سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے اجلاس میں فنانس ڈویژن آئی ایم ایف سے حاصل 3.3 ارب روپے کے فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام رہا جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے لیسکو کے ایس ٹی جی سامان کی خریداری فوری طور پر روکنے کا بھی حکم دے دیا۔
اجلاس چیئرمین سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیرِ صدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کی غیر موجودگی پر اراکین نے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر کی موجودگی شفاف گفتگو کے لیے ضروری ہے۔
اجلاس میں ملتان کے تاریخی علاقے کی بحالی کے منصوبے کے غیر استعمال شدہ فنڈز پر غور ہوا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبے کی کل لاگت 850 ملین روپے تھی، تاہم 679 ملین روپے بغیر کسی رپورٹنگ کے دیگر منصوبوں میں منتقل کر دیے گئے۔ چیئرمین کمیٹی نے اسے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقتصادی امور ڈویژن کو مکمل ریکارڈ، منظوریوں، فنڈز کے استعمال اور فزیبلٹی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
کمیٹی نے آئی ایم ایف فنڈز کے شفاف استعمال پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مجموعی اعداد و شمار موجود ہیں تاہم ان کی آڈٹ ٹریل دستیاب نہیں۔ فنانس ڈویژن کے نمائندے 3.334 ایس ڈی آر کے فنڈ کی تفصیلات فراہم نہ کر سکے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 30 جون 2025 تک پاکستان کے بیرونی قرضے 126 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جن میں 82.5 ارب ڈالر بیرونی عوامی قرضے اور 43.5 ارب ڈالر اندرونی واجبات شامل ہیں۔
سینیٹر فلک ناز نے چترال کی خراب سڑکوں پر عوامی مشکلات اور سیاحت پر منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق 85 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور بقیہ کام نومبر 2025 تک مکمل کیا جائے گا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگلا اجلاس چترال میں منعقد کیا جائے گا تاکہ منصوبے کی پیش رفت موقع پر دیکھی جا سکے۔
چیئرمین سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ مالی شفافیت، پی پی آر اے قوانین پر عملدرآمد اور قرضوں کے درست اعداد و شمار ملک کے مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے اعتماد کے لیے ناگزیر ہیں۔