سی ایس ایس امتحان کے لیے عمر کی حد 35 سال تک بڑھانے پر غور کیوں؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعے کو ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحان میں شرکت کے لیے امیدواروں کی عمر کی حد 30 سال سے بڑھا کر 35 سال کرنے کی حمایت کی گئی۔ جبکہ امیدواروں کو امتحان کے لیے تین کی بجائے پانچ مواقع دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
gettyimages
Getty Images

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعے کو ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحان میں شرکت کے لیے امیدواروں کی عمر کی حد 30 سال سے بڑھا کر 35 سال کرنے کی حمایت کی گئی۔ جبکہ امیدواروں کو امتحان کے لیے تین کی بجائے پانچ مواقع دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

جہاں ایک طرف حکومت سول سروس کے امتحان میں اصلاحات لانا چاہتی ہے تو وہیں دوسری طرف اس حوالے سے لوگوں کی رائے منقسم ہے۔

سوشل میڈیا پر سی ایس ایس کے امتحان کے لیے عمر کی حد بڑھانے کا موضوع زیرِ بحث ہے اور کئی لوگوں نے ان سفارشات پر تنقید کی ہے۔

بعض لوگوں نے تبصرہ کیا کہ اس کا مطلب ہے ایک امیدوار اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال صرف اسی امتحان کی تیاری میں لگا دے گا، بجائے اس کے کہ کسی اور کام کے لیے محنت کرے۔

مگر ارکانِ قومی اسمبلی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تبدیلیوں کو فوری طور پر نافذ کیا جائے تاکہ نوجوان امیدوار نئے اصولوں کے مطابق اپنی تیاری کا آغاز کر سکیں۔

’ہمیں سول سروس میں میچور لوگوں کی ضرورت ہے‘

سی ایس ایس پاکستان کا ایک انتہائی اہم امتحان ہے جو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ذریعے وفاقی حکومت کے مختلف محکموں اور اداروں میں گریڈ 17 کے افسران کی بھرتی کے لیے ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔

کامیاب امیدوار پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس، فارن سروس اور دیگر اہم اداروں کا حصہ بنتے ہیں۔

سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے افراد کو ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے جو پالیسی سازی سے لے کر قانون کے نفاد (پولیس) اور عوامی خدمت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پاکستان کا سب سے بااثر اور مشکل امتحان سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکنِ قومی اسمبلی سیدہ نوشین افتخار بتاتی ہیں کہ ’ہمارے پاس سی ایس ایس کا امتحان دینے والے کچھ ایسے امیدوار آئے جن کے نتائج مؤخر ہونے کے باعث بیشتر افراد کی عمر کی حد ختم ہو گئی۔‘

یاد رہے کہ ایف پی ایس سی نے 2024 کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کے ساتھ سی ایس ایس 2025 کے امتحان کا اعلان کیا تھا۔

ایف پی ایس سی کے اس فیصلے سے متاثر ہونے والے طلبہ نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی تھی اور استدعا کی کہ سنہ 2024 کے امتحان کے نتائج کے اعلان سے قبل سی ایس ایس 2025 کے امتحان کا انعقاد مؤخر کیا جائے۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے ینگ پارلیمینٹیرین فورم کی صدر سیدہ نوشین افتخار کہتی ہیں کہ ’میرے پاس کئی نوجوان یہ شکایت لے کر آئے جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی تھی جن میں سے بیشتر کو شادی، بچوں اور گھریلو ذمہ داریوں کے بعد سی ایس ایس کے امتحان دینے کا سلسلہ روکنا پڑا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے ان کی بات سن کر افسوس ہوا کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال کے باعث ہم نوجوانوں کو ویسے مواقع نہیں دے پائے جیسے دینے چاہیں تھے۔‘

سیدہ نوشین افتخار اس کی دوسری وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمیں سول سروس میں میچور لوگوں کی ضرورت ہے کیونکہ کم عمر نوجوانوں کی کام اور پرفارمنس کی سینس ابھی اتنی پکی نہیں ہوتی۔‘

ان کا ماننا ہے کہ 30-40 سال کی عمر کے لوگوں نے زندگی کا بہتر تجربہ حاصل کر لیا ہوتا ہے اور اسی تجربے کے باعث وہ زیادہ بہتر پرفارم کرتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ عمر کی حد بڑھنے کے ساتھ ’ہم نے اسی کی مناسبت سے امتحان دینے کے لیے دو اور مواقع بھی ایڈ کروا دیے۔‘

سیدہ نوشین افتخار کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے مزید وسیع کرے گا بلکہ اُن میں مقابلے کی صلاحیت کو بھی فروغ دے گا۔

سی ایس ایس میں متوقع اصلاحات پر لوگوں کی رائے منقسم

یاد رہے طویل عرصے سے امیدوار اور تعلیمی ماہرین سی ایس ایس کے امتحانی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

رواں برس مارچ میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے اعلان کیا تھا کہ حکومت تعلیمی اور انتظامی اصلاحات کی جانب بڑھ رہی ہے اور اگلے سال سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانی نظام میں تبدیلیاں متوقع ہیں۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف نے سینیٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) امتحانی نظام میں اصلاحات کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اے پی پی کے مطابق وزیر قانون نے بتایا تھا کہ اصلاحات کا عمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی نگرانی میں جاری ہے جس کی سربراہی وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق کمیٹی نے ملک بھر کے اہم سٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل کر لی ہے اور اب اپنی حتمی سفارشات پیش کرنے کے قریب ہے، جو سی ایس ایس امتحانات کے نظام کو جدید اور منصفانہ بنانے میں مرکزی کردار ادا کریں گی۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مقابلے کے امتحانات بیوروکریسی کی تشکیل اور اچھی حکمرانی کے لیے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک منظم اور باصلاحیت سول سروس کے لیے امتحانی نظام میں بہتری ناگزیر ہے۔

انھوں نے ملک کے تعلیمی نظام میں پائے جانے والے تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف روایتی میٹرک سسٹم ہے اور دوسری جانب کیمبرج او اور اے لیول۔ کیمبرج سسٹم کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان نے سی ایس ایس سمیت دیگر شعبوں جیسے میڈیکل اور انجینئرنگ میں بھی مواقع کی غیر مساوی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ حکومت کا ہدف یہ ہے کہ ’تمام امیدواروں کے لیے مساوی میدان فراہم کیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری ذمہ داری ہے کہ ملک بھر میں ایک منصفانہ، معیاری اور ہم آہنگ امتحانی نظام نافذ کریں۔‘

سی ایس ایس ریفارمز کہاں تک پہنچے، اس حوالے سے سیدہ نوشین افتخار کا کہنا تھا کہ ان پر کام جاری ہے۔

سوشل میڈیا پر اس قرارداد کے حوالے سے رائے منقسم ہے۔

چمن سندھو نامی صارف نے لکھا کہ یہ فیصلہ منصفانہ اور شفاف امتحانی نظام کو یقینی بنائے گا۔

ایک سول سرونٹ نے تبصرہ کیا کہ سی ایس ایس کے لیے عمر کی حد بڑھانا اور امتحان کے لیے پانچ مواقع کی اجازت دینے کا مطلب ہے کہ ’ایک امیدوار اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال صرف اسی امتحان کی تیاری میں لگا دے گا بجائے اس کے کہ وہ اپنی محنت کسی اور بہتر کام کرنے میں استعمال کرے۔‘

کئی صارفین کا ماننا ہے کہ سی ایس ایس کو اصلاحات، شفافیت اور میرٹ کی ضرورت ہے، قراردادوں کی نہیں۔

اسی حوالے سے ایک صارف نے لکھا ’سی ایس ایس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

’بنیادی مسئلہ سول سروسز ریفارمز کا ہے۔جنرسلٹ کی جگہ سپیشلائزڈ بیوروکریسی کی ضرورت ہے۔ عمر بڑھانے کی بجائے لیٹرل انٹری کی ضرورت ہے اور سب سے اہم ریٹینشن پالیسی ہے۔‘

مگر کچھ سوشل میڈیا صارفین کا ماننا ہے سی ایس ایس نظام ہی ختم کرنا چاہیے۔ اسی حوالے سے ایک صارف نے لکھا ’انگریز انڈیا کے غلاموں پہ اپنے افسروں کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ اور پچھلے 77 سالوں سے ہم بڑے اہتمام سے اپنے اوپر چھوٹے انگریز مسلط کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ اس کی بجائے بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔‘

نادیہ نامی صارف نے لکھا کہ لوگوں کو اوپن میرٹ پر ڈگری کی بنیاد پر یہی نوکری دیں جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے ’دوہرا نظام‘ ملک میں ایک بڑی طبقاتی تقسیم پیدا کر چکا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.