امریکہ کے وفاقی استغاثہ نے انڈین ارب پتی گوتم اڈانی پر 25 کروڑ ڈالر کی رشوت دینے اور امریکہ میں رقم چھپانے کا الزام لگایا ہے۔ اڈانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے امیر شخصیات میں سے ایک گوتم اڈانی نے گذشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں فتح کا جشن منایا اور امریکہ میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
62 سالہ انڈین ارب کی 169 ارب ڈالر مالیت کی ایک وسیع سلطنت ہے۔ اس میں بندرگاہیں، ایئرپورٹ اور قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے ہیں۔
گوتم اڈانی کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔
تاہم حال ہی میں انھیں امریکہ میں دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے جو ممکنہ طور پر اندرون و بیرون ملک ان کے عزائم کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
امریکہ میں وفاقی استغاثہ نے ان پر 25 کروڑ ڈالر کی رشوت دینے اور امریکہ میں رقم چھپانے کا الزام لگایا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی کمپنی کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر انڈین حکام کو رشوت دی تاکہ ایسے ٹھیکے حاصل کیے جائیں جن سے 20 برسوں میں دو ارب ڈالر کا منافع ہو۔
اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔
تاہم ان الزامات کی وجہ سے اڈانی گروپ اور انڈین معیشت کو ابھی سے نقصان پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔
اڈانی گروپ کو جمعرات کے روز مارکیٹ ویلیو میں 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس سے ان کی 10 کمپنیوں کی مشترکہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن 147 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔
اڈانی گرین انرجی فرم، جو کہ ان الزامات کا مرکز ہے، کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے 60 کروڑ ڈالر کے بانڈ کی پیشکش کے ساتھ آگے نہیں بڑھے گے۔
ان الزامات کے باعث انڈیا کے کاروبار اور سیاست پر کیا اثر پڑ رہا ہے، اس کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
’الزامات کی وجہ سے انڈیا کی سیاست اور معیشت متاثر ہو گی‘
انڈیا کی معیشت ملک کے سرکردہ انفراسٹرکچر ٹائیکون گوتم اڈانی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ان کے پاس 13 بندرگاہیں ہیں جو مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ ہیں۔ ان کے پاس سات ایئر پورٹس ہیں جہاں مسافروں کی آمد و رفت کی شرح 23 فیصد ہے۔ اڈانی انڈیا کے دوسرے سب سے بڑے سیمنٹ کے کاروبار کے بھی مالک ہیں جو مارکیٹ کا 20 فیصد حصہ ہے۔
ان کے پاس کوئلے سے چلنے والے چھ پاور پلانٹس بھی ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے گرین ہائیڈروجن میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ وہ آٹھ ہزار کلومیٹر طویل قدرتی گیس پائپ لائن کے مالک بھی ہیں۔
فی الوقت وہ انڈیا کا سب سے طویل ایکسپریس وے بھی بنا رہے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی کچی آبادی کے لیے بھی ترقیاتی کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس 45 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ تاہم ان کے کاروبار سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہیں۔
گوتم اڈانی کے عالمی عزائم انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں کوئلے کی کانوں، کینیا اور مراکش میں ایئر پورٹس اور توانائی کے منصوبوں پر محیط ہیں۔ اڈانی گروپ تنزانیہ اور کینیا میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔
اڈانی کا پورٹ فولیو مودی کی پالیسی کی ترجیحات کا قریب سے آئینہ دار ہے جو بنیادی ڈھانچے سے شروع ہوا اور حال ہی میں صاف توانائی کی جانب رُخ کر رہا ہے۔
مودی کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی سرمایہ داری صرف اس لیے کامیاب ہے کیونکہ انھوں نے ریاست کے ساتھ دوستی اختیار کی ہوئی ہے۔ لیکن ناقدین کے الزامات سے ان کے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
کسی بھی کامیاب کاروباری شخص کی طرح گوتم اڈانی نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے اور وہ ان کی ریاستوں میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
پارنجوائے ٹھاکرتہ ایک انڈین صحافی ہیں جنھوں نے اڈانی گروپ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ (رشوت کا الزام) بہت بڑا ہے۔ اڈانی اور مودی ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے انڈیا کی سیاسی معیشت متاثر ہو گی۔‘
’اڈانی اپنے نام کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘
یہ بحران ایسے وقت میں آیا ہے جب گوتم اڈانی پہلے سے ہی گذشتہ دو سالوں سے امریکہ میں اپنے نام کو بچانے کے لیے کوشاں تھے کیونکہ 2023 میں امریکی شارٹ سیلر ہنڈنبرگ ریسرچ کی ایک رپورٹ میں ان کے گروپ پر دہائیوں سے سٹاک مارکیٹ میں ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔
اگرچہ اڈانی نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے لیکن ان الزامات نے مارکیٹ میں فروخت اور انڈیا کے مارکیٹ ریگولیٹر ای ای بی آئی کی جانب سے جاری تحقیقات کو جنم دیا۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے مائیکل کوگلمین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اڈانی اپنے نام کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ چاہ رہے تھے کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ ہنڈنبرگ کی جانب سے لگائے گئے الزامات سچ نہیں ہیں اور ان کی کمپنی اور کاروبار اچھے چل رہے ہیں۔‘
کوگلمین نے کہا کہ اڈانی گروپ نے لگ بھگ پچھلے ایک سال میں کئی نئے سودے طے کیے ہیں اور سرمایہ کاری کی ہے۔ اس لیے یہ الزامات اڈانی کے لیے ایک ’گہری چوٹ‘ کی طرح ہیں کیونکہ انھوں نے بہت کوشش کی تھی کہ ’ماضی میں لگائے گئے الزامات سے اپنے کاروبار کو ممکنہ نقصانات سے بچا سکیں۔‘
تاہم اس سے انڈیا میں گوتم اڈانی کے ’فضول خرچی پر مبنی قرار دیے گئے‘ منصوبوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
مارکیٹ کے ایک آزاد تجزیہ کار امبریش بالیگا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مارکیٹ کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔ اڈانی گروپ کو شاید اپنے بڑے منصوبوں کے لیے فنڈنگ مل جائے تاہم تاخیر ہوسکتی ہے۔‘
تازہ ترین الزامات اڈانی کے عالمی توسیعی منصوبوں میں بھی خلل ڈال سکتے ہیں۔ انھیں پہلے ہی کینیا اور بنگلہ دیش میں ایک بین الاقوامی ایئر پورٹ اور توانائی کے ایک متنازعہ معاہدے پر چیلنج کیا جا چکا ہے۔
سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی کی پروفیسر نرملیا کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ (رشوت کے الزامات) امریکہ سے منسلک بین الاقوامی توسیعی منصوبوں پر پیشرفت کو بڑھنے سے روک رہے ہیں۔‘
اب آگے کیا ہو گا؟
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے گوتم اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میں اس بات پر ہلچل مچانے کا وعدہ کیا ہے۔
پروفیسر نرملیا کمار نے کہا کہ ’انڈیا میں سرکاری حکام کو رشوت دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ امریکہ کے پاس کچھ لوگوں کے نام ہیں جنھوں نے یہ رشوت لی تھی۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ انڈیا کے سیاسی منظر میں ردعمل سامنے آئے۔ ابھی تو بہت کچھ ہونا رہتا ہے۔‘
گوتم اڈانی کی ٹیم بلاشبہ اپنے لیے اعلیٰ درجے کے قانونی دفاع کا انتظام کرے گی۔ امریکی تھنک ٹینک کے مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہمارے پاس صرف فرد جرم ہے۔ ابھی بہت کچھ سامنے آنا رہتا ہے۔‘
مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے کاروباری تعلقات پر سوالات ضرور اٹھیں گے تاہم اس بات کے کم امکانات ہیں کہ ان تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا، خاص طور پر اب جب امریکہ نے اڈانی گروپ کے ساتھ سری لنکا میں ایک بندرگاہ کے پروجیکٹ کے لیے 50 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کر لیا ہے۔
ان کے مطابق ان سنگین الزامات کے باوجود امریکہ اور انڈیا کے کاروباری تعلقات مضبوط ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ-انڈیا تجارتی تعلقات بہت وسیع ہیں اور ان کے کئی پہلو ہیں۔ اس لیے ’مجھے نہیں لگتا کہ ایک بڑے کھلاڑی کے خلاف الزامات کے باوجود انڈین معیشت کے لیے ممکنہ اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہیے۔‘
یہ ابھی واضح نہیں کہ انڈیا اور امریکہ کے بیچ حوالگی معاہدے کے ذریعے اڈانی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ نئی انتظامیہ مقدمات کو آگے بڑھنے دے یا نہیں۔
آزاد تجزیہ کار امبریش بالیگا کا خیال ہے کہ اڈانی گروپ کے لیے یہ کوئی مایوس کن اور تباہ کن چیز نہیں ہے۔
’مجھے اب بھی لگتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اور بینک ان کی حمایت کریں گے جیسا کہ انھوں نے ہنڈنبرگ رپورٹ کے بعد بھی کیا تھا۔ حالانکہ یہ انڈین معیشت کے بہت اہم شعبوں کا حصہ ہیں۔‘
’مارکیٹ میں یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ ایک بار جب ٹرمپ انتظامیہ اقتدار سنبھال لے گی تو یہ معاملہ شاید ختم ہی ہو جائے گا۔‘