’میں نے ابو کا نام لکھا تھا‘: لیگ سپنر عثمان قادر کا جشن منانے کا منفرد انداز

کرکٹ کی دنیا میں گیند باز ہمیشہ سے ہی وکٹ لینے کے بعد جشن منانے کے انداز کو منفرد سے منفرد بنانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔

کرکٹ کی دنیا میں بولرز ہمیشہ سے ہی وکٹ لینے کے بعد جشن منانے کے انداز کو منفرد سے منفرد بنانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔

حسن علی کا ’جنریٹر‘ جشن ہو یا پھر شعیب اختر کا وکٹ گرانے کے بعد بانہیں پھیلائے طیارے کے انداز میں بھاگنے کا انداز، بریٹ لی کی فلائنگ کِک ہو یا پھر عمران طاہر کا جوشیلا انداز۔۔۔ بولرز نے وکٹ لینے کی خوشی کو اپنے اپنے انداز میں منفرد بنایا۔

تاہم سوموار کی رات جب پاکستان سپر لیگ کے نویں میچ میں لیگ سپنر عثمان قادر نے جیسن رائے کی وکٹ حاصل کرنے کے بعد اپنا ہاتھ مخصوص انداز میں ہوا میں لہرایا تو پہلے تو دیکھنے والے سمجھ نہیں پائے کہ اُن کا مطلب کیا تھا۔

یہ میچ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے درمیان کراچی میں کھیلا جا رہا تھا جس میں پشاور زلمی نے پہلے ٹاس جیت کر کوئٹہ کو بیٹنگ کی دعوت دی جس کے بعد مارٹن گپٹل اور جیسن رائے اوپننگ کے لیے میدان میں آئے۔

نیوزی لیںڈ کے جارحانہ اوپنر مارٹن گپٹل چھٹے اوور کی آخری گیند پر اپنے ہی ہم وطن جمی نیشم کی بال پر کیچ آؤٹ ہوئے تو پشاور زلمی کے کپتان بابر اعظم نے گیند عثمان قادر کو تھما دی۔

عثمان قادر، جو پاکستان کے سابق لیگ سپنر عبد القادر کے بیٹے ہیں، نے نپا تلا اوور کرایا تاہم ان کے اوور کی آخری گیند نے صارفین کو عبد القادر کی یاد دلا دی۔

عثمان قادر کے سامنے جارحانہ بلے باز جیسن رائے کھڑے تھے۔ عثمان نے گیند کروائی تو یہ آف سٹمپ سے باہر پڑی جس پر جیسن رائے نے اسے سویپ کرنے کی کوشش کی۔

لیکن یہ ایک گوگلی تھی جس نے اندر آ کر جیسن رائے کو کلین بولڈ کر دیا۔

پاکستان
Getty Images

عثمان قادر نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور انگلی سے ہوا میں بظاہر کچھ لکھا جو پہلی نظر میں ناقابل فہم بھی تھا اور حیران کُن بھی۔

اسی لیے بعد میں کمنٹیٹر بازید خان نے ان سے دوران میچ ہی سوال کیا کہ ’آپ نے وکٹ لینے کے بعد کیسے جشن منایا کیوںکہ ہمیں سمجھ نہیں لگی؟‘

اس پر عثمان قادر نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے ابو کا نام لکھا ہے، اے کیو (یعنی عبد القادر)۔‘

عثمان قادر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا انداز نہیں تھا بلکہ ان کو اچانک سے یہ خیال آیا جس پر انھوں نے اپنے والد کے نام کا نشان بنایا۔

29 سالہ عثمان قادر کا بولنگ ایکشن بھی اپنے والد سے کافی حد تک ملتا ہے جن کی گوگلی کو پراسرار مانا جاتا تھا۔

عبدالقادر کا شمار پاکستان ہی نہیں دنیا کے چند بہترین لیگ سپنرز میں ہوتا تھا۔ آسٹریلوی شہرہ آفاق لیگ سپنر شین وارن بھی عبدالقادر کے زبردست مداح تھے اور 1994 میں پاکستان کے دورے میں انھوں نے عبدالقادر کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی تھی اور ان سے لیگ سپن کے گُر سیکھے تھے۔

عبدالقادر نے 67 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور 236 وکٹیں حاصل کیں۔

عبدالقادر نے رائٹ آرم لیگ سپن کو ایک فن کا درجہ دے دیا تھا جو ستر کے عشرے میں معدوم ہو چکی تھی۔ وہ لیگ سپن میں ایک ایسی جارحیت لے آئے تھے جو بیٹسمینوں کو حواس باختگی پر مجبور کر دیتی تھی۔

تاہم عثمان قادر پاکستان سپر لیگ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود اب تک پاکستان کی ٹیم میں اپنی مستقل جگہ نہیں بنا پائے۔

گذشتہ رات کے میچ میں بھی عثمان نے بہترین بولنگ کی اور چار اوور میں صرف 26 رن دے کر دو وکٹیں حاصل کیں اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 154 رن تک محدود کر دیا۔

کوئٹہ کی جانب سے افتخار احمد اور اوڈین سمتھ نے جارحانہ کھیل کھیلا اور مجموعی سکور کو کسی حد تک بہتر بنایا۔

تاہم پشاور زلمی کی بیٹنگ شروع ہوئی تو محمد حسنین نے بھی بہترین گیند بازی کی اور 67 کے سکور پر چار ٹاپ بلے باز پولین لوٹ چکے تھے جن میں محمد حارث، صائم ایوب اور بابر اعظم بھی شامل تھے۔

لیکن جیمز نیشم اور روومان پاول نے بہترین شراکت سے پشاور کو سہارا دیا اور زلمی نے 19ویں اوور میں ہدف کو حاصل کر لیا۔

سوشل میڈیا پر تبصرے

عثمان قادر کی جانب سے جیسن رائے کو جتنی ذہانت سے آوٹ کیا گیا، اس کے بعد ان کے جشن کے انداز نے اس وکٹ کو چار چاند لگا دیے۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین اور شائقین نے کُھل کر ان کو داد دی۔

ایک جانب جہاں عبد القادر کو یاد کیا گیا تو وہیں چند صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عثمان قادر کو ٹیسٹ ٹیم کا باقاعدہ حصہ بنانا چاہیے۔

احمر نجیب ستی نے ٹوئڑ پر لکھا کہ ’جب وہ درست ردھم میں ہوتے ہیں تو عثمان قادر کو بولنگ کرتے دیکھنا ایک نہایت اچھا تجربہ ہوتا ہے کیوں کہ وہ بہترین لیگ سپنر ہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’جیسن رائے کی وکٹ لینے کے لیے ان کا سیٹ اپ بہت جرات مندانہ تھا۔‘

احمر نے لکھا کہ ’وکٹ کے لیے گوگلی کروانے سے قبل عثمان قادر نے یکے بعد دیگرے روایتی لیگ سپن کروائی۔‘

https://twitter.com/AhmerNajeeb/status/1627680623702818816

دوسری جانب عمر نامی صارف نے لکھا کہ ’عثمان قادر اس وقت ملک کے بہترین سپنر ہیں۔‘

تاہم انھوں نے لکھا کہ ’اگر عثمان قادر اپنی بیٹنگ کسی حد تک بہتر بنا لیں تو ان کو ٹیسٹ ٹیم کا مستقل حصہ بنایا جا سکتا ہے۔‘

عمر نے لکھا کہ ’ان کو ٹیم میں نہ رکھنے کی وجہ بھی یہی تھی۔‘

تاہم عمر نے لکھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ میرا بیان جانب دارانہ ہو کیوں کہ مجھے لیگ سپنرز سے پیار ہے۔‘

واضح رہے کہ عثمان قادر نے ایڈیلیڈ میں کلب کرکٹ کھیلی لیکن والد کے کہنے پر انھیں پاکستان واپس آنا پڑا۔

تاہم 2019 میں عثمان قادر قومی ٹیم میں شامل نہ ہو سکنے کے باعث آسٹریلیا منتقل ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔

اس وقت خود عبدالقادر نے بھی کہا تھا کہ پاکستانی کرکٹ کے نظام میں موجود انتظامی مسائل کے سبب عثمان قادر کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.