2 سالہ ملزم کی گرفتاری کیلئے چھاپے اور ۔۔ کیا آپ جانتے ہیں باپ کی گود میں روتا یہ بچہ کتنا بڑا مجرم ہے؟

image

پاکستان میں پولیس سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کچھ بھی امید کی جاسکتی ہے، یہاں بے گناہ کو مجرم بنانا اور مجرم کو فرشتہ بنا کر پیش کرنا معمول کی بات ہے لیکن کئی بار ایسے کیسز بھی سامنے آتے ہیں جب پولیس ایسے لوگوں کو کیس میں نامزد کرلیتی ہے جس سے پورے سسٹم پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

حال ہی میں کراچی میں ایک ایسا ہی مقدمہ درج کیا گیا جس میں دو سال کے بچے کو بھی نامزد کردیا گیا اور کمسن بچہ عدالت میں پیشی کے موقع پر باپ کی گود میں دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔

کراچی کے معروف قانون دان ایڈوکیٹ لیاقت نے بتایا کہ تھانہ جیکسن میں مقدمہ نمبر 08/2023میں انویسٹی گیشن افسر نے 2 سالہ بچے کو بھی نامزد کردیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 11 جنوری کو کیماڑی کے علاقے میں اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے والے شخص کا بینک کے گارڈ سے جھگڑا ہوگیا اور اس شخص کو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

پولیس نے شہریار نامی شخص کو حراست میں لینے کے بعد اس کے 7 رشتے داروں کو بھی مقدمہ میں نامزد کردیا اور بچے کے اہل خانہ کی طرف سے پیسے نہ دینے پر پولیس اس 2 سالہ بچے کی گرفتاری کیلئے بار بار وارنٹ کیلئے عدالت سے رجوع کرتی رہی۔

وکیل نے بتایا کہ ہم بچے کو عدالت میں پیشی کیلئے لائے ہیں تاکہ جج صاحب دیکھ لیں کہ پولیس نے کس ملزم کی گرفتاری کیلئے وارنٹ مانگا ہے۔

پولیس مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کرنے کے بجائے مسلسل بچے کے اہل خانہ کو ہراساں کررہی ہے اور اس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں اور اس بچے پر مختلف ایم ٹی ایمز سے پیسے چرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

وکیل نے آئی جی سندھ سے لوگوں کو پریشان کرنے والے پولیس افسران کیخلاف سخت کارروائی کرنے کی استدعا کی ہے۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.