اومیگل: ’مجھے وہ کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جو کسی بچے کو نہیں کرنا چاہیے‘

کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں ایلس کو اس بدسلوکی کی یاد دلاتی ہیں جس کا وہ بچپن میں سامنا کرتی رہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والاچاہتا تھا کہ وہ اُن ویڈیوز میں ایک خاص انداز میں نظر آئیں جو اس نے انھیںبھیجنے پر مجبور کیا۔
انٹرنیٹ
BBC

انتباہ: اس کہانی میں پریشان کن بالغ موضوعات شامل ہیں۔

ایک نوجوان لڑکی کے طور پر،ایلس(فرضی نام) نے مقبول لائیو ویڈیو چیٹ ویب سائٹ ، اومیگل پر لاگ اِن کیا، اور یہاں ان کا رابطہ ایک انجان پیڈوفائل (قانونی طور پر نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی رغبت اور جنسی فعل کا ارتکاب کرنے والا شخص) کے ساتھ ہو گئی جس نے انھیں ڈیجیٹل جنسی غلام بننے پر مجبور کردیا۔تقریبا 10 سال بعد اس نوجوان امریکی خاتون نےاومیگل کے خلاف ایک تاریخی مقدمہ دائر کیا ہے جو دوسرے سوشل پلیٹ فارمز کے خلاف مقدمات کی لہر کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں ایلس کو اس بدسلوکی کی یاد دلاتی ہیں جس کا وہ بچپن میں سامنا کرتی رہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والاچاہتا تھا کہ وہ اُن ویڈیوز میں ایک خاص انداز میں نظر آئیں جو اس نے انھیںبھیجنے پر مجبور کیا۔ اس نے انھیں کہا کہ وہ اپنے بالوں کو سر کے بائیں طرف پونی ٹیل کی شکل میں باندھیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں صرف11 سال کی تھی، لیکن وہ چاہتا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہکم عمرنظر آؤں۔‘

اب بھی، اگر ایلس کے بال بائیں طرفباندھے جائیں اس سے وہ لرز کر رہ جاتی ہیں۔

ایلس آج ایک پراعتماد 21 سالہ لڑکی ہیں، جو محبت کے رشتے میں ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے زخم زندگی بھر برقرار رہیں گے۔

جب ایلس نے پہلی بار اومیگل استعمال کیا وہ دوست کے گھررہنے گئی تھیں، اس وقت یہ پہلے ہی انٹرنیٹ پر ایک پر ایک بدنام چیز تھی۔ وہ کہتی ہیں ’میں اور میرے دوست اومیگل پر گئے، سکول میں ہر کوئی اس کے بارے میں جانتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی کو بھی اس کے خطرات کا علم نہیں تھا۔‘

ویب سائٹس پر نظر رکھنے والی کمپنی سیمرش کے تجزیہ کاروں کے مطابق آج ہر ماہ تقریباً سات کروڑ 30 لاکھ افراد اس ویب سائٹ پر آتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق انڈیا، امریکہ، برطانیہ، میکسیکو اور آسٹریلیا سے ہے۔ کچھ نوجوانوں کے لیے لائیو ویڈیو چیٹ میں کسی اجنبی کے ساتھ میچ کرنا عام ہے جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

دوست کے گھررہ کر آنے کے بعد ایلس اکیلے اومیگل پر لاگ اِن ہو گئیں اور اسی وقت ان کا رابطہ کینیڈین پیڈوفائل ریان فورڈس سے ہوا۔ وہ اس وقت نوجوانی کی پریشانیوں سے اُلجھ رہی تھیں اور فورڈیس نے انھیں بہتر محسوس کرایا۔

پہلی ویڈیو چیٹ کے دوران اس نے انھیں ذاتی پیغام رسانی کی تفصیلات شیئر کرنے پر راضی کیا۔

ایلس بتاتی ہیں ’وہ مجھے فوری طور پرمرضی پر چلانے میں کامیاب ہو گیا، بہت تیزی سے مجھے وہ کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جو کسی بچے کو نہیں کرنا چاہیے۔‘

بہ کہتی ہیں ’میں نے اپنے بچپن کا ایک بڑا حصہ اس کے اشارے پر گزارا۔ ہر دن کسی انجانے شخص کی مرضی سے گزرتا جو بچوں کے لیے بدترین ارادے رکھتا تھا۔ یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ آخر کار فورڈس کی دلچسپی کم ہونے لگی اور رابطہ ختم ہو گیا۔

ایلس نے اس راز کو اپنی قبر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن پھر کینیڈین پولیس نے دیکھا کہ کوئی شخص بچوں کے جنسی استحصال کا مواد آن لائن شیئر کر رہا ہے۔

ونی پگ سے تقریباً 200 کلومیٹر مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے شہر برینڈن میں محکمہ پولیس کیفرانزک ماہر کانسٹیبل پام کلاسن نے ریان فورڈیس کے گھر کے آئی پی ایڈریس کا سراغ لگایا اور سرچ وارنٹ حاصل کیا۔

جنوری 2018 کو جب وہ وہاں گئیں تو فورڈس گھر سے باہر تھے لیکن وہ ان کے کمپیوٹر پر لاگ ان کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور انھوں نے وہاں جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز کا ایک خوفناک مجموعہ دیکھا جو بچوں نے اس کے حکم پر اسے بھیجا تھا۔

جب فورڈس دوپہر کے کھانے کے لیے گھر آیا تو انھوں نے اسے گرفتار کر لیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ حیران تھا اور اس کی بیوی نے سوچا کہ شاید کوئی غلطی ہوئی ہو گی۔ پولیس کو کمپیوٹر پر سات فولڈر ملے جن میں سے ہر ایک کا نام مختلف تھا۔ ایک میں ایلس کی 220 تصاویر اور ویڈیوز تھیں جنمیں اس کی عمر 11 سے 14 سال کے درمیان تھیں، جن میں سے کچھ میں اسے مشت زنی یا پیشاب کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

کانسٹیبل پام کلاسن نے ایلس کو اس کے سکول یونیفارم کی مدد سے ٹریک کیا، جو کچھ تصاویر اور ویڈیوزمیں نظر آرہا تھا اور فورڈیس کو دسمبر 2021 میں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

دو بچوں کےباپ فورڈس نے اپنے دو دیگر متاثرین کا استحصال کرنے کے لیے بھی اومیگل کا بھی استعمال کیا تھا۔

انٹرنیٹ
Getty Images

ممکنہ مثالی مقدمہ

ایسے میں جب فورڈس سلاخوں کے پیچھے ہیں ایلس اب اومیگل پر کیس کر رہی ہیں جس پر دنیا بھر میں گہری نگاہیں ہیں۔

اسے مصنوعات پر عائد ذمہ داری کے مقدمے کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ کسی ٹیکنالوجی پلیٹ فارم پراس نوعیت کا مقدمہ کیا گیا ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے خلاف پروڈکٹ کی ذمہ داری کے درجنوں دیگر مقدمات بھی شروع کیے جا چکے ہیں لیکن ایلس کا کیس سر فہرست ہے۔

ایلس کی وکیل کیری گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں کمیونیکیشن شائستگی ایکٹ کی دفعہ 230 موجود ہے جس کی وجہ سے آن لائن پلیٹ فارم پر مقدمہ کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔‘

قانونی ٹیم کا استدلال ہے کہ اومیگل بے ترتیب میچنگ سسٹم اور انتباہ یا عمر کی تصدیق کا نظام نہ ہونےکی وجہ سے ’جرائم پیشہ افراد کے لیے شکار گاہ‘ بن گیا۔

انھیں امیدہے کہ اس مقدمے سے ایلس کو معاوضے میں لاکھوں ڈالر مل سکتے ہیں اوراومیگل کو ڈیزائن میں تبدیلیوں پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

قانونی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ کیس ایک ممکنہ تاریخی لمحہ ہے۔

فیس بک کے مالک کمپنی میٹا کے خلاف برطانیہ میں غیر منصفانہ مسابقت کے حوالے سے ایک ہائی پروفائل کلاس ایکشن کیس میں مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کرنے والی ڈاکٹر لیزا لوڈال گورمسن کا کہنا ہے کہ ’اگر اومیگل مقدمہ کامیاب ہو جاتا ہےتو میرے خیال میں اس سے بہت سے دیگر متاثرین کے لیے بھی اسی طرح کے دیگر مقدمات سامنے آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ امریکہ یا کہیں اور اس طرح کے مقدمات کے نتیجے میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی سے دنیا بھر میں ویب سائٹس کے صارفین کو فائدہ ہوگا۔‘

اگر حکومت کا طویل عرصے سے التوا کا شکار آن لائن سیفٹی بل بالآخر منظور ہو جاتا ہے تو اومیگل کو برطانیہ میں قانونی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بل میں تجویز دی گئی ہے کہ اگر کمپنیاں بچوں کو نقصان سے بچانے میں ناکام رہیں تو انھیں بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔

انٹرنیٹ
Getty Images

اومیگل کے خالق کی تلاش

اومیگل کی قانونی ٹیم نے عدالت میں دلیل دی ہے کہ ایلس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیے ویب سائٹ ذمہ دار نہیں ہے اور اس بات سے انکار کرتی ہے کہ یہ شکاریوں کی پناہ گاہ ہے۔

لیکن میں نے صرف پچھلے دو سالوں میں پیڈوفائلز کے خلاف 50 سے زیادہ مقدمات میں اومیگل کا ذکردیکھا ہے۔ ان میں امریکہ میں 20 سے زیادہ کیسز جبکہ دیگر برطانیہ، آسٹریلیا، سپین، کولمبیا اور قبرص میں رپورٹ ہوئے۔

ویب سائٹ کے تخلیق کار لیف بروکس، ای میل کے ذریعے ایلس کے معاملے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا میں اورلینڈو، فلوریڈا میں اس امید پر ان کے گھر گئے کہ وہاں ان سے بات کروں گا لیکنایک بار پھر وہ خاموش رہے۔

انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن نے بروکس سے ان کی سائٹ میں تبدیلیوں کے بارے میں بات کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

انٹرنیٹ سے بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کو ہٹانے والے خیراتی ادارے نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے تجزیہ کار ایک ہفتے میں تقریبا 20 اومیگل ویڈیوز سے نمٹتے ہیں۔

بروکس نے بی بی سی کو ایک بیان بھیجا تھا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ اومیگل کے صارفین ان کی ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے’اپنے رویے کے لیے مکمل طور پر خود ذمہ دار ہیں‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ اومیگل نے مصنوعی ذہانت اور انسانی ماڈریٹرز کے ذریعے اعتدال پسندی کے ساتھ صارفین کی حفاظت کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے ، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کے آن لائن استحصال کو روکنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی ہے۔

یہ سچ ہے کہ اومیگل کی جانب سے مشتبہ صارفین کے آئی پی ایڈریس پولیس کو فراہم کیے جانے کے بعد بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کچھ افراد کو سزا سنائی گئی ہے۔

دریں اثنا بروکس نے اپنی ویب سائٹ میں کچھ تبدیلیاں کی ہے۔ ایلس کی قانونی کارروائی کے بارے میں مطلع کیے جانے کے چند ہفتوں بعد اومیگل پر ایک باکس نمودار ہوا جس میں صارفین کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ 18 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔

لیکن ایلس کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔

ایلس خود کہتی ہیں کہ وہ اومیگل کو بند ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بچوں کی زندگیوں کو تباہی سے بچانے مںی کوئی خاص فائدہ ہوگا۔ ‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.