انڈیا کی وہ فلمی صنعت جو سیکس کے ایک نامناسب سین کی وجہ سے برباد ہوئی

ان فلموں کو اکثر بالی وڈ کی غیر شائستہ کزنز تصور کیا جاتا ہے اور یہ بہت کم بجٹ اور ناممکن کی حد تک مختصر ڈیڈلائنز پر بنائی جاتی تھیں۔ ان میں اداکار کافی حد تک غیر معروف، کہانیاں بے جان، مکالمے چھچھورے، آرائش نہایات شوخ، اور سیکس ہوا کرتا تھا۔

بالی وڈ کی ’بی موویز‘ کہلانے والی فلموں کے متعلق ایک نئی دستاویزی فلم میں ڈائریکٹر دلیپ گلاتی بتاتے ہیں کہ وہ کیوں ایسی فلمیں بناتے ہیں۔

’فلم کے ہر منظر کو آپ کے ذہن، دل یا بیلٹ کے نیچے والی جگہ کو چھو لینے والا ہونا چاہیے۔‘

ان فلموں کو اکثر بالی وڈ کی غیر شائستہ کزنز تصور کیا جاتا ہے اور یہ بہت کم بجٹ اور ناممکن کی حد تک مختصر ڈیڈلائنز پر بنائی جاتی تھیں۔ ان میں اداکار کافی حد تک غیر معروف، کہانیاں بے جان، مکالمے چھچھورے، آرائش نہایات شوخ، اور سیکس ہوا کرتا تھا۔

نوّے کی دہائی میں ان کی مقبولیت کے دورانیے میں ہزاروں لوگ یہ فلمیں دیکھنے کے لیے جایا کرتے تھے مگر سنہ 2004 تک یہ صنعت زوال پذیر ہو چکی تھی۔

اب ایمازون پرائم پر چھ حصوں پر مشتمل ایک نئی ڈاکیوسیریز ’سنیما مرتے دم تک‘ میں ان فلموں، ان کی روح اور ان کے اہم کرداروں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کیسے وجود میں آئیں اور پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی دلچسپی ان میں کیسے ختم ہو گئی۔

ایسی نہایت مقبول فلمیں بنانے والے چار ڈائریکٹرز ونود تلوار، جے نیلم، کشن شاہ اور دلیپ گلاتی کو نہایت معمولی بجٹ اور مختصر سا عرصہ دے کر کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے انداز میں ایک فلم کی ہدایت کاری کریں۔

یہ ڈائریکٹرز جو کئی دہائیوں بعد واپس اپنے فن کی جانب لوٹے، فوراً ہی کام پر لگ گئے اور پرانے دوستوں اور معاونین کی مدد سے فلم بنانے لگے۔ جیسے جیسے یہ شو ان ڈائریکٹرز کے ہمراہ آگے بڑھتا ہے تو ناظرین خود کو نوّے کی دہائی میں پاتے ہیں۔

ناظرین کو ان کی پرانی فلموں کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے عجیب و غریب ٹائٹلز ہوا کرتے مثلاً ’موت کے پیچھے موت، کنواری چڑیل اور میں ہوں کنواری دلہن۔‘

یہ فلمیں بسا اوقات ایک ہی سیٹ پر بنائی جاتیں اور ڈائریکٹرز خود ہی آرٹ ڈائریکٹرز، کاسٹیوم ڈیزائنرز اور کبھی کبھی خود ہی اداکار بھی ہوا کرتے۔

اگر کبھی ڈائریکٹر کے ذہن میں کوئی نیا خیال آ جاتا تو کبھی کبھی ان فلموں کو مزید شوخ ٹائٹلز کے ساتھ ریلیز کیا جاتا یا پھر ان کے پلاٹ ہی تبدیل کر دیا جاتے۔

کبھی کبھار بالی وڈ ستاروں کو بھی اکا دکا مناظر کے لیے لایا جاتا اور یومیہ پیسے دیے جاتے۔

بی موویز بنانے والے ایک مشاق ہدایت کار کانتی شاہ بھی اس ڈاکیوسیریز کا حصہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اُنھوں نے اپنی فلموں میں گووندا، متھن چکربورتی، اور دھرمیندر تک کو شامل کیا تھا۔

کوئی بھی ایسا موضوع نہیں تھا جسے شجرِ ممنوعہ، نہایت عجیب و غریب یا انتہائی چسکے دار قرار دے کر ان فلموں میں شامل کرنے سے انکار کر دیا جائے۔

چاہے اپنے گینگ میں مرد مالشیوں کو بھرتی کرتی کوئی بدمعاش خاتون ہوتی، اپنی جنس بدل لینے والا کوئی بھوت، یا اپنی نوکرانیوں کے ساتھ سیکس کرنے والا شخص، ہر چیز ہی ان فلموں میں نظر آتی۔

فلموں پر تحقیق کرنے والے اسیم چنداویر کو ایک فلم یاد ہے جس کا نام خونی ڈریکولا تھا۔ اس میں ایک ڈریکولا ایک کچی آبادی سے گزرتے ہوئے کھلے عام نہا رہی ایک خاتون کے ساتھ سیکس کر لیتا ہے۔

اسیم کہتے ہیں کہ ’مرکزی دھارے کی فلموں میں اگر کوئی بھوت لوگوں کے ساتھ سیکس کرتا بھی تو وہ کوئی پرتعیش جگہ پر ہوتی، کم از کم باتھ ٹب تو ہوتا۔ مگر یہ ڈائریکٹرز اپنے ناظرین کی زندگیوں کی حقیقت جانتے تھے اس لیے وہ انھیں سکرین پر دکھانے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔‘

یہ فلمیں دکھانے والے سنیما گھر اتنے بھرے رہتے کہ لوگوں کو بٹھانے کے لیے اضافی کرسیاں لگانی پڑتیں۔ زیادہ تر ناظرین مزدور طبقے سے تعلق رکھتے جن میں رکشہ و ٹیکسی ڈرائیور اور خوانچہ فروش وغیرہ شامل ہوتے جو شہروں سے دور چھوٹے قصبوں کے رہائشی ہوتے اور اکثر ایسی ملازمتیں کرتے جو کم سے کم اجرت سے بھی کم پیسے دیا کرتیں۔

ان افراد کو یہ فلمیں ان کی روز مرّہ کی زندگیوں کو بھلانے کا موقع فراہم کرتیں۔ گھنٹے دو گھنٹے کے لیے ملگجی سی روشنی والے سنیما میں وہ خود کو ایسی فلم میں گم کر سکتے تھے جو انھیں لبھاتیں اور سنسنی پیدا کر دیتیں۔

اس سیریز میں ان فلموں میں کام کرنے والے لوگوں کی جدوجہد کا بھی تذکرہ ہے جنھیں ’کم بجٹ والی خوفناک فلموں‘ میں کام کرنے کی وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا۔

مرکزی دھارے کی فلموں میں کام کرنا یا مزید سنجیدہ کردار حاصل کر پانا ان کے لیے مشکل ہوتا تھا۔ یہ فلمیں اکثر سینسر بورڈ کی پابندیوں کا بھی سامنا کرتی تھیں۔

فلموں کے تقسیم کار مزید جنسی ہیجان برپا کرنے والے مناظر کا مطالبہ کرتے اور کہتے کہ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ سینسر بورڈ یہ مناظر کلیئر نہیں کرتا تھا اس لیے ڈائریکٹرز انھیں الگ سے فلماتے اور ان ’ٹکڑوں‘ کو نمائش کے دوران فلم میں ڈال دیا جاتا تھا۔

اس انڈسٹری پر وبال تب آیا جب ایک پروجیکشنسٹ نے ’بھائی بہن‘ کے درمیان سیکس کا ایک منظر فلم میں ڈال دیا۔ اس سے لوگوں میں اشتعال پھیل گیا اور پولیس نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ سنہ 2004 تک بی موویز کی انڈسٹری تقریباً ختم ہو گئی تھی اور سینکڑوں افراد کا روزگار ان سے چھن گیا تھا۔

حالانکہ اب ’بی موویز کا سنہرا دور‘ ختم ہو چکا ہے مگر یہ اب بھی مداحوں کی کمیونٹیز، میمز اور لطیفوں کی صورت میں زندہ یہں۔

پوسٹر آرٹ بھی ان فلموں سے متاثر ہوا اور ان کے شوخ ٹائٹلز اب بھی ڈمب شیراڈز کھیل میں مقبول ہیں۔

فلم سکالر وبھوشن سُبا کہتے ہیں کہ ان فلموں کے مداحوں کا اپنا ایک کلچر ہے کیونکہ ان میں غیر معمولی حد تک اصلیت پسندی، حدود کو پھلانگتے معیار اور انتہائی شوخ آرائش سے کام لیا جاتا۔‘

سُبا کہتے ہیں کہ ’ان فلموں نے اپنے لیے پاپ کلچر میں اپنے لیے بھلے ہی چھوٹی سی مگر ایک مخصوص جگہ تراشی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.