آرمی پبلک سکول حملے سے قومی ٹیم میں شمولیت تک: ’کاش میرا بھائی مجھے پاکستان کے لیے کھیلتا دیکھنے کے لیے زندہ ہوتا‘

عمر اب 18 برس کے ہیں اور ان کا قد چھ فٹ تین انچ ہے۔ اس قتل عام کے 11 برس بعد وہ اب ریکسہیم ایف سی اکیڈمی کا حصہ ہیں اور انھوں نے حال ہی میں پاکستان کی قومی ٹیم میں ڈیبیو کیا۔
عمر اب 18 برس کے ہیں اور ان کا قد چھ فٹ تین انچ ہے
Ziyad Baig
عمر اب 18 برس کے ہیں اور ان کا قد چھ فٹ تین انچ ہے

عمر نواز صرف سات برس کے تھے جب پاکستان میں ایک ہولناک دہشتگرد حملے نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔

16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر پاکستانی طالبان کے حملے میں 141 افراد ہلاک ہوئے تھے اور جب عمر کو پتا چلا کہ ان کے بھائی بھی مرنے والوں میں شامل ہیں تو انھوں نے سوچا تھا کہ وہ ’خواب‘ دیکھ رہے ہیں۔

پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

عمر کے بڑے بھائی احمد کو بھی اس حملے کے دوران بازو میں گولی لگی تھی، جس کے بعد انھیں فوری سرجری کی ضرورت تھی۔

بی بی سی نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے عمر نے بتایا کہ ’ہمیں احمد کے علاج کے لیے برطانیہ آنا پڑا اور تب ہی ہمیں محسوس ہوا کہ برطانیہ رہنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘

’مجھے نہیں لگتا تھا کہ پاکستان واپس جانا محفوظ ہو گا۔‘

’یہ میرے خاندان کے لیے دکھ کا وقت تھا خاص طور پر میرے ماں باپ کے لیے جنھوں نے اپنا ایک بیٹا کھو دیا تھا۔‘

عمر اب 18 برس کے ہیں اور ان کا قد چھ فٹ تین انچ ہے۔ اس قتل عام کے 11 برس بعد وہ اب ریکسہیم ایف سی اکیڈمی کا حصہ ہیں اور طہ حال ہی میں پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے بھائی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کو دیکھنے کے بعد جب میں پہلی بار برمنگھم آیا تو میں صدمے کا شکار تھا کہ اگر یہ سب دوبارہ ہو گیا تو؟‘

’لیکن جب میں سکول گیا تو میں نے خود کو بہت محفوظ محسوس کیا۔ مجھے واقعی سکون ملا۔‘

عمر نے پرائمری سکول میں صرف چار ماہ کے بعد انگریزی سیکھ لی اور اپنے مقامی پارک میں فٹبال کھیلنا شروع کر دیا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے ’فٹبال کے لیے بنیادی پریکٹس شروع کر دی۔‘

آرمی پبلک سکول حملہ
AFP
16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر پاکستانی طالبان کے حملے میں 141 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت طلبا کی تھی

عمر نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ انھیں مقامی فٹبال ٹیم بورن ویل ایف سی میں شامل کروائیں، جہاں انھیں پریمیئر لیگ میں وولور ہیمپٹن ایف سی کے لیے سکاؤٹ کیا گیا۔ اس کے بعد وہ ریکسہیم ایف سی اکیڈمی کا حصہ بنے۔

عمر جو مانچسٹر سٹی کے بڑے فین ہیں، کہتے ہیں کہ ’میرا سٹائل ہالینڈ جیسا ہے، میں ان کی طرح کھیلتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ ایرلنگ براٹ ہالینڈ ناروے کے پیشہ ور فٹبالر ہیں جو پریمیئر لیگ کلب مانچسٹر سٹی اور ناروے کی قومی ٹیم کے لیے بطور سٹرائیکر کھیلتے ہیں۔

عمر اس بارے میں مذاق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جلد ہی ان کے والد نے انھیں روزانہ کی بنیاد پر 14 ابلے انڈے، چکن بریسٹ اور چاول کھلانا شروع کر دیے تاہم اسی ڈسپلن کی وجہ سے وہ نومبر میں شام کے خلاف پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم کے لیے کھیلتے ہوئے پہلی بار بین الاقوامی سطح پر سامنے آئے۔

اس کے لیے انھیں پہلی بار پاکستان واپس جانا پڑا جو ایک تلخ تجربہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرے لیے پریشان کن تھا۔ اس جگہ پر میں نے اپنے بھائی کو کھویا تھا۔‘

لیکن عمر اس بات کے لیے پر عزم تھے کہ وہ سانحے کو خود پر سوار نہیں ہونے دیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے جانا پڑا۔ پاکستان میرا ملک ہے۔ یہ بہت بڑا لمحہ تھا۔‘

’میرے جس بھائی کی موت ہوئی، وہ یقیناً مجھے دیکھ کر فخر محسوس کرتا۔ کاش وہ مجھے پاکستان کے لیے کھیلتا دیکھنے کے لیے زندہ ہوتا۔‘

’ہجوم میں شاید وہ ہی میرا سب سے پڑا سپورٹر ہوتا۔‘

عمر کو پشاور میں گزرے اپنے بچپن کے بارے میں زیادہ کچھ یاد نہیں لیکن ایک چیز جو انھیں یاد ہے کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، خاص کر کے اپنے اس بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیلنا جسے میں نے کھو دیا۔‘

’میرا اور اس کا ہمیشہ مقابلہ رہتا۔ وہ مجھے ہرا دیتا تھا کیونکہ وہ بہت اچھا کرکٹر تھا۔‘

عمر کے بھائی احمد سنہ 2022 میں آکسفرڈ یونیورسٹی یونین کے صدر تھے
Getty Images
عمر کے ایک بھائی احمد سنہ 2022 میں آکسفرڈ یونیورسٹی یونین کے صدر تھے

عمر کہتے ہیں کہ اس حملے میں بچ جانے ان کے دوسرے بھائی احمد نے بھی انھیں بہت متاثر کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی ان کے لیے رول ماڈل ہیں۔

واضح رہے کہ عمر کے بھائی احمد سنہ 2022 میں آکسفرڈ یونیورسٹی یونین کے صدر تھے۔

عمر کہتے ہیں کہ ’وہ میری بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہم سب ان پر فخر محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر ان کے بازو میں گولی لگنے کے بعد۔‘

ایمان نے بھی عمر کے اس سفر میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ’میں اچھا کھیلوں یا برا لیکن میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اچھے یا برے وقت میں اللہ سے جڑے رہنا اچھا ہے۔‘

عمر مزید بین الاقوامی میچز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مستقبل میں آپ پاکستانی ہالینڈ کو دیکھیں گے۔‘

’امید ہے کہ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ گول کروں گا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اچھی چیزیں آنے والی ہیں۔‘

’میں صرف اپنے خاندان اور بھائی کو فخر محسوس کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US