افغانستان وہ ملک ہے جسے آج ہر کوئی جانتا ہے یہ وہ ملک ہے جس نے وقت کی 2 سپر پاور مانے جانے والے ممالک یعنی کہ روس اور امریکہ کو بدترین شکست دی۔ لیکن دنیا یہ نہیں جانتی کہ افغانیوں نے کس طرح اپنا ملک آزاد کروایا ۔آیئے مشہور مفتی طارق مسعود کی زبانی جانتے ہیں کہ اس آزادی کو حاصل کرنے میں افغانیوں کو کس قدر مشکلات کا سمنا کرنا پڑا۔
جب حال ہی میں قطر میں امریکہ نے طالبانوں سے مذاکرات شروع کیے تو کافی دن ہو گئے لیکن کوئی کامیابی امریکہ کو حاصل نہیں ہو رہی تھی کیونکہ طالبان ان کی ایک بات نہیں مان رہے تھے بس کہہ رہے تھے کہ بس کچھ نہیں مانا جائے گا ، آپ جاؤ یہاں سے۔
لیکن امریکہ اپنے مطالبات منوانا چاہتا تھا جس پر رہنما ملا عبدا لغنی نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر ہم 20 سال اور جنگ لڑیں گے اور 20 سال بعد پھر اسی جگہ پر بیٹھ کر آپ کے ساتھ مذاکرات کریں گے ۔اس بات کو کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم نے پہلے بھی 20 سال جنگ کی ہے آگے بھی 20 سال جنگ کرنے کو تیار ہیں۔ بس پھر کیا تھا اس بات کا بات امریکہ نے انکے تمام مطالبات مان لیے اور افغانستان سے نکل گیا۔
پھر جب ماضی میں روس نے افغانستان میں قدم رکھا تو اس وقت کوئی افغانی بھی اسلحہ چلانا نہیں جانتا تھا تو بزرگ افغانی بتاتے ہیں کہ ہم نے غولیل کے زریعے سے پتھر اور کنچے روسی فوجیوں کو مارے اور جب اس سے بھی کچھ نہ بنا تو 300 سو سے 400 افراد ایک ایک ٹینک کے آگے کھڑے ہو جاتے جس میں سے صرف 1 شخص زندہ بچتا اور وہ پھر ٹینک کے اوپر چڑھ کر انہیں مارتا۔
ٹینک کے آگے ہم انسان بے بس ہوتے تو پھر ہم پہلے مٹی کے گارے (کیلی مٹی) بنا کر ٹینکوں کے شیشوں پر مارتے تاکہ انکو دیکھائی نہ دے سکے کچھ ،مفتی طارق مسعود نے مزید کہا کہ یہ افغان بھائی بتاے ہیں کہ ہر گھر سے 10 10 جنازے اٹھے تب جا کر یہ آزادی لی ہم نے ۔اور اب تو وہ طالبان بہت کم ہیں جنہوں نے روس کے خلاف لڑا اب تو صرف یہ انکی اولادیں ہیں جو امریکہ کے خلاف لڑرہے تھے۔
آخر میں مفتی طارق مسعود نے اس افغان قوم کے اللہ پر یقن کی بات کی جس نے انہیں فتح دلوائی اور کہا کہ مجھے ایک افغانی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ افغانی نشہ کرتے ہیں، چلو کچھ دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ ہم نشہ کرتے ہیں لیکن ہم یہ کبھی نہیں برداشت کر سکتے کہ کوئی ایسا شخص ہم پر آ کر حکمرانی کرے جو اللہ کو نہ مانتا ہو۔