کیا گوتم اڈانی کے 100 ارب ڈالر کے نقصان سے انڈیا کا ’گرین انرجی‘ خواب ادھورا رہ سکتا ہے؟

اڈانی کی حالیہ پریشانیوں نے اس بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ مشکلات کہیں انڈیا کے توانائی کے بڑھتے ہوئے عزائم کے لیے ایک دھچکہ تو نہیں۔ ان کے گروپ میں شامل کمپنیوں کو اپنی مارکیٹ مالیت میں تقریباً 120 ارب امریکی ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گوتم اڈانی
AFP

دو سال قبل انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کو ’گرین انرجی‘ کا عظیم مرکز بنانے کے لیے کئی بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے سنہ 2070 تک انڈیا میں کاربن اخراج کو صفر کرنے کا عہد کیا تھا یعنی انڈیا ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں اضافہ نہیں کرے گا۔ (انڈیا فی الوقت کاربن گیس کے اخراج کے معاملے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے)۔

مودی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ انڈیا سنہ 2030 تک اپنی نصف توانائی قابل تجدید وسائل سے حاصل کرے گا اور اسی سال تک متوقع کاربن کے اخراج کو ایک ارب ٹن تک کم کر دے گا۔

انڈیا کے ایک تاجر جو نریندر مودی کے گرین انرجی کے منصوبوں کا اہم ترین حصہ ہیں وہگوتم اڈانی ہیں اور وہ ایشیا کی سب سے امیر شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔

گوتم اڈانی عوامی سطح پر تجارت کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بندرگاہوں سے لے کر توانائی کے شعبے تک ایک وسیع گروپ چلاتے ہیں، جس میں اڈانی گرین انرجی نامی ایک قابل تجدید توانائی والی کمپنی بھی ہے۔

اڈانی گرین انرجی میں 70 ارب امریکی ڈالر خرچ کرنے اور 2030 تک عالمی سطح پر قابل تجدید کھلاڑی بننے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس خطیر رقم کی ہائبرڈ قابل تجدید بجلی کی پیداوار، بیٹریاں اور شمسی پینل بنانے اور ہوا سے توانائی پیدا کرنے اور گرین ہائیڈروجن کے استعمال پر خرچ ہونے کی امید ہے۔

لیکن اڈانی کی حالیہ پریشانیوں نے اس بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ مشکلات کہیں انڈیا کے توانائی کے بڑھتے ہوئے عزائم کے لیے ایک دھچکہ تو نہیں۔ ان کے گروپ میں شامل کمپنیوں کو اپنی مارکیٹ مالیت میں تقریباً 120 ارب امریکی ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ نقصان اس وقت شروع ہوا جب امریکہ میں قائم انویسٹمینٹ فرم ہندنبرگ ریسرچ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس پر کئی دہائیوں سے سٹاک میں ’دیدہ دلیری‘ کے ساتھ ہیرا پھیری کرنے اور اکاؤنٹنگ فراڈ کا الزام لگایا گیا۔

اڈانی گروپ نے ان الزامات کو ’بدنیتی پر مبنی‘ اور ’جھوٹا‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’انڈیا پر حملہ‘ قرار دیا۔

اڈانی گروپ
Reuters

سرمایہ کاروں کے پریشان ہونے کا پہلا اشارہ فرانس کے تیل اور گیس کے ایک گروپ ’ٹوٹل انرجیز‘ کی جانب سے آیا، جس نے اڈانی گروپ کے ساتھ گرین ہائیڈروجن پراجیکٹ میں چار ارب امریکی ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری کو اس وقت تک روک دیا ہے جب تک صورتحال پر مزید ’وضاحت‘ نہ سامنے آ جائے (ٹوٹل گروپ نے پہلے ہی اڈانی گروپ کے ساتھ توانائی کے منصوبوں میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔)

سرمایہ کاروں کو مطمئن کرنے کے لیے اڈانی گروپ نے کہا ہے کہ اس کی کمپنیوں کو ’مٹیریل ری فنانسنگ کے خطرے یا قریب المدت لیکویڈیٹی مسائل‘ کا سامنا نہیں۔

اڈانی گروپ کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اڈانی پورٹ فولیو میں توانائی کی منتقلی کے منصوبوں میں تبدیلی کی توقع نہیں کرتے۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کے کلائمٹ منصوبوں پر حالیہ پیشرفت کے اثرات کا تعین کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس کی وبھوتی گارگ کا کہنا ہے کہ ’اڈانی گروپ گرین انرجی کے میدان کا ایک بڑا کھلاڑی ہے۔ کچھ تازہ سرمایہ کاری میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اگر وہ مزید سرمایہ جمع نہیں کر پاتے تو اس کا گرین انرجی کی سرمایہ کاری پر کچھ اثر پڑے گا جس کی اس نے پہلے منصوبہ بندی کی تھی لیکن قابل تجدید توانائی کی رفتار جاری رہے گی۔‘

آنے والی دہائیوں میں انڈیا کی توانائی کی منتقلی دنیا میں سب سے بڑی ہو گی۔ 1.4 ارب لوگوں کی آبادی والے ملک کو اب بھی آبادی کے ایک بڑے حصے کو بجلی کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔

انڈیا ہر سال اپنی شہری آبادی میں لندن کے سائز کے شہر کا اضافہ کرتا ہے۔ صنعتی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ اسے گرمی کی لہروں جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا ہے اور الیکٹریکل گاڑیوں کی طرف بڑھنے سے بجلی کی طلب میں مزید اضافہ ہو گا۔

کاربن اخراج
Getty Images
انڈیا کاربن اخراج کے معاملے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں اگر بجلی کے ریگولیٹر یہ کہتے ہیں کہ اگلے پانچ سال میں طلب دوگنی ہو جائے گی۔

انڈیا دنیا میں کوئلہ پیدا کرنے اور استعمال کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پیدا ہونے والی بجلی کا تین چوتھائی حصہ کوئلے کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے اور انڈیا اب بھی تھرمل پلانٹس بنا رہا ہے۔ پھر بھی منصوبہ یہ ہے کہ زیادہ تر اضافی صلاحیت قابل تجدید ذرائع سے آئے گی اور سنہ 2070 تک پوری طرح سے صفر اخراج تک پہنچنے کے لیے، بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق انڈیا کو اب اور 2030 کے درمیان ہر سال 160 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ رقم آج کی سرمایہ کاری کی سطح سے تین گنا زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کی پانچ امیر شخصیات میں شامل گوتم اڈانی، جو مصیبت اور موت کو چکمہ دینے کا ہنر بھی جانتے ہیں

انڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل گوتم اڈانی کا وزیراعظم مودی سے کیا تعلق ہے؟

اڈانی گروپ کے علاوہ گرین انرجی کے شعبے کے دوسرے بڑے کھلاڑی امبانی ہیں۔ انڈیا کی سب سے بڑی فرم ریلائنس گروپ کے مکیش امبانی نے مغربی ریاست گجرات میں قابل تجدید بجلی کے منصوبوں پر 80 ارب ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

توانائی کی بڑی کمپنی ٹاٹا گروپ بھی اپنے صاف توانائی کے کام کو بحال کر رہا ہے۔ اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی ناقابل تسخیر توانائی کی طلب کو مزید بہت سے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے۔

دلی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے اشونی کے سوین کہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے توانائی کی اتنی زیادہ مانگ کو پورا کرنا ہے تو ہمیں بہت سے نجی کھلاڑیوں کی ضرورت ہوگی، کچھ بڑے اور بہت سے چھوٹے گروپس۔‘

ان کا خیال ہے کہ گھریلو گرین انرجی کے کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ’ہم نصف درجن چھوٹے کھلاڑیوں اور غیر متناسب طور پر بہت بڑے ایک دو کھلاڑیوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔‘

گوتم اڈانی
Getty Images

آسٹریلیا میں مقیم کلائمیٹ انرجی فائنانس کے ٹم بکلی کا کہنا ہے کہ اسی لیے اڈانی گروپ کی مشکلات درحقیقت دیگر قابل تجدید توانائی کے کھلاڑیوں کے لیے ایک موقع بن سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اسے ’گھریلو اور دیگر قومی کھلاڑیوں کے لیے‘ بڑے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ’وہ اپنے گھریلو ہنر اور صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، عالمی سرمائے کی رسائی کو بڑھانے اور انڈیا میں قابل تجدید ذرائع اور گرڈ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘

انڈیا کی صاف اور آلودہ توانائی کی کل پیداواری صلاحیت 400 گیگاواٹ ہے جبکہ اس کا منصوبہ ہے کہ صرف سنہ 2030 تک صاف توانائی میں وہ 500 گیگا واٹ کا اضافہ کرے۔

یہ ایک دلیرانہ خواہش ہے۔ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب تک کوئلے اور تیل پر انحصار کرنے والے ملک میں اس پیمانے کی منتقلی آسان نہیں ہو گی۔

مسٹر سوائیں کا خیال ہے کہ انڈیا کو کوئلے کی صلاحیت کو بڑھانا بند کر دینا چاہیے اور اس کی بجائے زیادہ صاف ذرائع سے اپنی کچھ نئی مانگ کو پورا کرنا چاہیے۔

مثال کے طور پر انڈیا کی بجلی کی طلب کا پانچواں حصہ اس کے وسیع کھیتوں کو سیراب کرنے کی جانب سے آتا ہے۔

کھیتوں کو دن کے وقت شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرنا ہر ایک کو خوش کر سکتا ہے۔

وبھوتی گارگ کہتی ہیں کہ قابل تجدید توانائی کے میدان میں انڈیا کی پیشرفت قابل ذکر ہے۔ ’اس میں کچھ تاخیر اور سست روی ہو سکتی ہے لیکن ان سے قابل تجدید توانائی کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.