پاکستان میں قانون کی کمزوری کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے فیصلے خود کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا انجام ہر صورت نقصان ہی ہوتا ہے اور لوگ بدلے اور انتقام کیلئے کئی بار ایسے جرائم کا بھی ارتکاب کرلیتے ہیں جس کی سزاء صرف موت ہے، ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں ایک باپ سزائے موت کے وقت اپنی کمسن بیٹی سے مل رہا ہے۔
سزائے موت کسی بھی شخص کو سنگین جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی سزا ہے۔ قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر معاشرے میں مشق کی جاتی رہی ہے، فی الحال صرف 58 ممالک میں یہ سزا قانونی طور پر فعال ہے جبکہ 95 ممالک میں اس سزا پر قانونی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
دنیا کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور وہاں صرف مخصوص حالات، جیسے جنگی جرائم کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
گو کہ اس وقت دنیا کے زیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ چین، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔
اس ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ہتھکڑیوں میں جکڑا نوجوان باپ سزائے موت پر عمل کرنے کیلئے لے جاتے وقت اپنی کمسن بیٹی سے ملتے ہوئے روتے ہوئے پیار کررہا ہے اور نوجوان کے چہرے پر پچھتاوا صاف دکھائی دے رہا ہے لیکن اگر جرم کرنے سے پہلے ایک بار اپنے پیاروں کے بارے میں سوچ لیا جائے تو شائد جرائم میں کمی آجائے۔