پشاور میں شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے ڈی ایس پی سردار حسین کون تھے؟

سردار حسین دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مختلف تھانوں میں تعینات رہے اور انھوں نے متعدد حملوں کو پسپا کیا بلکہ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کی تھیں۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین
BBC

’وہ بہادر تھا، انتہا کا ایماندار اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف تھا۔۔۔‘ پولیس اہلکاروں کے مطابق شدت پسندوں نے صرف ایک ڈی ایس پی کو نہیں مارا بلکہ پولیس کے ایک ادارے کو ختم کر دیا۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب شدت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں دو پولیس اہلکاروں سمیت ہلاک ہوئے۔

پولیس حکام کے مطابق شدت پسندوں نے پشاور میں تھانہ سربند پر حملہ کیا تھا، جسے پولیس اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔

شدت پسند فرار ہو رہے تھے جب ڈی ایس پی سردار حسین نے انھیں گھیرے میں لینا چاہا اور شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں وہ ہلاک ہو گئے۔

بی بی سی نے پشاور میں ان پولیس اہلکاروں سے بات کی، جنھوں نے زیادہ وقت سردار حسین کے ساتھ گزار۔ ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے سردار حسین سے زیادہ اپنے کام کو ایمانداری سے سر انجام دینے والا پولیس افسر نہیں دیکھا۔

کامل جہانگیر ان دنوں خیبر چوکی میں محرر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ وہ سردار حسین کے ساتھ سات سال تک کام کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سردار حسین کی پوسٹنگ ایک کانسٹیبل کے طور پر ہوئی تھی اور اب وہ بڈھ بیر ریجن کے ڈی ایس پی تھے۔ اس دوران وہ 18 تھانوں میں ایس ایچ او رہے جبکہ چھ تھانے ایسے ہیں، جہاں ان کی پوسٹنگ دو دو مرتبہ ہوئی۔

ان میں زیادہ وقت انھوں نے ایسے تھانوں اور چوکیوں میں گزارا، جہاں شدت پسندوں کے ذیادہ حملے ہوئے یا ایسے تھانے جہاں جرائم کی شرح زیادہ رہی اور سردار حسین کے آنے کے بعد وہاں جرائم کی شرح میں کمی بھی ہوئی۔

سردار حسین سنہ 1985 میں 18 برس کی عمر میں پولیس میں بھرتی ہوئے۔ ان کی سروس 37 سال سے زیادہ تھی۔

سردار حسین کے لواحقین میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین
BBC

’سردار حسین کو کچھ عرصہ قبل بھی سینے پر گولی لگی تھی‘

پولیس انسپیکٹر محمد آصف نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبلبھی سردار حسین کو سینے پر ایک گولی لگی لیکن وہ بچ گئے تھے۔

’کوہاٹ روڈ کے قریب سربند کے علاقے میں ڈاکوؤں کا ایک گینگ متحرک تھا، علاقے کے لوگوں نے انھیں اطلاع دی کہ یہ گینگ گاڑیوں کو روک کر لوٹ رہا ہے۔ سردار حسین نے پولیس نفری کے ہمراہ اس جگہ چھاپہ مارا۔ وہاں ملزمان ایک کھنڈر نما مکان میں بیٹھے تھے۔‘

’پولیس کے پہنچتے ہیں ملزمان نے فائرنگ شروع کر دی۔ ایک گولی سردار حسین کو سینے پر لگی لیکن خوش قسمتی سے سردار حسین نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کارروائی میں ایک ملزم ہلاک جبکہ باقی گرفتار ہوگئے۔‘

پولیس اہلکاروں نے ایک واقعے کا خاص ذکر کیا اور بتایا کہ ’ٹرپل مرڈر‘ کا ایک کیس تھا جو حل نہیں ہو رہا تھا اور ملزمان فرار ہو گئے تھے۔ سردار حسین ان ملزمان کے تعاقب میں اپنی گاڑی میں چترال، دیر اور دیگر تمام مقامات تک گئے لیکن ملزمان کی گرفتاری نہیں ہو سکی۔

سردار حسین اس وقت تک اپنے مشن پر کاربند رہے جب انھوں نے بالآخر ملزمان کو سندھ میں ایک جھونپڑی سے گرفتار کر لیا۔

ان ملزمان کا کہنا تھا کہ اگر سردار حسین انھیں آج گرفتار نہ کرتے تو شاید وہ اپنے بچوں کے ساتھ کل افغانستان فرار ہو جاتے۔

دہشت گردی جب عروج پر تھی تو ترقی ملی

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین
BBC

سردار حسین کے ساتھ کام کرنے والے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جب عروج پر تھی تو انھیں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

سردار حسین کو اس وقت متنی تھانے میں تعینات کیا گیا تھا جب اس تھانے پر آئے روز حملے ہوتے تھے۔

اسی تھانے میں پھر ایس پی خورشید کو طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ یہ علاقہ باڑہ کی سرحد پر واقع ہے اور یہاں عسکریت پسند اکثر کارروائیاں کیا کرتے تھے۔

پولیس نے بھی یہاں ان شدت پسندوں کے ساتھ مقابلے کیے ہیں۔ سردار حسین نے کبھی کسی کو سفارش نہیں کی کہ انھیں اس تھانے سے ہٹایا جائے بلکہ وہ اس پر فخر کرتے تھے کہ انھیں اہم تھانوں پر تعینات کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہم تین کانسٹیبل بھائی تھے اب میں اکیلا رہ گیا ہوں، میرے بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا‘

’جب فائرنگ کی آوازیں سُنیں تو لگا شہر پر حملہ ہو گیا‘، بنوں میں اُس روز ہوا کیا تھا؟

طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا خاتمہ ہوتے ہی سکیورٹی صورتحال مخدوش: حکومت کیا کرتی رہی؟

سردار حسین دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مختلف تھانوں میں تعینات رہے اور انھوں نے متعدد حملوں کو پسپا کیا بلکہ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کی تھیں۔

کامل جہانگیر نے بتایا کہ جب سردار حسین کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو بڑی تعداد میں پولیس اہلکار ہسپتال پہنچ گئے تھے کیونکہ ایسی اطلاع موصول ہوئی تھی کہ شاید انھیں خون کی ضرورت ہو۔

سردار حسین کے ساتھ اس حملے میں دو کانسٹیبل بھی جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ارشاد تھے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق ارشادسردار حسین کے قریبی ساتھی تھے اور سنہ 2012 سے وہ انھی کے ساتھ ڈیوٹی کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ سال یعنی سنہ 2022 میں 120 سے زیادہ پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.