسیم شدہ فلسطینی سیاسی منظرنامے کو متحد کر کے ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’فلسطینی اتحاد پورے خطے کے استحکام میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ میرے والد سیاسی حل پر یقین رکھتے ہیں اور وہ 1990 کی دہائی میں بقائے باہمی اور امن کے عمل کے بڑے حامی رہے ہیں۔‘
مغربی کنارے پر اس وقت امید کا وہ احساس پیدا ہوا، جو طویل عرصے سے مقبوضہ علاقے میں محسوس ہی نہیں کیا گیا۔
حالات کے مخالف ہونے کے باوجود غزہ میں جنگ بندی برقرار رہنے اور غزہ اور وسیع تر خطے میں امن لانے کے لیے کی جانے والی امریکہ کی تازہ کوششوں نے اُس جگہ امید کو جگایا، جہاں مدتوں سے مایوسی چھائی ہوئی تھی۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے مغربی کنارہ ایک خونریز مگر خاموش جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے، جسے غزہ کے تنازع نے پس منظر میں دھکیل دیا۔
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کے امکانات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے دونوں جانب دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ اگر مروان البرغوثی کو جیل سے رہا کر کے غزہ میں امن قائم کرنے کے عمل میں شامل بھی کیا جائے تب بھی خطے کو اسرائیلی جانب سے ایک ایسے رہنما کی ضرورت رہے گی جو پرامن بقائے باہمی کا وژن رکھتا ہو۔
عرب برغوثی پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ خطے اور فلسطینی مقصد کے بارے میں سوچنے کے ایک نئے انداز کی شروعات ہو سکتی ہے اور میں صدق دل سے امید کرتا ہوں کہ ایک دن ہم آزاد، خودمختار اور باعزت زندگی گزار سکیں گے اور ہمارے بچے امن کے ساتھ جی سکیں گے۔‘