’وہ ویڈیو کال میں برہنہ ہونے کا مطالبہ کرتا تھا‘ پاکستان میں ہراسانی کو رپورٹ کرنے کا رجحان کیسے بڑھا؟

مہوش حیات اور کبریٰ خان تو سیلیبرٹیز ہیں۔ کیا عام خواتین میں ’سائبر ہراسمنٹ‘ یعنی آن لائن ہراسانی رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس کا جواب مثبت میں دیتے ہیں۔
خواتین، ہراسانی، شکایت، عدالتیں
Getty Images

’وہ مجھے کہتا تھا کہ ویڈیو کالز پر برہنہ سامنے آؤ۔ میں جب انکار کرتی تھی تو وہ کہتا تھا کہ میں خود کو نقصان پہنچاؤں گا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس نے میری ویڈیو کالز کے سکرین شاٹس لے لیے ہیں۔ اس کے بعد وہ مجھے بلیک میل کرنے لگا۔‘

یہ بیان کراچی کی شازیہ (فرضی نام) نے ایک مقامی عدالت میں ایک مقدمے میں قلمبند کرایا ہے جس کی بنیاد ان کی جانب سے ایف آئی اے میں درج کروائی گئی ایک ایف آئی آر ہے۔ تحقیقات کے بعد یہ کیس عدالت میں ہے۔

شازیہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کی عرفان (فرضی نام) سے آن لائن دوستی ہوئی اور پھر ان کو شادی کی آفر کی گئی۔ دونوں کے خاندانوں کا فون پر رابطہ بھی ہوا۔

تاہم شازیہ کے بیان کے مطابق ’کچھ دنوں کے بعد اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔ وہ روزانہ ویڈیو کال میں برہنہ ہونے کا مطالبہ کرتا تھا۔‘

شازیہ کے مطابق ’اس کے بعد عرفان نے میری والدہ، بہن اور بھائی کو فون کر کے بد اخلاقی کی جس کے بعد میں نے شادی سے انکار کر دیا۔‘

شازیہ کے مطابق بعد میں عرفان نے ان کو ملتان آنے کو کہا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کر دے گا۔ مگر شازیہ نے ملتان جا کر عرفان سے شادی کر لی۔

ان کے مطابق ’عرفان نے مجھے بتایا کہ نکاح نامہ بعد میں دوں گا۔‘

ان کے مطابق وہ جب واپس کراچی آ گئیں تو ’چند دنوں کے بعد اس نے کہا نکاح جعلی ہے۔ اس کے بعد اس نے فیس بک پر ایک جعلی آئی ڈی بنائی، جس پر برہنہ تصاویر شیئر کر دیں۔ میں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا اور بطور ثبوت تصاویر پیش کیں۔‘

حال ہی میں پاکستان میں آن لائن ہراسانی اور بلیک میلنگ سے جڑے کئی مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں شازیہ جیسی عام خواتین سے لے کر مشہور اداکارائیں، سب ہی متاثر ہوئے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک خواتین معاشرتی مشکلات کی وجہ سے قانونی راستہ اختیار کرنے سے کتراتی تھیں، لیکن اب یہ رجحان بدل رہا ہے جس کی وجہ قوانین میں تبدیلیاں بھی ہیں اور مشہور شخصیات کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہراسانی کے خلاف قانون کا راستہ اختیار کرنے کی مثالیں بھی ہیں۔

جیسے پاکستانی فلم اور ٹی وی کی نامور اداکارہ مہوش حیات، جن کا کہنا ہے کہ سائبر کرائم کا قانون اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ کوئی کسی کی کردار کشی سے قبل دس مرتبہ سوچے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی کردار کشی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ عدالت نے حکام کو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پوسٹ کیا جانے والا مواد ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔ اس سے قبل اداکارہ کبریٰ خان نے بھی عدالت سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کیا تھا۔

’برداشت کی حدود کراس ہوچکی ہیں‘

مہوش حیات کہتی ہیں کہ کردار کشی کی وجہ سے انھیں عدالت کے دروازے تک پہنچنا پڑا کیونکہ ان کی ’برداشت کی تمام حدود پار ہوچکی ہیں۔‘ ان کے مطابق جس طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں اس سے انھیں اور ان کے خاندان کو شدید تکلیف اور اذیت سے گزرنا پڑا۔

ان کے مطابق ’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے بیمار ذہن کے لوگوں موجود ہیں جنھوں نے اداکاروں کی کردار کشی کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میرا متعلقہ حکام سے سوال ہے کہ کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔‘

مہوش حیات کہتی ہیں کہ ’ان بیمار ذہن لوگوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ کسی کی کردار کشی کرنا، کسی کے خلاف جھوٹ بولنا، کسی کے خلاف مہم چلانا۔۔۔ یہ سب کچھ قانون کے خلاف ہے اور یہ جرم ان تک محدود نہیں جو یہ کرتے ہیں بلکہ جو اس کو آگے بڑھاتے ہیں وہ بھی شریک جرم ہیں۔‘

اداکارہ مہوش حیات سے قبل کبریٰ خان اور رابعہ اقبال نے بھی عدالت سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ ان کی کچھ قابل اعتراض جعلی ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں۔

کیا آن لائن ہراسانی کو رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟

مہوش حیات اور کبریٰ خان تو سیلیبرٹیز ہیں۔ کیا عام خواتین میں ’سائبر ہراسمنٹ‘ یعنی آن لائن ہراسانی رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس کا جواب مثبت میں دیتے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے شعبے سائبر کرائم کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں 24 افراد کو ہراسانی اور کردار کشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جو خواتین کی نازیبا تصاویر شیئر کرتے تھے یا انھیں بلیک میل کرتے تھے۔

یہ گرفتاریاں ایف ائی اے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گجرانوالا، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی سرکلز نے کی ہیں۔

ایف آئی اے کراچی کے ایک اہلکار نے گذشتہ سال مقامی عدالت کو بتایا تھا کہ شہر بھر میں تقریباً 1500 شکایات اور انکوائریاں درج کرائی گئیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، جو سائبر ہراسمنٹ پر مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے، کی سنہ 2022 کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کو کل 4441 شکایت موصول ہوئیں، جن میں سے 4310 کیسز آن لائن ہراساں کرنے سے متعلق تھے۔

ادارے کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 میں ان شکایت کی تعداد صرف 904 تھی۔

ڈیجیٹل رائٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شکایات کرنے والی خواتین کی عمریں 18 سال سے 30 سال کی درمیان ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم عمر خواتین کو نشانہ بنائے جانے کا زیادہ امکان ہے۔

Online Trolling
Getty Images

’لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ہراسانی کرنے والے پکڑے جائیں‘

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رہنما نگہت داد کہتی ہیں کہ مہوش حیات یا کبریٰ خان نے اچھی مثال قائم کی ہے، ’کسی سیلیبرٹی کی اس طرح سوشل میڈیا پر کردار کشی کی جائے اور وہ اس کو سنجیدگی سے لے کر عدالت میں جائیں یہ ایک مثبت سوچ ہے۔‘

’اس کا دوسرا اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ جب خواتین کسی مقام پر ہوتی ہیں تو وہ اس قسم کی حرکتوں کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔‘

ان کے مطابق ہمت اور وسائل بھی چاہیے۔ ’عدالتوں میں بھی آپ کو جانا پڑتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے باقی جو عورتیں ہیں، ان کو اچھا پیغام جاتا ہے، اگر ان کے ساتھ اس طرح کچھ ہوتا ہے تو وہ بھی قانون کا استعمال کر کے عدالت جا سکتی ہیں اور قانونی چارہ جوئی کا حق استعمال کرسکتی ہیں۔‘

’شروع میں خواتین کہتی تھیں کہ ہمیں ایسا طریقہ بتائیں کہ ہم خود نمٹ لیں اور ایف آئی اےبھی نہیں جانا پڑے لیکن اب دور بدل رہا ہے اور رجحان بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ بہت ساری لڑکیاں سائبر کرائم میں شکایت کرتی ہیں جو کہتی ہیں کہ میں نے تو اس بندے کو بتانا ہے، آخر قانون ہے یہ بندہ پکڑا جا سکتا ہے۔‘

نگہت داد کہتی ہیں کہ ’اگر خواتین کو تھوڑی حوصلہ افزائی دی جائے کہ عدالتیں بھی کام کرسکتی ہیں، قانون بھی کام کرتا ہے اور ادارے بھی کام کرتے ہیں تو اس حوصلہ افزائی سے وہ ہمت پکڑ کر قانون کے پاس جا سکتی ہیں اور اس سے صورتحال میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔‘

بلیک میل کرنے کے لیے نجی تصاویر کا استعمال

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں جس جگہ یا رتبے پر خواتین موجود ہیں اس طریقے سے ان کو ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، ’جیسے اداکار، صحافی یا اینکرز ہوں، ان کی آن لائن ٹرولنگ اور کردار کشی ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’عام خواتین کی ڈیٹا کی موجودگی سے ہراسانی کی جاتی ہے۔ ایسے معاملات میں سابق منگیتر، سابق خاوند یا دوست جس کے ساتھ ڈیٹا شیئر کیا گیا ہوتا ہے تو تعلق کے خاتمے پر وہ اس ڈیٹا سے بلیک میل کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص کہتا ہے کہ تمھاری تصاویر ریلیز کردوں گا۔‘

’زیادہ تر اس نوعیت کی شکایت آتی ہیں، جس میں خواتین چاہتی ہیں کہ انھیں قانون اداروں کے پاس نہیں جانا پڑے کیونکہ ان کی تفصیلات بتانا پڑیں گی۔‘

کراچی کی عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے پچھلے دنوں بتایا گیا کہ زیادہ تر شکایات خواتین اور لڑکیوں نے اپنے سابق دوست، منگیتر یا حتیٰ کہ شوہروں کے خلاف درج کروائی ہیں، جو ان کی (خواتین کی) ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ انھیں بلیک میل کیا جا سکے یا ناجائز تعلقات استوار رکھنے پر مجبور کیا جا سکے۔

Online
BBC

یہ بھی پڑھیے

اداکاراؤں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم: ’مرد کو نشانہ بنانا ہو توعورت کا کندھا استعمال کیا جاتا ہے‘

'ٹرولنگ پاکستانی معاشرے کی سب سے بڑی لعنت ہے‘

پاکستان کی بعض خواتین صحافیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کی شکایات

کیا عدالتوں کا رویہ بھی تبدیل ہوا؟

کراچی کی ایک عدالت نے حال ہی میں تین لڑکیوں کی کردار کشی پر دو بھائیوں کو سزا بھی سنائی اور جرمانہ بھی ڈالا۔

خواتین کی وکیل زہرہ ویانی نے بتایا کہ ان تین لڑکیوں میں سے دو بہنیں تھیں جبکہ ایک ان کی کزن تھیں۔ ان کے مطابق ایک لڑکی کی ایک بھائی سے شادی ہوئی اور بعد میں طلاق ہوگئی اس کے بعد اس نے ایک پوری مہم شروع کردی اور ان کی تصاویر بھی آن لائن شیئر کرنے کی کوشش کی۔

لڑکیوں نے ایف آئی اے میں شکایت کی۔ اس کے بعد وہ ان کے پاس آئیں۔ معاملہ عدالت میں آیا، کارروائی چلی اور سوشل میڈیا سے تمام مواد کو ہٹایا گیا۔

یہ کیس ڈیڑھ برستک چلا جس میں جرمانہ اور گرفتاری بھی ہوئی۔

ایڈووکیٹ زہرہ ویانی کہتی ہیں کہ ’سنہ 2020 کے بعد دنیا میں جو ’می ٹو‘ مہم چلی تو کافی زیادہ تعداد میں خواتین ہراسانی کے معاملات لے کر عدالتوں میں آئیں اور عدالتیں بھی انھیں ہمدردانہ رویے کے ساتھ سنتی ہیں اور ایک منساب فیصلہ دیتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’قانونی شعور آیا ہے، خواتین کو اب پتا ہے کہ ہم ایف آئی اے میں شکایت کرسکتی ہیں، عدالت سے رجوع کرسکتی ہیں۔‘

تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’ایف آئی اے کی شکایت سائبر ہراسمنٹ میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے جیسے مہوش حیات اور کبریٰ خان عدالت گئیں کہ ان کے خلاف جو مواد ہے اس کو ہٹایا جائے۔

’لیکن اگر کوئی ہراسمنٹ کر رہا ہے یا تنگ کر رہا ہے، دھونس جما رہا ہے تو یہ ایف آئی اے کا دائرہ کار بنتا ہے اور پھر اس ایجنسی کو آگے بڑھ کر ایسے متاثرین کی داد رسی کرنی چاہیے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.