حال ہی میں مری جانے والے خاندانوں کی موت کی خوفناک وائرل ویڈیوز نے جہاں لوگوں کے دل دہلا دیے ہیں وہیں سیاحت کے حوالے سے کیے گئے بلند و بانگ دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ میڈیا پر مقامی لوگوں کی بے حسی کی تو کئی داستانیں لکھی گئی ہیں جن میں کسی کو انڈا مہنگا بیچنے پر ملامت کی گئی تو کسی پر کمرے کے کرایے میں ہوش ربا اضافہ کرنے پر۔ لیکن ان تمام مسائل کی جڑیں اس سوال سے جاملتی ہیں کہ ان سب مسائل کو آخر کون حل کرے گا؟ وہ حکومت جو خود برف باری کے موسم میں مری جانے پر پابندی لگا رہی ہے کیا سیاحت کو فروغ دینے کے قابل ہے؟
شہروں کی ٹوٹی سڑکیں اور ہوٹل مافیا کا ذمہ دار کون ہے؟
مری کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ شہر کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں جو بارش اور برف باری میں ایکسیڈینٹس کی بڑی وجہ ہیں اس کے علاوہ سڑکوں پر غیر قانونی تعمیرات، ہوٹل مافیا اور پارکنگز کا نہ ہونا شہر کے بڑے اور بنیادی مسائل ہیں جن پر حکومت سالوں سے آنکھ بند کرکے بیٹھی ہے۔
ہوٹل مافیا اور ایجنٹس کی ملی بھگت جس کا نقصان صرف سیاح کو ہوتا ہے
ہوٹل مافیا کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد فیصل نے بتایا کہ “مری میں ہوٹلز سے متعلق کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ ایجنٹ مافیا کا زور ہے۔ ایجنٹس ہوٹل والوں سے ملے ہوتے ہیں۔ سیاح ایجنٹس کے ساتھ آتے ہیں تو 5 ہزار کا کمرہ 20 ہزار میں ملتا ہے کیوں کہ ہوٹل والے کے ساتھ ایجنٹ کو بھی پیسے چاہئیے ہوتے ہیں جس کا نقصان صرف اور صرف سیاح کو ہوتا ہے“
واضح رہے کہ یہ تمام مسائل صرف مری تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے اکثر سیاحتی علاقوں سے اسی قسم کی شکایات سننے کو ملتی رہتی ہیں لیکن مری میں ہونے والی 22 اموات نے میڈیا کی توجہ خاص طور پر مری پر مرکوز کردی ہے۔
حکومت جلد نئی پالیسی کا افتتاح کرے گی
پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تخفظات اور لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہوئے سوالوں کے جواب جاننے کے لئے بی ی سی نے حکومتی موقف جاننا چاہا تو وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاحت اعظم جمیل نے کہا کہ ابھی انھیں عہدہ سنبھالے ہوئے کچھ دن ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ حکومتی پالیسی کےبارے میں کوئی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ وفاقی کابینہ کے ایک اور رکن کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان ““برینڈ پاکستان“ کے نام سے بننے والی سیاحتی پالیسی کا جلد افتتاح کریں گے۔