اسلام آباد: ’تفتیشی افسر نے والدہ سے کہا کہ اپنے ہاتھ سے درخواست لکھیں ورنہ بیٹے کی لاش نہیں ملے گی‘

اس واقعے کے بعد ثنا کا الزام ہے کہ پولیس نے ناصرف تفتیش میں کوتاہی کی بلکہ ان سے غلط بیانی بھی کی گئی اور ملزم کو ضمانت کروانے کا موقع فراہم کیا جبکہ اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ کے اندراج اور تفتیش میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی گئی۔

’پولیس والوں کا رویہ دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُن کی نظر میں انسان کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔‘

ثنا بابر ایک مقامی کالج میں او لیول کی طالبہ ہیں۔ ان کے بھائی، سلمان بابر، اسلام آباد میں تعیلم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کال سینٹر بھی چلاتے تھے۔

ثنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نو فروری کو سلمان اکبر اپنا کام مکمل کرنے کے بعد موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ رات ڈیڑھ بجے کے قریب اسلام آباد میں تھانہ کوہسار کی حدود میں واقع کوہسار روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی نے اُن کو ٹکر ماری جس سے سلمان بابر موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

اس واقعے کے بعد ثنا کا الزام ہے کہ پولیس نے ناصرف تفتیش میں کوتاہی کی بلکہ ان سے غلط بیانی بھی کی گئی اور ملزم کو ضمانت کروانے کا موقع فراہم کیا جبکہ اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ کے اندراج اور تفتیش میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ اس واقعے کی مختصر سی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک بائیک والے کو چلتی گاڑی کے ساتھگھسٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

’بھائی کی لاش وصول کرنے کے لیے شدید اذیت سے گزرنا پڑا‘

ثنا بابر کا دعویٰ ہے کہ وقوعہ ہونے کے تقریبا 24 گھنٹے بعد پولیس والوں نے ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ ثمینہ بابر سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ تھانہ کوہسار آ جائیں کیونکہ اُن کے بیٹے کی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت ہو گئی ہے۔

ثنا بابر نے الزام عائد کیا کہ جب وہ اپنی والدہ کو لے کر متعلقہ تھانے پہنچیں تو پولیس نے چار گھنٹے تک ان کو وہیں بٹھائے رکھا اور اُن کے بیٹے کی شناخت کروانے کے لیے ہسپتال کے مردہ خانے میں بھی نہیں لے جایا گیا۔

اس مقدمے کی مدعی اور سلمان بابر کی والدہ ثمینہ بابر کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے تفتیشی افسر بضد تھے کہ جب تک وہ درخواست نہیں دیں گی، اس وقت تک ان کی اس معاملے میں معاونت نہیں کی جائے گی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنے ہاتھ سے درخواست نہیں لکھیں گی تو بیٹے کی لاش نہیں ملے گی۔‘

ثنا بابر کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کی لاش لینے کے لیے اُن کی والدہ نے کانپتے ہاتھوں سے درخواست لکھ کر پولیس والوں کو دی جس کے بعد پولیس نے سلمان بابر کی لاش اُن کے حوالے کی۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس والوں کا رویہ دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کی نظر میں انسان کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔‘

ثنا بابر کے بقول ایک ہفتے انتظار کرنے کے بعد انھوں نے جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھایا کہ کس طرح انھیں اپنی بھائی کی لاش تک وصول کرنے کے شدید اذیت سے گزرنا پڑا اور لوگوں نے اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تو پولیس متحرک ہوئی اور تفتیشی افسر نے ناصرف اس گاڑی کے مالک کا سراغ لگایا بلکہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کا بھی سراغ لگا لیا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمالہ طارق کے بیٹے پر مقدمہ: ’لواحقین نے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد فی سبیل اللہ معاف کیا‘

بحریہ ٹاؤن: حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت، ’میری زندگی کے 45 منٹ جنھیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی‘

پاکستان میں ٹریفک قوانین کی وہ 7 خلاف ورزیاں جو بہت عام ہیں

’پولیس نے ملزم کو ضمانت قبل از وقت گرفتاری کا موقع فراہم کیا‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس افسر نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث ملزم ایک سیاسی رہنما کا رشتہ دار ہے تاہم اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تھانہ کوہسار میں درج ہونے والے مقدمے میں پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 لگائی ہے جو کہ قتل عمد سے متعلق ہے اور اگر مقتول کے ورثا راضی ہوں تو دیت کے قانون کے تحت ملزم بری ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس مقدمے میں بے احتیاطی کے ساتھ گاڑی چلانے کی دفعات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق ملزم نے اس مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے اور ملزم 28 فروری کو دوبارہ متعقلہ عدالت میں پیش ہو گا۔

ثنا بابر نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے جانتے بوجھتے ملزم کو جائے حادثہ سے فرار ہونے اور متعقلہ عدالت سے ضمانت قبل از وقت گرفتاری کا موقع فراہم کیا۔

انھوں نے کہا کہ ابتدا میں اس مقدمے کے تفتیشی افسر نے انھیں بتایا کہ جب یہ حادثہ ہوا تو اس وقت ملزم خود زخمی سلمان بابر کو اپنی گاڑی میں ڈال کر طبی امداد کے لیے ہسپال پہنچایا۔

لیکن ان کے مطابق جب اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اٹھایا گیا تب پولیس نے جائے حادثہ کے قریب گھروں کے باہر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیجز حاصل کیں۔

انھوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوا کہ ملزم جائے واقعہ سے فرار ہو گیا تھا اور ان کے بھائی کو وہاں پر موجود سکیورٹی گارڈز نے ہسپتال پہنچایا۔

’کسی کو رعایت نہیں دی جائے گے‘

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی عمر 24-25 سال کے قریب ہے اور وہ اس مقدمے میں شامل تفتیش ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے پاس پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس ہے جو انھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے سنہ 2021 میں بنوایا تھا۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان جواد تقی کا کہنا ہے کہ پولیس اس معاملے کی میرٹ پر تفتیش کرر ہی ہے اور کسی کو بھی اس معاملے میں رعایت نہیں دی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ پہلے اس واقعہ کا مقدمہ نامعلوم شخص کے خلاف درج کیا گیا تھا لیکن بعد میں پولیس نے تفتیش کے دوران ناصرف جائے حادثہ سے سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کیں بلکہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی سے معلومات حاصل کر کے ملزم کا سراغ لگایا۔

انھوں نے کہا کہ پولیس اس معاملے پر بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں ملزم کی اس حادثے میں ہلاک ہونے والے سلمان بابر کے ساتھ کوئی ذاتی رنجش تو نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ اگر اس بارے میں کوئی ایسے شواہد مل گئے تو پھر یقینی طور پر مقدمے میں قتل کی دفعات بھی درج کی جائیں گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.