دلی کی جامع مسجد کے ’شاہی‘ امام کو بدلنے کے لیے عدالت میں پیٹیشن: ’سلطنت چلی گئی، انگریز چلے گئے لیکن آپ کی بادشاہت ختم نہیں ہوئی‘

سہیل خان نے دلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اماموں کی تقرری کے ضابطوں کے تحت موروثی امامت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 
دلی کی جامع مسجد
Getty Images

دلی کی جامع مسجد یہاں کی تاریخ اور ثقافت کا ایک اہم جزو رہی ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اسے اپنی حکمراںی کے آخری برسوں 1850 -1856 عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کی امامت کے لیے انھوں نے بخارا کے دینی عالم سید عبداغفور شاہ بخاری کو پہلے شاہی امام کے طور پر مقرر کیا تھا۔ 

ان کے بعد نسل درنسل انھی کے خاندان کے افراد امام مقرر ہوتے آئے ہیں۔ موجودہ امام سید احمد بخاری کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے لیکن اب وہیں کے ایک مقامی رہائشی سہیل احمد خان نے ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

سہیل خان نے دلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اماموں کی تقرری کے ضابطوں کے تحت موروثی امامت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 

بی بی سی بات کرتے ہوئے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’امام صاحب کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں بادشاہ نے ان کے آبا و اجداد کو امامت کے لیے بلایا تھا۔ شاہ جہاں بادشاہ نہیں رہے۔ ان کے پوتے پر پوتے، ان کے خاندان کے سبھی لوگ ختم ہو گئے لیکن شاہ جہاں بادشاہ کے بلائے ہوئے ایک ملازم جو آج وقف بورڈ کے ملازم ہیں وہ شاہ جہاں سے بھی بڑے ہو گئے۔‘

’سلطنت چلی گئی، انگریز چلے گئے لیکن آپ کی بادشاہت ختم نہیں ہوئی۔ میرا مطالبہ ہے کہ وقف بورڈ کے ضابطوں کے مطابق جو اما م بننے کی اہلیت رکھتا ہو اسے امام مقرر کیا جائے۔‘

delhi
Getty Images

سہیل احمد خان پرانی دلی کے رہنے والے ہیں اور بی جے پی کے رہنما ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ دس برس سے وقف بورڈ اور دوسرے اداروں سے جامع مسجد کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے ہیں۔ 

انھوں نے الزام لگایا کہ ’موجودہ امام مسجد اور اور اس کی املاک کو ذاتی جائیداد کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ان کی سرپرستی میں جامع مسجد مخدوش ہو رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنی پیٹیشن میں درخواست کی ہے کہ موجودہ امام تو امام بن چکے ہیں لیکن ان کے بعد یہ نظام ختم ہونا چاہیے کہ امام کا بیٹا ہی امام ہو گا۔‘

’ان کے بیٹے کو کیوں امام بنایا جائے؟ ایسے شخص کو امام بنایا جائے جو قاری ہو، حافظ ہو، ہر وہ چیز جو امام کے لیے ضروری ہے، وہ جانتا ہو اور اس مقام کے قابل ہو۔‘

سہیل احمد خان نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ جامع مسجد ایک بین الاقوامی اہمیت کی تاریخی عمارت ہے لہذااسے ایک پروٹیکٹڈ ( ریزرو ) تاریخی عمارت قرار دیا جائے ۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پروٹیکٹڈ قرار پانے کی صورت میں اس میں نماز نہیں ہو سکے گی اس لیے میں نے یہ بھی درخواست کی ہے اس میں نماز نہ روکی جائے۔ مسجد میں آنے والا سارا پیسہ حکومت کے پاس جائے اور وہی پیسہ مسجد کی دیکھ بھال پر لگایا جائے۔‘

delhi
Getty Images

دلی وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ اس نے جامع مسجد کے موجودہ امام سید احمد کی بطور امام تقرری کی توثیق کی تھی۔ دلی ہائی کورٹ کا دو ججوں پر مشتمل بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔

عدالت نے وقف بورڈ سے پوچھا ہے کہ اماموں کی تقرری، بالخصوص جامع مسجد کے امام کی تقری کیسے کی جاتی ہے، اس کی اہلیت کیا ہونی چاہیے، انھیں کون مقرر کرتا ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟

وقف بورڈ کے وکیل وجیہہ شفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقف بورڈ کا مؤقف ہے کہ اماموں کی تقرری موروثی نہیں ہوتی یعنی یہ نسل در نسل نہیں چلتی لیکن جامع مسجد کے بارے میں کچھ پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلی بات یہ کہ اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ اس مسجد کے پہلے واقف شاہ جہاں ہیں۔ انھوں نے پہلے امام کو جو مقرر کیا تھا وہ اسی خاندان کے تھے جس خاندان کے آج کے امام احمد بخاری ہیں۔‘

’دوسرے پہلو پر بھی اختلاف نہی کہ پہلے امام کے بعد اس خاندان کے امام موروثی طور پر نسل درنسل مقرر ہوتے چلے آئے ہیں۔‘

 ’تیسرا نکتہ جس پر کسی کو اختلاف نہیں وہ یہ کہ شاہ جہاں کے بعد بھی متعدد بادشاہ ہوئے لیکن انھوں نے بھی اسی خاندان کے کسی امام کی تقرری پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔

delhi
Getty Images

وجیہ شفیق کا کہنا ہے عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو روایت میں تبدیل ہو چکا ہے۔

’آج کی تاریخ میں مجھے نہیں لگتا کہ ایسی کوئی بڑی وجہ ہو سکتی ہے جس کے باعث مروجہ روایت سے انحراف کیا جائے۔‘

’جہاں سوال ہے پراپرٹی کنٹرول کا تو وہ وقف بورڈ کے پاس ہے۔ دلی وقف بورڈ نے اس پراپرٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک انتظامیہ کمیٹی بنا رکھی جس کے ذریعے وہ اس کا انتظام دیکھتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وقف بورڈ جامع مسجد کو ’پراٹیکٹڈ مونومنٹ ‘ قرار دینے کی مخالفت کرے گا کیونکہ اگر کوئی عمارت پروٹیکٹڈ عمارت قرار پاتی ہے تو اس کے ساتھ وہ کچھ پابندیاں لے کر آتی ہے جو انتظام اور کنٹرول سے متعلق ہو سکتی ہیں جبکہ وقف ایکٹ واضح کرتا ہے کہ وقف کی املاک کے بارے میں وقف ایکٹ میں جو پروویژن ہیں وہی نافذالعمل ہوں گی۔‘

اس تنازعے میں جامع مسجد کے اطراف کے بیشتر رہائشی جامع مسجد کے امام کی موروثی تقرری کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ امام سید احمد بخاری کے خاندان نے جامع مسجد کی صدیوں سے خدمت کی ہے۔ موجودہ امام صرف امام ہی نہیں جامع مسجد اور پرانی دلی کی تہذیبی مذہبی اور تقافتی  شناخت بھی ہیں۔‘

delhi
Getty Images

جامع مسجد کے علاقے کے ایک نوجوان محمد فیصل نے کہا کہ ’موجودہ امام قوم کے رہنما ہیں، ان کا خاندان قوم کی خدمت کرتا آیا ہے، وہ قوم کی شناخت ہیں اور ہم تو یہی چاہیں گے کہ مسجد کی سرپرستی شاہی امام کے ہاتھ میں رہے اور آنے والے وقت میں بھی انھیں کے ہاتھ میں رکھے۔‘

مسجد سے ملحقہ مینا بازار کے ایک کاروباری عبدالرافع نے کہا کہ ’جامع مسجد کے امام قدیمی ہیں اور جب سے یہ مسجد تعمیر ہوئی ہے تبھی سے ان کا خاندان چل رہا ہے۔ ان کا ہی خاندان چلنا چاہیے۔‘

ایک اور رہائشی محمد امجد کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہیں گے کہ یہی امام صاحب برقرار رہیں اور آگے بھی یہی سلسلہ چلتا رہے۔ وہ قابل ہیں اور ان سے یہاں کی رونق ہے۔‘

احمد نعیم جیسے بعض مقامی افراد نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ دوسرا امام آنے سے ماحول خراب ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی دوسرا امام یا دوسرے خاندان کا کوئی امام آتا ہے تو مسجد اور پورے علاقے کا انتظام بگڑ جائے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

قطب مینار: کیا دلی میں قطب الدین ایبک کا بنایا ہوا ورثہ پہلے ہندوؤں کا مندر تھا؟

'تاج محل اللہ کی ملکیت ہے'

delhi
Getty Images

دلی کی جامع مسجد گذشتہ کئی عشروں سے انڈیا کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔

موجودہ امام کے والد سید عبداللہ بخاری امامت کے ساتھ سیاست میں بھی متحرک تھے۔ وہ ملک کی مسلم سیاست کا ایک اہم کردار بن چکے تھے۔ سیاسی جماعتیں بالخصو ص کانگریس اپنے دور اقتدار میں انتخابات سے پہلے اپنی حمایت میں ان سے بیان جاری کرانے کی کوشش کرتی تھیں۔ 

انھوں نے کئی مرتبہ دوسری جماعتوں کی بھی حمایت کی تھی۔ سیاسی رہنماؤں سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ 

موجودہ امام نے بھی اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ابتدا میں ملک اور بالخصوص مسلمانوں کے مسائل پر بیانات جاری کیے لیکن رفتہ رفتہ انھوں نے سیاست سے خود کو الگ کرنا شروع کر دیا۔ 

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے کسی بھی معاملے میں بیانات دینے سے گریز کیا اور اب مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 

بی بی سی نے جب ان سے موروثی امامت کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کیس کے بارے میں ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے کچھ کہنے سے انکار کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ ’اس کے پیچھے کچھ لوگوں کا مفاد وابستہ ہے۔‘

دلی وقف بورڈ نے اماموں کی تقرری سے متعلق ضابطوں اور جامع مسجد کے حوالے سے متعلق اپنا مؤقف عدالت میں پیش کر دیا ہے۔ اس معاملے کی سماعت 8 فروری کو طے کی گئی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.