اورل یا منھ کا کینسر پاکستان میں مردوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا کینسر ہے جبکہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بعد منھ کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق پان، چھالیہ، گٹکا، نسوار کے ساتھ ای سگریٹ یا ویپ بھی منھ کے کینسر کا سبب بنتا ہے اور اب 20 سال کی عمر کے نوجوان بھی اورل کینسر سے متاثر ہو رہے ہیں۔
منھ کے کینسر کی بروقت تشخیص اور علاج سے صحتیاب ہونے والے گلفام (دائیں) اور خدیجہ (بائیں)کراچی میں منھ کے کینسر میں مبتلا رہنے والی خدیجہ کہتی ہیں کہ ’آپ شاید اس بیماری میں جسمانی تکلیف برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن جذباتی اور ذہنی دباؤ سے آپ کو لگتا ہے کہ جیسے میرا سجا سجایا گھر اُجڑ جائے گا، میری نوکری چلی جائے گی، میری فیملی مشکل میں آ جائے گی، میرا چہرہ بگڑ جائے گا۔‘
اسی طرح گلفام کا کہنا ہے کہ ’جس طرح کی بدبو منھ سے آتی ہے اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ اب میں لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ ماوا ،پان گٹکا، نسوار، سگریٹ یہ سب بیکار کی چیزیں ہیں۔ یہ اندر سے منھ کو گلا کر ختم کر رہی ہوتی ہیں۔‘
اورل یا منھ کا کینسر پاکستان میں مردوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا کینسر ہے جبکہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بعد منھ کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق پان، چھالیہ، گٹکا، نسوار کے ساتھ ای سگریٹ یا ویپ بھی منھ کے کینسر کا سبب بنتا ہے اور اب 20 سال کی عمر کے نوجوان بھی اورل کینسر سے متاثر ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حلق، ناک، زبان، گردن اور منھ کے اندر کے تمام حصوں میں پایا جانے والا کینسر اورل کینسر یا منھ کا سرطان کہلاتا ہے۔
منھ کے کینسر کی تشخیص سے لے کر علاج تک کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا تو وہیں سماجی رویے اور ہر وقت موت کا خوف بھی ہمت کو بار بار توڑتا ہے۔
بی بی سی نے خدیجہ اور گلفام سمیت منھ کے کینسر سے متاثرہ چند افراد سے ان سے علاج کے دوران کے چیلینجز اور بروقت تشخیص کی اہمیت سے متعلق بات کی اور ساتھ ہی اس شعبے کے ماہر ڈاکٹرز سے مرض کی علامات، وجوہات اور علاج پر بھی جانیں۔
عباسی شہید ہسپتال کراچی میں معائنہ کے دوران خدیجہ اور ڈاکٹر سفیان’15 دن گزرنے پر بھی چھالا ٹھیک نہ ہوا‘
خدیجہ کراچی کے ایک کالج میں لیکچرار ہیں جو مختلف آپریشنز سے گزر کر اس وقت کینسر سے شفا یاب ہو چکی ہیں مگر اس کے علاج میں انھیں جس جسمانی اور ذہنی تکلیف گزرنا پڑا وہ جھیلنا ہرگز آسان نہ رہا۔
بی بی سی سے اپنے اس مرض کی شروعات پر بات کرتے ہوئے خدیجہ نے کہا کہ ’پان، چھالیہ گٹکا یہ چیزیں تو کبھی میں نے کبھی استعمال نہیں کیں۔ میں شروع سے خون کی کمی کا شکار تھی اور میرے منھ میں چھالے اکثر و بیشتر ہو جایا کرتے تھے۔‘
’تو اس دن میں اخروٹ کھا رہی تھی تو مجھے وہ کھا کر منھ میں جلن کا احساس ہونے لگا۔ صبح تک جو اس میں تکلیف برقرار رہی پھر میں نے اس کو آئینے میں جائزہ لیا کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے، تو مجھے وہاں پہ ایک چھوٹا سا ایک چھالا سا نظر آیا۔‘
خدیجہ کے مطابق ’کچھ دن تو انھوں نے اس کو نظر میں رکھا کہ یہ کس حد ٹھیک ہوا۔ جب 15 دن گزرنے پر بھی وہ چھالا ٹھیک نہ ہوا تو وہ فوراً الرٹ ہو گئیں اور وقت ضائع کیے بغیرماہر ڈاکٹر کے پاس چیک کروایا۔‘
’میں یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید میرا دانت کوئی ٹکرا رہا ہے اس کی وجہ سے زخم ہو گیا ہے لیکن جب ٹیومر ہو گیا تو انھوں نے فورا مجھے کہا کہ اب بائیوپسی ہی ہوگی۔‘
تشخیص ہونے کے بعد خدیجہ کا آپریشن کیا گیا تاہم اس سرجری کے 15 دن بعد تک خدیجہ نے آئینہ نہیں دیکھا۔ اس گریز کی وجہ اپنے خوبصورت چہرے کے بدنما ہو جانے سے متعلق ان کے اندر کا خوف تھا۔ اس ڈر نے ان کے اندر لوگوں کے تاثرات کے باعث جگہ بنائی تھی۔
کم آمدنی والا طبقہ زیادہ متاثر اور علاج تک رسائی بھی مشکل
عبدالرزاق کو گلے کے اندر ٹیومر کے کامیاب علاج کے باوجود مختلف سائیڈ ایفیکٹ کا سامنا رہاآغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی ڈاکٹر یاسمین عبدالرشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ منھ کے کینسر 90 فیصد پان، گٹکا،چھالیہ، تمباکو، ماوا اور نسوار کھانے سے ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کے استعمال سے منھ کے اندر کی کی جھلی سخت ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ منھ کا کھلنا کم ہو جاتا ہے۔ اگر اس بروقت علاج نہ کیا جائے تو کچھ سالوں کے بعد وہ کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
معاشی لحاظ سے کمزور کراچی کے رہائشی گلفام کے منھ کے اوپر ایک ٹیومر بنا ہوا ہے۔ خدیجہ کے برعکس گلفام پان اور سگریٹ کے عادی شخص رہے تھے تاہم چند سال قبل وہ اس کی عادت ترک کر چکے تھے۔
’میں ڈرائیوری کا کام کرتا تھا اور اس دوران پان اور سگریٹ کی لت پڑ گئی تھی تاہم پھر بمشکل اس لت سے چھٹکارا پایا۔ کچھ مہینے پہلے میرے منھ کے اندر چھوٹا سا دانا نمودار ہوا تو میں نے اس پہ توجہ نہیں کی اور میڈیکل سے دوا لے کر کھا لی اور کوئی درد کشا تیل لگا لیا۔ لیکن کچھ دن میں یہ پھول کر بڑا ہو گیا۔‘
گلفام کے مطابق ’پھر اس دانے میں مواد بھر گیا اور ابھر کر چہرے کے سامنے آ گیا۔ جس کے بعد میں ہسپتال آیا اور ڈاکٹر نے بائیوپسی کروائی جس میں ٹیومر کی نشاندہی ہوئی اور دو فیصد کینسر آیا۔ اگر اس وقت علاج نہ کرواتا تو یہ جان لیوا کینسر بن جاتا۔‘
ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں کہ منھ کے کینسر کا تناسب مردوں میں زیادہ ہے لیکن اب خواتین میں بھی اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ’زیادہ تر یہ مرض ہم کم آمدنی والے طبقے میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نشہ آور اشیا ہوتی ہیں تو وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو گویا وہ کینسر کو پیسہ دے کر خرید رہے ہوتے ہیں۔ اور دوسری جانب غربت کے باعث اس کے مہنگے علاج کے پیسے بھی ان کے پاس نہیں ہوتے۔‘
ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں کہ ’گٹکے اور پان چھالیا ماوا کا جب لیبارٹری میں تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس میں کافی مضر اثرات دھاتیں اور نشہ آور اشیا شامل کی جاتی ہیں تاکہ لوگ اس کے عادی ہو جائیں۔ یہ دھاتیں اور کیمیکلز منھ کی جھلی کو سخت کر کے کینسر کا باعث بنتی ہیں۔‘
دوسری جانب پروفیسر ڈاکٹر سفیان احمد کہتے ہیں کہ منھ کے کینسر میں مریض کی سرجری میں میکسیلوفیشل سرجن، ای این ٹی اور پلاسٹک سرجن حصہ لیتے ہیں اس کے ساتھ سرجری کے بعد دوائیں اور شعائیں بھی ضروری ہوتی ہیں جو اس سارے علاج کو مہنگا اور مشکل بنا دیتی ہیں۔
منھ کے کینسر کی عام علامات

بی بی سی نے منھ کے کینسر کی علامات اور علاج کی صورتحال جاننے کے لیے کراچی کے سرکاری ہسپتال عباسی شہید کا دورہ کیا اور وہاں معائنے کے لیے آنے والے مریضوں سے بات چیت کی۔
اس ہسپتال سے وابستہ اورل اینڈ میکسیلو فیشل سرجن پروفیسر ڈاکٹر سفیان احمد نے ہمیں منھ کے کینسر کی عام علامت بتاتے ہوئے کہا کہ منھ کے اندر ہونے والے غیر معمولی اور دیر تک رہنے والے چھالے یا منھ کا پورا نہ کھلنا خطرے کی علامات کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کے مطابق
- ایسا چھالا جو تین ہفتے سے زیادہ منھ میں موجود رہے
- کوئی زخم یا چھالا جس میں تکلیف اس کے تناسب کے برابر نہ ہو یعنی چھالا بہت بڑا ہو اور تکلیف بڑی معمولی سی ہو
- منھ کی جھلی کے رنگ میں تبدیلی، منھ کی جھلی میں سفید اور لال دھاریوں کا ہونا
- کسی گلٹی کا ہونا کوئی ایسا لمپ یا ابھار جو غیر معمولی ہو
- آواز میں واضح تبدیلی کا ہونا
- کوئی زخم یا خراش یا فلنگ جو منھ میں مسلسل بے آرامی یا تکلیف کا باعث ہو
ڈاکٹر سفیان احمد کے مطابق یہ ساری وہ علامات ہیں جو کینسر کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔ تو کچھ ہفتے تک اگر یہ علامت سامنے آئیں تو مریض کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی شکل میں اگر آپ تمباکو لے رہے ہیں تو آپ زیادہ خطرے پہ ہیں منھ کے کینسر کے بہ نسبت اس کے جو تمباکو استعمال نہیں کر رہا۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ جو تمباکو استعمال نہیں کر رہا اس کو اورل کینسر نہیں ہو سکتا۔ ہیومن پیپولوما سمیت دنیا میں کچھ وائرسز ایسے ہیں جو منھ کے کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنیاتی طور پر کچھ لوگوں میں اورل کینسر کا رجحان ہوتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں کا ’ڈیفیشینسی اینیمیا‘ یعنی غذائیت کی کمی کی وجہ سے جسم کے دفاع کا نظام کمزور ہوتا ہے اور ان میں کینسر ہونے کا زیادہ رجحان پیدا ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق سگریٹ کے اندر نکوٹین کے ساتھ 300 کے قریب ایسے کمپاؤنڈز ہیں جو کینسر کے سیلز کو بناتے ہیں اسی طرح پان چھالیہ کے اندر ایروکولین پایا جاتا ہے جو منھ کی جھلی کو سخت کرتا ہے اور ایسے لوگوں کے اندر کینسر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ای سگریٹ یا ویپ سے منھ اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ
تو کیا ای سگریٹ بھی کینسر کا سبب بنتا ہے؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر سفیان نے بتایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ویپ بے ضرر ہے ایسا ہرگز نہیں۔
’پھیپھڑوں کا کینسر اور ماؤتھ کینسر دونوں میں ای سگریٹ کے اندر موجود کیمیکلز کے اندر ایسے اثرات ثابت ہو چکے ہیں جو نارمل خلیے کو کینسر کے خلیے کے اندر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ مطالعات میںویپ کو ایک عام سگریٹ سے زیادہ نقصان دہ اور زیادہ مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔‘
ڈاکٹر سفیان کے مطابق ’2022 کے اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ صرف کراچی میں منھ کے کینسر کے نئے کیسز کی تعداد 16 ہزار تھی۔ پچھلے 20 سال میں اس سے متاثر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
’بچپن سے اگر یہ پان چھالیہ گٹکا کھانا شروع کیا جائے تو اس وقت سے منھ کی جھلی زخمی ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ایک زمانے میں منھ کے سرطان اور ٹیومر کی بیماری بڑی عمر کے افراد کو متاثر کرتی تھی تاہم اب بیس کی دہائی میں موجود نوجوان بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
آغا خان ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر یاسمین رشید کہتی ہیں کہ ’عموما 30 سے 40 سال یا اس سے بڑی عمر کے لوگوں میں منھ کے کینسر کی تشخیص ہوا کرتی تھی لیکن اب ہم 20 سے 22 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بھی منھ کا کینسر دیکھ رہے ہیں۔‘
’اگر کسی نے بہت بچپن سے اگر یہ پان چھالیہ گٹکا کھانا شروع کیا ہے تو اس وقت سے منھ کی جھلی زخمی ہونا شروع ہوئی ہے۔ تو ٹین ایج میں ہی ’پری کینسرز کنڈیشن‘ شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر اس پر بروقت ایکشن نہ لیا جائے تو یہ چند سالوں بعد کینسر کا باعث بنتا ہے۔‘
ہمارے ہاں سگریٹ، پان چھالیہ گٹکا کے خلاف قوانین تو بنے ہوئے ہیں اگر اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو 90 فیصد اورل کینسر ختم ہو جائیں گے پھر صرف وہی باقی بچ جائیں گے جو دیگر وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں۔
اب کینسر کسی کو ہو گیا تو بہت ضروری ہے کہ اس پر ابتدائی سٹیج پر توجہ دے کرعلاج کروایا جائے جب وہ چھوٹا کینسر ہے پھیلا نہیں ہے اس سے علاج نہ صرف کم تکلیف دہ ہو گا بلکہ خرچ بھی کم ہو گا۔ ڈرنے یا گھبرانے کے بجائے مستند علاج کی جانب جائیں، ٹوٹکوں یا غیر مستند علاج سے گریز کریں۔
ان کے مطابق ’ہم زیادہ تر ایسی سٹیج پر کینسر دیکھتے ہیں جب وہ بڑے ٹیومر بن جاتے ہیں اس میں سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے اس میں بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے کھانا پینا بند ہو جاتا ہے۔ اس میں ہم صرف تکلیف کم کر سکتے ہیں کینسر کو کیور نہیں کر سکتے یہاں تک کہ کیمو دے کر اس کو کم نہیں کیا جا سکتا اس لیے بروقت علاج بہت ضروری ہے۔
بائیوپسی سے ہچکچاہٹ اور لاحاصل ٹوٹکے
ڈاکٹر یاسمین کے مطابق ’سرجری کے بعد دوبارہ انھی عادات کی جانب دوبارہ جاتے ہیں تو کینسر واپس آنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں‘کینسر کے علاج میں بروقت تشخیص کے لیے بائیوپسی ہونا ضروری ہوتی ہے تاہم بہت سے لوگوں میں اس کے حوالے سے توہمات پائے جاتے ہیں جس کے باعث علاج و تشخیص میں تاخیر ہوتی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سفیان کے مطابق مریضوں کے ذہن میں خودساختہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو ان کے علاج میں دیر کا باعث بن جاتی ہیں۔ کئی مریض کہتے ہیں کہ ہم بائیوپسی نہیں کروائیں گے کیونکہ مرض بڑھ جائے گا۔
’ایک بات واضح ہے کہ کسی کی بائیوپسی کرنے سے کوئی زخم کینسر میں تبدیل نہیں ہو گا اور اگر کینسر موجود ہے اور ہم کسی کی بائیوپسی کریں یا نہ کریں وہ کینسر بڑھ جائے گا۔ کئی لوگ دم درود یا ہومیو پیتھک، حکمت کی جانب چلے جاتے ہیں اور اس سے علاج میں تاخیر ہوتی ہے اور مرض بڑھتا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’نوے فیصد مریض سٹیج فور میں آتے ہیں۔ سٹیج فور کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم اگر سٹیج فور کے مریض کا ہم آپریشن کر کے اس متاثرہ حصے کو نکال سکتے ہیں گو کہ اس کا نتیجہ کوئی بہت زیادہ امید افزا دنیا بھر میں نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر سفیان کہتے ہیں کہ کینسر کی بیماری میں دو چیزیں مدد کر پاتی ہیں ایک بروقت تشخیص جب بیماری بہت پھیلی ہوئی نہ ہو دوسرا اس کا درست طریقے سے علاج ہو جائے۔
اگر بیماری ایڈوانس سٹیج پر ہے تو اس کا تمام علاج کے باوجود اس کا حاصل بہت زیادہ امید افزا نہیں رہتا۔
علاج کے بعد احتیاط، تھیراپی کے لیے سپورٹ گروپ کی اہمیت
کینسر سے متاثرہ عبدالرزاق سگریٹ یا پان چھالیہ کا عادت میں مبتلا نہیں تھے۔ تاہم تقریبا 10 سال پہلے کی بات ہے جب ان کو گلے میں کچھ پھسنے کا احساس ہونے لگا اور ان کو کھانا نگلنا مشکل لگنے لگا۔
اسی دوران وہ ایک ہوٹل پر چائے پینے گئے تو ان کی کیفیت دیکھ کر ان کو ہوٹل والے نے چائے میں ٹوٹکے کے طور پر دیسی گھی ڈال کر دیا جس سے وقتی طور پر ان کی مشکل آسان ہوئی اور وہ مطمئن ہو گئے تاہم اب وہ مانتے ہیں کہ اس وقت وہ وقتی ریلیف ملنا ان کے مسئلہ کو بڑھا گیا اور ان کو بروقت ڈاکٹر کے ہاں جانا چاہیے تھا۔
پھر ان کے گلے میں پیچھے ٹیومر بڑھتا چلا گیا اور پھر وہ ڈاکٹر کے ہاں گئے تو کینسر کی تشخیص ہوئی۔ جس کے بعد نہ صرف ان کی سرجری ہوئی اور ان کو ریڈی ایشن اور کیمو تھراپی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔
کامیاب علاج کے باوجود ان کومختلف سائیڈ ایفیکٹ کا سامنا رہا۔ لمبے عرصے تک منھ میں لعاب نہ بننے کا مسئلہ رہا جبکہ وزن میں بھی 23 کلو تک کی کمی آ گئی۔
اس سخت علاج کے بعد اب وہ کینسر فری ہیں تاہم ان کو سیدھا چلنے میں اور گردن کی حرکات میں بھی مشکلات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سرجری اور علاج کے بعد لوگ صحت یاب ہو کر بہت سی احتیاط بھول جاتے ہیں اس کے لیے ان کی ڈاکٹر یاسمین نے کینسر سروائیور کا سپورٹ گروپ بنایا تاکہ لوگوں میں ہمت بھی پیدا ہو۔ اور پوسٹ سرجری اور علاج کے بعد کی تھیراپی اور احتیاط بھی ذہن میں تازہ رہیں تاکہ کینسر دوبارہ بننے کا مرحلہ نہ ہو سکے۔
’آپریشن کے بعد ہفتوں آئینہ نہیں دیکھا‘

خدیجہ کی سرجری پہلی سرجری فروری 2024 میں ہوئی تھی اور طویل علاج کے بعد اب وہ کینسر سے صحت یاب ہوکر نہ صرف اپنی ملازمت پر واپس جا چکی ہیں بلکہ ان دنوں اپنے دانتوں اور بریسز کو لگوانے اور پلاسٹک سرجری کے عمل سے گزر رہی ہیں تاکہ زندگی کے معمولات میں بہتری آ سکے۔
خدیجہ اپنےکئی گھنٹے کے آپریشن کے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری بہن اور بہنوئی مجھے دیکھنے آئے تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے لیکن بہت سے دیگر لوگ جب ملنے آتے تو ان کے چہرے پر کسی قدر کراہٹ یا ترس کھانے والے تاثرات ہوتے جن کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوتا کہ شاید میرے ساتھ کچھ بہت برا ہو گیا ہے۔ اسی لیے دو ہفتے تک میں آئینہ نہیں دیکھ سکی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بیماری اپنے ساتھ جو چیزیں لے کر آتی ہے اس میں ایک تو غربت ہے اور دوسرا یہ کہ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ میرا ساتھ میرے شوہر نے دیا، ڈاکٹر صاحب نے دیا اور میری بہن نے دیا اور مجھے سپورٹ کیا۔ اب میں لوگوں سے ملتے وقت چہرے پر ماسک لگا کے رکھتی ہوں۔‘
’سرجری کے بعد دوبارہ تمباکو کی عادت نہ اپنائیں‘
ڈاکٹر یاسمین راشد کہتی ہیں کہ کینسر سے مکمل صحت یابی کا چانس اس پر ہوتا ہے کہ کینسر کس سٹیج پر ہے اور کیا وہ منھ اور گردن تک محدود ہے یا جسم کے باقی حصوں تک پھیل گیا ہے۔
’پاکستان میں اورل ہائیجین یا منھ کی صفائی پر دھیان ہی نہیں دیا جاتا۔ منھ سے بدبو، پلاک ہو جانا، دانت میں کیڑا یا انفیکشن ہو جانا، دانت زخمی ہے، دانت کی نوک زبان یا منھ کی جھلی پر لگ رہی ہے تو ایک چوٹ بار بار لگتی رہے گی اور اس کا علاج نہیں کریں گے تو وہ بھی آگے کہیں جا کر اس مسئلے کا سبب بن سکتا ہے۔‘
’اس لیے اگر ہر چھ ماہ بعد ڈینٹسٹ کے ہاں جا کر معائنہ کروا لیا جائے تب بھی ہم بڑے نقصانات سے قبل ہی مرض کو پکڑ سکتے ہیں جس میں تکلیف بھی کم ہو گی اور بچنے کے امکانات بڑھتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’سٹیج فور میں علاج کے لیے آنے والے بہت کم مریض پانچ سال سے زیادہ جی پاتے ہیں۔ یہ آپ کی جیب پر بھی منحصر ہے بہت سے نئے علاج آ گئے ہیں جس سے علاج بہت بہتر ممکن ہے لیکن اس کو سو میں سے کوئی ایک آدھ شخص ہی ہمارے ہاں افورڈ کر سکتا ہے۔‘
اگر سرجری کے بعد دوبارہ انھی عادات کی جانب دوبارہ جاتے ہیں تو کینسر دوبارہ آنے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے سرجن یا ڈاکٹر کے پاس واپس آنے کے چانسز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین کے مطابق سندھ اور پنجاب کی کینسر رجسٹری کا مشترکہ ڈیٹا کے مطابق جو تمام کینسر تشخیص ہوتے ہیں اس میں 11 سے 12 فیصد کینسر منھ کے کینسر رجسٹر ہوئے ہیں۔
اس ڈیٹا کے مطابق یہ سب سے زیادہ سندھ اور کراچی کے ریجن میں ہوتا ہے اس کی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ تمباکو، پان چھالیہ اور گٹکے کا استعمال بھی کراچی، حیدرآباد اور اندرون سندھ یا دیہی علاقوں میں ہوتا ہے۔
ان کے مطابق بالائی علاقوں کے رہائشیوں میں منھ کے کینسر کی شرح نسبتا کم ہے تاہم وہاں سے جو کینسر رپورٹ ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر نسوار کھانے سے ہو رہے ہیں۔