سوشل میڈیا پر دلچسپ خبریں تو بہت ہیں لیکن آئنسٹائن کے دماغ سے متعلق کچھ معلومات ایسی بھی ہیں جو لوگوں کی حیرانی کا باعث بن جاتی ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔
مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائن کا شمار ان چند ذہین انسانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے ہر انسان کو نہ صرف حیران کیا بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔
ان کی موت کے بعد جب ان کے دماغ کا جائزہ لیا گیا تو سائنسدان بھی حیران تھے، آئنسٹائن کی آنکھیں اور دماغ ان کی موت کے بعد نکال لیا گیا تھا، تاکہ ان پر تحقیق کی جا سکے۔
17 اپریل کی صبح موت کا شکار ہونے والے آئنسٹائن کی وصیت تھی کہ مرنے کے بعد اس کے جسم کو نہ چھیڑا نہ مگر ایسا نہ ہوا۔ ڈاکٹر تھامس ہاروی نامی پیتھالوجسٹ نے سائنسدان کا دماغ ہی چرا لیا۔
ڈاکٹر ہاروی نے اگرچہ آئنسٹائن کے بیٹے کو یقین دلایا کہ یہ تجربہ صرف سائنس کی خدمت کے لیے ہے مگر بعدازاں انہوں نے آنکھیں بھی چرا لیں۔ جو آج بھی نیو یارک شہر میں موجود ہیں۔ جنہیں زہر آلود کر کے نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ہاروی کا آئنسٹائن کا دماغ چرانے مقصد یہ تھا کہ وہ اس دماغ پر تحقیق کر کے سائنس کی دنیا میں بھونچال لے آئے، لیکن وہ خود دماغ کا اسپیشلسٹ نہیں تھا، تو کامیابی نہ مل سکی۔ جبکہ ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے، کہ آئنسٹائن کے پرسنل ڈاکٹر کی بنا پر ڈاکٹر ہاروی نے دماغ چوری کیا۔
پوسٹ گارڈز برین میوزیم نامی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ہاروی یہ دماغ اپنے ساتھ گھر لے گیا اور دماغ کے 240 حصے کر ڈالے، لیکن جب اہلیہ نے دماغ ضائع کرنے کی دھمکی دی، تو اسے لے کر مغرب کی جانب لے گیا، وہاں ایک محفوظ مقام پر انہوں نے دماغ کو رکھ دیا۔
اپنے فارغ وقت میں دماغ پر تحقیق کرنے لگا، لیکن مشکل صورتحال کی بنا پر وہ واپس اپنے شہر میں آگیا۔ لیکن ڈاکٹر ہاروی کے 2007 میں انتقال کے بعد آئنسٹائن کے دماغ کو گھر والوں نے واشنگٹن کے میوزیم میں رکھوا دیا۔
یہی نہیں آئنسٹائن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ 10 گھنٹے نیند پوری کیا کرتے تھے، اور خواب میں وہ سب چیزیں دیکھا کرتے تھے جو نیند سے بیدار ہو کر پوری کیا کرتے تھے۔ چہل قدمی کو معمول بنانے کی وجہ سے انسان کی یادداشت بہتر ہوتی ہے، یہی وجہ تھی کہ آئنسٹائن بھی کافی چہل قدمی کیا کرتے تھے۔