کرناٹک کی دو خواتین افسران کے درمیان لڑائی سوشل میڈیا پر وائرل: ’سندھوری نے غلط اعدادوشمار بتا کر وزیر اعظم مودی سے ایوارڈ وصول کیا‘

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ باسواراج بومئی کے مشورے کے بعد چیف سیکریٹری وندیتا شرما نے دونوں خواتین افسران کو قواعد و ضوابط کے بارے میں بتایا ہے۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانا آل انڈیا سروس رولز کے خلاف ہے۔

انڈیا کی ریاست کرناٹک کی سیاست آج کل دو ہائی پروفائل افسران کی آپسی جنگ کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ ان دونوں افسروں کے درمیان جھگڑے نے کرناٹک کی نوکر شاہی کو شرمسار اور سیاسی قیادت کوحیران کر دیا ہے۔

دراصل، ایک خاتون آئی پی ایس افسر نے خاتون آئی اے ایس افسر پر کچھ ذاتی اور کچھ کام سے متعلق الزامات لگائے ہیں۔

ذاتی الزامات میں تین یا چار مرد افسران کے ساتھ تصاویر شیئر کرنے جیسا ’نا مناسب رویہ‘ شامل ہے۔

آئی پی ایس آفیسر ڈی روپا مودگل نے ماضی میں کچھ ایسے راز افشا کیے تھے جس کی وجہ سے ان کے اس وقت کے باس کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔

تازہ ترین کیس میں انھوں نے آئی اے ایس افسر روہنی سندھوری پر الزام لگایا ہے۔ سنہ 2015 میں منڈیا ضلع میں ضلع پنچایت کے سی ای او ہوتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے سندھوری کو ایک سال میں ایک لاکھ بیت الخلا بنانے کا ایوارڈ دیا تھا۔

آئی پی ایس روپا مودگل کا دعویٰ ہے کہ روہنی سندھوری نے ایک لاکھ بیت الخلا کے اعداد و شمار غلط بتائے تھے۔

مودگل فی الحال کرناٹک ہینڈی کرافٹس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ سندھوری ہندو مذہبی ادارے اور چیریٹیبل انڈومنٹ ڈیپارٹمنٹ کی کمشنر ہیں۔

بیوروکریٹک پریشانیاں

اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے جواب میں، سندھوری نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ وہ ایک مناسب پلیٹ فارم پر جواب دیں گی اور فی الحال وہ چاہتی ہیں کہ مودگل ’جلدی ہی صحت یاب‘ ہو جائیں۔

بی بی سی ہندی کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک بیان میں سندھوری لکھتی ہیں، ’ذہنی بیماری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا علاج ادویات اور مشاورت کے ذریعے ہونا چاہیے‘۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ ارگا گیانندر نے بھی اس معاملے پر بیان دیا ہے۔ انھوں نے صحافیوں سے کہا کہ ’یہ افسران اپنی ذاتی لڑائی کو اس طرح عام نہیں کر سکتے۔ یہ کرناٹک کی پوری نوکر شاہی کی توہین ہے۔ میں نے چیف سیکریٹری سے بات کی ہے اور ان سے فوری کارروائی کرنے کو کہا ہے‘۔

دریں اثنا مودگل نے روہنی سندھوری کے خلاف اپنے 19 الزامات کی ایک فہرست ایک خط کے ذریعے چیف سیکریٹری اور محکمہ عملہ اور انتظامی اصلاحات کے سکریٹری کو بھیجی ہے۔

دوسری جانب سندھوری کے شوہر سدھیر ریڈی نے روپا مودگل کے خلاف ہیکنگ اور اپنی بیوی کی تصاویر کے غلط استعمال کرنے کی شکایت پولیس سٹیشن میں درج کرائی ہے۔

ریڈی کہتے ہیں، ’ان تمام مسائل کو اٹھانے والی روپا کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ اگر سندھوری نے کچھ تصاویر بھیجی ہیں تو کس کو؟ اور یہ تین اہلکار کون ہیں جنھیں یہ تصاویر موصول ہوئی ہیں‘۔

سینئر بیوروکریٹس اس جھگڑے پر تبصرہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ باسواراج بومئی کے مشورے کے بعد چیف سیکریٹری وندیتا شرما نے دونوں خواتین افسران کو قواعد و ضوابط کے بارے میں بتایا ہے۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانا آل انڈیا سروس رولز کے خلاف ہے۔

یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟

یہ سارا معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سندھوری اور جے ڈی ایس ایم ایل اے ایس آر مہیش کی ایک ریستوراں میں لی گئی تصویریں منظر عام پر آئیں۔ وہاں ایک سینیئر آئی اے ایس افسر بھی موجود تھے۔

یہ تصویریں خاص ہیں کیونکہ ایم ایل اے مہیش نے سندھوری پر اپنی رہائش گاہ پر اس وقت سوئمنگ پول بنانے کا الزام لگایا تھا جب وہ میسور کی ڈپٹی کمشنر تھیں۔ دوسری طرف ایم ایل اے پر سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا بھی الزام تھا۔

تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے مودگل نے پوچھا کہ کیا یہ ملاقات مفاہمت کے تحت تھی؟ اگر انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت میں فیصلہ لیا تھا تو افسر وہاں کیوں موجود تھیں؟

مودگل نے سندھوری پر منڈیا اور ہاسن اضلاع میں اپنی سروس کے دوران بے ضابطگیوں کا الزام بھی لگایا ہے۔ مودگل نے لکی علی کے والد کامیڈین محمود علی کی زمین کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ سندھوری کے شوہر سدھیر ریڈی بغیر کسی اجازت کے اس اراضی کا سروے کر رہے تھے۔ سندھوری پر اس معاملے میں اپنے شوہر کی رئیل اسٹیٹ کمپنی کی مدد کرنے کا الزام ہے۔

مختصر یہ کہ مودگل کے چیف سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں الزامات کی فہرست کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ تصویروں کا اشتراک ذاتی معاملہ نہیں ہے۔

مودگل نے کورونا کے دوران میسور سے چامراج نگر جنرل ہسپتال کو آکسیجن کی فراہمی کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔ اس وقت سندھوری میسور کی ڈپٹی کمشنر تھیں۔تب تقریباً 24 لوگ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرے تھے۔

روہنی سندھوری نے الزامات پر کیا کہا؟

سنہ 2015 میں منڈیا ضلع میں ضلع پنچایت کے سی ای او ہوتے ہوئے، سندھوری کو ایک سال میں ایک لاکھ بیت الخلا بنانے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔

اپنے خلاف الزامات کا جواب دیتے ہوئے سندھوری نے کہا: ’روپا میرے خلاف ایک جھوٹی، ذاتی طور پر بہتان تراشی کی مہم چلا رہی ہے جو ان کا معمول کا طریقہ کار ہے۔ انھوں نے اپنی ہر پوسٹنگ میں ایسا ہی کیا ہے۔ وہ ہمیشہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کا پروفائل اس کا ثبوت ہے۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی کو نشانہ بناتی رہتی ہیں سرکاری کام کرنے کی بجائے یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے‘۔

تصاویر شیئر کیے جانے کے الزام پر سندھوری کا کہنا ہے کہ ’یہ تصاویر نہیں ہیں، یہ سکرین شاٹس ہیں، یہ سوشل میڈیا سے لیے گئے ہیں، ان کا استعمال مجھے غلط طریقے سے بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کیا مودگل بتا سکتی ہیں کہ میں نے تصاویر کہاں شیئر کی ہیں تب ہی اس کی تصدیق ہو سکتی ہے‘۔

سندھوری نے کہا ہے کہ وہ آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت قانونی کارروائی کے علاوہ مناسب حکام کے سامنے اپنا مؤقف بھی پیش کریں گی۔

انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدگل نہ تو میری سینیئر ہیں اور نہ ہی میری باس، انھوں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ سروس کنڈکٹ رولز کی خلاف ورزی ہے‘۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.