نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن جنھیں اندرونِ ملک کے بجائے بیرون ملک زیادہ مقبولیت ملی

ملک کے اندر اور باہر شہرت اور مقبولیت کے بام عروج کو چھونے والی جاسنڈا نے اگلے ماہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
جاسنڈا آرڈن
Getty Images

جاسنڈا آرڈرن کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کئی بحرانوں کا سامنا رہا۔

ان میں سے خاص طور پر 2019 میں کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ایک مسلح شخص کے ہاتھوں 51 مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جس طرح انھوں نے صورتحال کو سنبھالا اسے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔

اس کے بعد 2020 میں کووڈ 19 کی وبا سے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ان کی قیادت میں لیبر پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر شہریوں کے گھروں تک محدود رہنے اور ملکی سرحدوں کو بند رکھنے جیسی سخت پابندیوں نے جب طول پکڑا تو ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہونے لگی۔

انھیں نیوزی لینڈ میں ویکسین مخالف تحریک اور دائیں بازوں سے متاثرہ گرہوں کی طرف سے بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔

جمعرات کے روز ان کے مستعفی ہونے کے اعلان سے واضح تھا کہ ان پر پڑنے والے دباؤ نے انھیں متاثر کیا ہے اور یہ کہ انھیں یقین نہیں رہا کہ وہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں اپنی پارٹی کو جیتوا سکیں گی۔

انھوں نے کہا: ’اس موسم گرما میں، میں نے نہ صرف ایک اور سال بلکہ ایک اور مدت کے لیے تیاری کا طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کی کیونکہ یہی اس وقت ضرورت ہے۔ میں ایسا نہیں کر سکی۔‘

بیالس برس کی آرڈرن شمالی جزیرے کے شہر ہیملٹن میں مورمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک پولیس افسر تھے۔

ہم جنس پرستی پر اپنے موقف کی وجہ سے انھوں نے قدامت پسند پس منظر کو مسترد کردیا اور لیبر پارٹی سے وابستہ ہوگئیں۔

وہ 2008 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے پہلے نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے لئے کام کیا۔

سنہ 2017 میں جب اینڈریو لٹل کی قیادت میں لیبر پارٹی اپنی عوامی مقبولیت کھو رہی تھی تو جاسنڈا آرڈرن ان کی نائب منتخب ہوئیں اور جلد ہی ان کی اور پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ لٹل انتخابات سے آٹھ ہفتے قبل مستعفی ہوگئے اور یوں جاسنڈا ان کی جانشین بن گئیں۔

انتخابی مہم کے دوران انھیں ان کے ناقدین نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ زیادہ کچھ نہیں پیش کرتیں۔ لیکن نیوزی لینڈ کے متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت، اگرچہ لیبر پارٹی نے مرکزی دائیں بازو کی نیشنل پارٹی کے 44.5 فیصد کے مقابلے میں صرف 36.9 فیصد ووٹ حاصل کیے، لیکن وہ نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہیں۔

یہ ان کے لیے ایک سیاسی سنگِ میل ثابت ہوا کیونکہ پارٹی کے رہنما ونسٹن پیٹرز نے لیبر پارٹی کی بہت سی پسندیدہ پالیسیوں کی مخالفت کی، جیسے کیپٹل گین ٹیکس۔

جاسنڈا نے پیٹرز کو وزیر خارجہ بنانے کے بعد انھیں مکمل آزادی دیدی۔

مگر کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد یہ سب کچھ بدل گیا۔ انھوں نے فرانسیسی صدر کے ساتھ مل کر ’کرائسٹ چرچ کال‘ نامی ایک بین الاقوامی کوششوں کو آگے بڑھایا تاکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ براہ راست پر تشدد ویڈیوز پوسٹ کرنے والے صارفین کی صلاحیت کو محدود کریں، جیسا کہ کرائسٹ چرچ کے مسلح حملہ آور نے کیا تھا۔

جاسنڈا آرڈن
Getty Images
مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر شدت پسند حملوں کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں سے ملاقات کر رہی ہیں

لیکن ان کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج چین کے ساتھ نیوزی لینڈ کے تعلقات تھے، جو اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور سیاحوں اور تارکین وطن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

چین کے ساتھ قریبی روابط کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مابین تناؤ پیدا ہوا۔

وزیر خارجہ پیٹرز نے نیوزی لینڈ کی خارجہ پالیسی کا رخ روایتی شراکت داروں برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ مگر جاسنڈا آرڈرن نے اسے اس آزادانہ موقف کی طرف واپس لے گئیں جو اس ملک نے 1985 میں اس وقت اختیار کیا تھا جب امریکہ نے اسے انزوس سکیورٹی معاہدے سے نکال دیا تھا۔

سنہ 2018 میں اپنی وزارت عظمی کے دوران بیٹی ’نیو‘ کو جنم دینے کے بعد وہ پہلے ہی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت بن چکی تھیں۔

وہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں نوزائیدہ بچی کو لانے والی پہلی خاتون عالمی رہنما تھیں جب انھوں اور ان کے ساتھی کلارک گیفورڈ نے بیٹی نیو کے ساتھ نیلسن منڈیلا امن سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔

انھوں نے 2019 میں بیجنگ کا ایک روزہ دورہ کیا اور اس کا زیادہ تر حصہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیچیانگ کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارا۔

وہ وائٹ ہاؤس، لندن کا بھی گئیں اور باقاعدگی سے آسٹریلیا کے وزرائے اعظم سے ملاقات کرنے کے لیے تسمان بھی جاتی رہیں۔

تاہم، وہ سکاٹ موریسن یا انتھونی البانیز میں سے کسی کو بھی نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والے کسی بھی 12 سال سے زیادہ سزا یافتہ شخص کو ملک بدر کرنے سے متعلق پالیسی میں نرمی کرنے پر راضی نہیں کر سکیں۔

ان کا دور کووڈ سے متعلق پالیسی کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ تقریباً دو سال تک وہ مسلسل روزانہ میڈیا کانفرنسز کرتی رہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں رہنے پر مجبور لوگوں کے لیے انھیں دیکھنا ناگزیر ہو گیا تھا۔

لیکن ان کی پارٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا: ان کے ساتھی چاہتے تھے کہ ان کی حکومت ورثے میں ترقی پسند اصلاحات چھوڑ کر جائے۔

لہٰذا، 2020 کی زبردست فتح کے بعد  لیبر پارٹی نے پانی، صحت کے نظام، وسائل کے انتظام اور منصوبہ بندی، نشریات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

حزب اختلاف نے اصلاحات کی ہر کوشش کی مخالفت کی اور گزشتہ سال مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد تصادم کے بعد پارلیمنٹ کے لان میں ایک طویل عرصے سے لگے ویکسین مخالف احتجاجی کیمپ کو ختم کر دیا گیا۔ اس سے جاسنڈا مخالف جذبات مزید بھڑک اٹھے۔

گزشتہ سال جون میں جاری ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے خلاف دھمکیوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔

نتیجتاً وزیر اعظم کی جانب سے ویٹنگی معاہدے پر دستخط کی نسبت سے ویٹنگی ڈے کے موقع پر روایتی دعوت کو منسوخ کرنا پڑا۔

ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بڑا حصہ یا تو منظور ہونے کے انتظار میں ہے یا نفاذ کے ابتدائی مراحل میں ہے۔

لہٰذا اس مرحلے پر ان کی وراثت بنیادی طور پر ایک قابل رسائی، ہمدرد سیاست دان کی ہے، جس نے محاذ آرائی کی جگہ ’مہربانی‘ کو ترجیح دی۔ اور اندرون ملک کے بجائے بیرون ملک انھیں زیادہ پذیرائی حاصل رہی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.