جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان سے شدت پسندوں کا ایک گروہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ٹی ٹی پی کمانڈر قاری امجد عرف مزاحم سمیت چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔
                    
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ قبائلی ضلع باجوڑ میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اہم کمانڈر سمیت چار جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان سے شدت پسندوں کا ایک گروہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ٹی ٹی پی کمانڈر قاری امجد عرف مزاحم سمیت چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ قاری امجد کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے نائب اور رہبری شوریٰ کے سربراہ تھے۔ 
پاکستان حکومت نے ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی اپنے بیان میں قاری امجد اور ان کے ایک ساتھی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
قاری امجد عرف مزاحم کون تھے؟
قاری امجد اور مفتی حضرت دیروجی کے ناموں سےمشہور مفتی مزاحم 2018 سے مارچ 2024 تک سب سے طویل عرصے تک کالعدم ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ رہے ہیں۔
قاری امجد کا شمار کالعدم مسلح تنظیم کے بااثر کمانڈروں میں ہوتا تھا اور انھیں امریکہ نے بھی دسمبر 2022 میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
اس وقت امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ قاری امجد کو ٹی ٹی پی میں بیرون ملک، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں آپریشنز کی ذمہ داری سونپی گئی۔
قاری امجد کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تھا اور پاکستانی فوج اور امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وہ افغانستان میں موجود تھے۔
وہ تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے بعد ٹی ٹی پی کے سب سے بااثر رہنما تھے جنھوں نے اپنی تنظیم کے عسکری ونگ کو منظم کرکے اس کے حملوں کی تعداد اور شدت میں خطرناک حد تک اضافہ کیا۔
سنہ 2021 میں جب کالعدم ٹی ٹی پی نے پہلی مرتبہ اپنی شیڈو کابینہ کا اعلان کیا تو وہ مسلسل تین سال اس کے وزیر جنگ یا وزیر دفاع رہے۔
قاری امجد ٹی ٹی پی کی موجودہ رہبریشوری کے رُکن اور اس کے جنوبی زون کے ملٹری کمیشن کے سربراہ تھے۔ آسان الفاظ میں وہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بشمول شمالی و جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ٹی ٹی پی کے آپریشنل نیٹ ورک کے سربراہ تھے۔
قاری امجد کے خاندان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ انھوں نے نویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ کر مذہبی تعلیمی اداروں میں داخل لیا تھا اور وہ ضلع شانگلہ اور اس کے بعد کراچی کے دیوبندی مذہبی اداروں میںزیرتعلیم رہے، جہاں سے انھوں نے مفتی کی سند حاصل کرنے تک تعلیم حاصل کی۔
باقاعدہ عسکریت پسند بننے سے قبل وہ مالاکنڈ ڈویژن میں مولوی صوفی محمد کی زیر قیادت تحریک نفاذ شریعت محمدی تنظیم کا بھی حصہ رہے تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ اپنی جوانی میں یعنی سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب اس علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی اور تنظیم میں شمولیت کے بعد انھوں نے شدت پسندی کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے قاری امجد سنہ 2010 میں افغانستان چلے گئے تھے اور پھر ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ چند برس بعد قاری امجد واپس پاکستان اپنے علاقے میں آئے تھے تاہم کارروائی کے خوف سے وہ جلد ہی واپس افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ قاری امجد کے ایک بھائی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہو گئے تھے تاہم بی بی سی اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں کر سکا۔ مقامی افراد کے مطابق منظر عام سے غائب ہونے یا دوبارہ افغانستان جانے کے بعد ان کا اپنے علاقے سے رابطہ کم رہا۔
 سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب ان کے علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی
سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب ان کے علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھیکشمیری جہادی گروہوں سے تعلق
49 سال کی عمر میں مرنے والے قاری امجد نے 1990 کیدہائی کے اوائل میں کشمیری عسکریت پسند تنظیم حرکت الانصار کے پلیٹ فارم سے عسکریت پسندی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
حرکت الانصار کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کے خلاف لڑنے کے علاوہ افغانستان میں بھی عسکری طور پر فعال تھی۔
قاری امجد نے1996 میں حرکت الانصار کے کمانڈر مولوی عبدالجبار کے ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت میں جنگ میں حصہ لیا۔
سنہ 2000 میں جب انڈیا کی قید سے رہائی کے بعد مولانا مسعود اظہر نے جیش محمد کے نام سے الگ تنظیم قائم کی تو قاری امجد بھی دیگر سینکڑوں پاکستانی عسکریت پسندوں کے ساتھ جیش محمد میں شامل ہو گئے۔
تاہم دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کے رسمی قیام سے قبل وہ جیش محمد سے علیحدہ ہو کر پاکستان میں ریاست مخالفجنگ میں شامل ہوگئے۔
ملّا فضل اللہ سے قربت
کالعدم ٹی ٹی پی کے قیامسے قبل قاری امجد مالاکنڈ ڈویژن میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کی قیادت میں بننے والے مقامی طالبان نیٹ ورک میں آبائی ضلع دیر کے لئے قاضی مقرر ہوئے تھے۔
تاہم مالاکنڈ ڈویژن میں سنہ 2009 کے فوجی آپریشن کے بعد وہ ضلع دیر کے لیے ٹی ٹی پی کے عسکری ونگ کے سربراہ مقرر ہوئے۔
سنہ 2014 میں جب ملا فضل اللہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مقرر ہوئے تو قاری امجد کو ضلع دیر کے ساتھ بلوچستان کے بھی آپریشنل نیٹ ورک کی ذمہ داری دے دی گئی۔
ایک اہم آپریشنل کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری امجد ٹی ٹی پی سے منسلک میڈیا کے ذریعے تنظیم کے اہم پیغامات، بیانات اور انٹرویوز بھی شائع کرواتے تھے۔
سنہ 2022 میں پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وقت قاری امجد ٹی ٹی پی کے وفد کے رکن تھے۔
 کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ
کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ مذاکرات کی ناکامی کے بھی ٹی ٹی پی نے 28 نومبر کو جنگ بندی ختم ہونے کا اعلان کیا۔ ملک بھر میں حملے کرنے کے حوالے سے جو اعلامیہ اس وقت کالعدم تنظیم نے جاری کیا تھا اس پر قاری امجد عرف مفتی مزاحم کے دستخط تھے۔
اکتوبر 2024 میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا نے ایک ویڈیو میں قاری امجد کو تنظیم کے دیگر اہم کمانڈروں کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے دکھایا تھا۔
 اسی طرح 17 اکتوبر 2025 کو بھی عمر میڈیا نے قاری امجد کی ایک ویڈیو جاری کی تھی کی جس میں انھیں باجوڑ کے مختلف علاقوں میں مسلح عسکریت پسندوں کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کے بڑھتے حملے اور پاکستان، افغانستان کشیدگی
پاکستانی حکومت بارہا یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ شدت پسند تنظیم افغانستان کی سر زمین کا استعمال کر کے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ افغانستان اس الزام کی بار بار تردید کرتا رہا ہے۔
اپنے تازہ ترین بیان میں پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستان میں شدت پسندوں کے داخلے کی کوششیں کروا رہی ہے تاکہ تنظیم کی ’اندرونی موجودگی کا تاثر دیا جا سکے اور باجوڑ اور مہمند میں خوارج کے گرتے ہوئے حوصلے کو بلند کیا جا سکے۔‘
خیال رہے پاکستانی حکومت اور ادارے شدت پسندوں کو ان کے ناموں سے نہیں پکارتے بلکہ انھیں ’فتنہ الخوارج‘ کہتے ہیں۔
یہی ٹی ٹی پی رواں مہینے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا باعث بنی تھی۔اس دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا بھاری جانی و مالی نقصان کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
19 اکتوبر کو یہ جھڑپیں قطر میں ہونے والے ایک جنگ بندی کے معاہدے پر ختم ہوئی تھیں۔
تاہم رواں ہفتے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان استنبول میں ہونے والا مذاکرات کا دوسرا دور ’بے نتیجہ‘ رہا اور اس موقع پر پاکستانی وزرا کی جانب سے جارحانہ بیانات بھی سامنے آئے۔
بدھ کو کو اپنے ایک طویل بیان میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’پاکستان واضح کرتا ہے کہ اسے طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انھیں غاروں میں چھپنے کے لیے مجبور کرنے میں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔‘
تاہم پاکستان میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ترکی کی درخواست پر مذاکرات کا عمل جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندے سہیل شاہین نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ دونوں حکومتوں کے وفود اس وقت بھی استنبول میں موجود ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں کی ہلاکتیں
قاری امجد کی ہلاکت اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ یہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی کارروائیوں کا ایک تسلسل ہے۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا، لیکن دوسری طرف سکیورٹی فورسز بھی مسلح تنظیم کے کمانڈروں کو ہلاک کرتی رہی ہیں۔
نومبر 2024 میں ٹی ٹی پی کی رہبری شوریٰ کے رکن مولوی طحہ متعدد عسکریت پسندوں کے ہمراہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح اپریل 2025 میںضلع مالاکنڈ میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر مفتی مبارز کوچوان سکیورٹی فورسز کی ایک انٹیلجنس بیسڈ کارروائی میں مارئے گئے تھے۔
طحہ اور مفتی مبازر دونوں کا تعلق مزاحم ہی کی طرح مالاکنڈ ڈویژن سے تھا۔ مفتی مبازر سواتی طالبان کے نام سے مشہور ٹی ٹی پی کی ایک اہم سابق شاخ کے سینئیر رہنما تھے۔
سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں کی ہلاکتوں کا آغاز 2024 کے اوائل میں تھا۔ یہ سب مارے گئے کمانڈرز اپنے متعلقہ اضلاع میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کے براہ راست منصوبہ ساز اورآپریشنل نیٹ ورکس کے سربراہ تھے۔
ان کارروائیوں میں فروری 2024 میں مردان ڈویژن کے سربراہ محسن قادر اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ میں ضلع مردان میں جبکہ جولائی 2024 میں پشاور کے مضافات میں اہم کمانڈر عبدالرحیم ایک انٹیلجنس بیسڈ کارروائی میں ہلاک ہوئے۔ عبدالرحیم پشاور کےمضافاتی علاقوں میں پولیس اور فورسز پر حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز تھے۔
اس کے علاوہ اکتوبر 2024 میں باجوڑ میں قریشی استاد، جنوری 2025 میں ضلع خیبر میں قاری اسماعیل اور فروری 2025 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ثاقب گنڈاپور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
یہ تمام افراد اہم ٹی ٹی پی کمانڈر تھے جو اپنے متعلقہ اضلاع میں مسلح تنظیم کے آپریشنل نیٹ ورکس کے سربراہ تھے۔
