کرسمس سے جُڑی چیزوں کے بارے میں پیپر ماشی ایکسپورٹر سید امجد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’پورے یورپ سے ہمیں آرڈر ملتے ہیں۔ وہ ہمیں ڈیزائن وغیرہ بھیجتے ہیں اور ہم پھر انھیں نمونے بھیجتے ہیں۔ جب نمونے پاس ہوتے ہیں تو ہم آرڈر کو مکمل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘
پیپر ماشی (Papier-Mâché) دراصل فرانسیسی اصطلاح ہے جس کا مطلب ’چبایا ہوا کاغذ‘ ہےپرانے سرینگر میں پیپر ماشی کا کارخانہ چلانے والی مسرت مقبول ہر سال کرسمس کے موقعے پر خوش ہوتی تھیں کیونکہ یورپ کے بیشتر ممالک سے کرسمس تھیم کی مصنوعات کے لیے اکتوبر سے ہی آرڈر آنا شروع ہو جاتے تھے۔
وہ اس سال بھی کرسمس تھیم کی خوبصورت گیندیں، گھنٹیاں اور سانتا کلاز ایکسپورٹ کر چکی ہیں تاہم انڈیا پر امریکہ کے ٹیرِف کی وجہ سے اس بار انھیں زیادہ خوشی نہیں۔
تین نسلوں سے پیپر ماشی کی تجارت سے جڑی 50 سالہ مسرت کہتی ہیں کہ ’اس سال جو انڈین مصنوعات پر امریکہ نے ٹیرِف بڑھا دیا اس کی وجہ سے کام بہت کم ہو گیا۔ اس سال ہمیں نہایت کم آرڈر ملے۔ اس بار بہت مایوسی ہوئی۔‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پورے جموں و کشمیر میں عیسائیوں کی تعداد صرف 35 ہزار 600 ہے۔ عیسائیوں کی آبادی اس قدر قلیل ہونے کے باوجود کرسمس سے قبل سرینگر کے بعض خاندانوں میں میلے جیسی چہل پہل ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے سبھی ممالک میں ہر سال کشمیر میں ہاتھ سے بنائی گئی کرسمس تھیم کی پیپر ماشی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔
پیپر ماشی کی صنعت
سرینگر کی ایک بڑی آبادی صدیوں سے اس فن سے جڑی ہےپیپر ماشی (Papier-Mâché) دراصل فرانسیسی اصطلاح ہے جس کا مطلب ’چبایا ہوا کاغذ‘ ہے۔
دراصل کتابوں میں استعمال ہونے والے اعلیٰ کوالٹی کے کاغذ کو کئی ہفتوں تک پانی میں رکھا جاتا ہے اور پھر کئی روز تک اس کو کُوٹا جاتا ہے تاکہ وہ باریک پیسٹ بن جائے۔
اس کے بعد اس پیسٹ کو مختلف برتنوں، صندوقوں، گلدانوں اور دیگر چیزوں کی شکل دی جاتی ہے جس طرح ایک کمہار مٹی کے برتنوں کو بناتا ہے۔
بعد میں ان چیزوں کی سطح پر گھِسائی کی جاتی ہے تاکہ ان پر باریک نقاشی کی جائے۔
کرسمس سے جُڑی چیزوں کے بارے میں پیپر ماشی ایکسپورٹر سید امجد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’پورے یورپ سے ہمیں آرڈر ملتے ہیں۔ وہ ہمیں ڈیزائن وغیرہ بھیجتے ہیں اور ہم پھر انھیں نمونے بھیجتے ہیں۔ جب نمونے پاس ہوتے ہیں تو ہم آرڈر کو مکمل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘
قابل ذکر بات ہے کہ پیپر ماشی کی صنعت کو 14ویں صدی میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے یہاں آنے والے مذہبی علما اور سماجی مصلحین نے متعارف کروایا تھا۔
سرینگر کی ایک بڑی آبادی صدیوں سے اس فن اور اس کی تجارت سے جڑی ہے۔
’پیپر ماشی کی چیزوں کو خدا کی خوشنودی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘

دراصل پیپر ماشی کو پلاسٹک پر ترجیح دینے کے پیچھے مذہبی عقیدہ جڑا ہے۔
مذہبی علوم کے ماہر ڈاکٹر عادل رحمان کہتے ہیں کہ ’عیسائیوں کی مقدس کتاب بائبل کی دو سورتوں (جینیسِس اور سام) میں خدا کی ہدایت ہے کہ ماحولیات کے لیے ہر شہری کو ذمہ دار رویہ اپنانا ہے۔ چونکہ پلاسٹک آلودگی کا سبب بنتا ہے اور پیپر ماشی کی چیزیں کاغذ سے بنائی جاتی ہیں اور زمین میں آلودگی نہیں پھیلاتیں، اس لیے کرسمس پر پیپر ماشی کی چیزوں کو خدا کی خوشنودی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
واضح رہے کشمیر کے علاوہ انڈیا کے بہار، مغربی بنگال اور راجھستان میں بھی بعض خاندان پیپر ماشی کی دستکاری کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران، ازبکستان، جاپان، چین، افریقہ کے بعض علاقوں اور میکسیکو میں بھی یہ دستکاری پائی جاتی ہے لیکن کشمیر کی دستکاری، چاہے وہ پیپر ماشی ہو یا قالین اور پشمینہ کی شال، یہ سب اپنی نفاست، باریکی اور دلفریب ڈیزائن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور کشمیری اشیا کی اسی لیے یورپ میں مانگ ہے۔
نوجوان پیپر ماشی کے فن کی طرف مائل کیوں نہیں؟

سرینگر کے غلام حسین بٹ پچھلے 45 سال سے پیپر ماشی کے فن کے ساتھ جڑے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر دستکار صبح نو بجے ایک کمرے میں بیٹھتا ہے۔ کھانا کھانے کے لیے ایک گھنٹے کا وقفہ ملتا ہے اور پھر رات نو بجے تک کام ہوتا رہتا ہے۔ نئی نسل میں اس قدر صبر اور برداشت نہیں۔ چند نوجوان ہمارے یہاں آئے بھی لیکن ایک یا دو ماہ بعد چلے گئے ۔‘
غلام حسین بٹ کا کہنا ہے کہ ایک گلدان پر نقاشی میں ایک ہفتہ لگتا ہے اور جب آرڈر میں جلدی ہو تو دیر رات تک بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
سرینگر کے غلام حسین بٹ کے مطابق ایک گلدان پر نقاشی میں ہفتہ لگتا ہےسید امجد علی شاہ کہتے ہیں کہ ایکسپورٹرز انجمن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیپر ماشی کارخانوں کو جدید خطوط پر لانے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ورکشاپس جدید ہوں، یہاں ٹیبل، کرسی اور گرمی کا انتظام ہو۔ کافی میکرز ہوں اور موسیقی کا بھی انتظام ہو۔ موجودہ صورتحال میں پڑھے لکھے نوجوان کمرے میں تکیے کے ساتھ دن بھر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے لیے نہ صبر رکھتے ہیں اور نہ نئی نسل کا ایسا مزاج ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ لوگ اس صنعت کے ساتھ جڑیں گے توکام شفٹس میں ہو سکتا ہے ۔
دوسری جانب نوجوانوں کی بڑی تعداد اس صنعت کے ساتھ بے شک نہ وابستہ ہو لیکن تیز رفتار پروڈکشن اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہاتھ سے بنی چیزیں خاص طور پر پیپرماشی کی مصنوعات دُنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں۔