ماہل بلوچ: انسداد دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمہ درج، اہلخانہ کی خودکش جیکٹ برآمد ہونے اور دیگر الزامات کی تردید

سی ٹی ڈی کے مطابق ماہل بلوچ کو ایک پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا اور ان سے خود کش جیکٹ بھی برآمد کی گئی تاہم اس کے برعکس ماہل کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں کسی پارک سے نہیں بلکہ چار دیگر افراد سمیت گھر سے حراست میں لیا گیا۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے دہشتگردی کے الزام میں گرفتار خاتون ماہل بلوچ کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ان کا کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے پاس سے خود کش جیکٹ کی برآمدگی کے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔

لیکن دوسری جانب سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ ماہل بلوچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ سے ہے اور انھوں نے مبینہ طور پر کوئٹہ میں خود کش حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق ماہل بلوچ کو سیٹلائیٹ ٹاﺅن کے علاقے میں ایک پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا اور ان سے ایک خود کش جیکٹ بھی برآمد کی گئی، جس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ تاہم اس کے برعکس ماہل کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں کسی پارک سے نہیں بلکہ چار دیگر افراد سمیت گھر سے حراست میں لیا گیا۔

ادھر بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ دنوں سے تھریٹس تھیں کہ خود کش بمبار آئے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں تاہم ماہل بلوچ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں وہ اپنی صفائی پیش کریں گی۔

وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ کالعدم تنظیمیں خواتین کو استعمال نہ کریں۔

سی ٹی ڈی کا مؤقف

ماہل بلوچ کے خلاف ایف آئی آر انسداد دہشت گردی کی مختلف دفعات کے تحت سی ٹی ڈی تھانہ کوئٹہ میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی عبدالجبار کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق ’مخبر خاص نے 17 فروری کی شب آٹھ بج کر دس منٹ پر اطلاع دی کہ مبینہ طور پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے پاس بیگ میں ایک خود کش جیکٹ ہے، جو اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر حساس مقام کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ وہ کچھ دیر میں کوئٹہ روڈ نزد لیڈیز پارک سیٹلائیٹ ٹاﺅن آئیں گی۔‘

اس اطلاع پر سی ٹی ڈی کی ٹیم 8 بج کر 20 منٹ پر تھانے سے روانہ ہوئی اور جب 9 بج کر 5 منٹ پر کوئٹہ روڈ نزد لیڈیز پارک پہنچی تو لیڈیز پارک کے شمال مغرب کی جانب روڈ کے ساتھ ایک خاتون کو مشکوک حالت میں موجود پایا، جن کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا لیپ ٹاپ کا بیگ تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق ’مخبر خاص کی نشاندہی پر خاتون کو قابو کر کے ان سے بیگ لے لیا گیا۔ دریافت پر خاتون نے اپنا نام ماہل زوجہ بیبگر بلوچ بتایا۔ تلاشی پر خاتون سے شناختی کارڈ اور پندرہ سو روپے بھی برآمد ہوئے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ چیک کرنے پر بیگ سے ایک سیاہ رنگ کی تیار خودکش جیکٹ برآمد ہوئی، جسے بم ڈسپوزل سکواڈ کی ٹیم نے ناکارہ بنایا، جس کا وزن بال بیرنگ کے ساتھتین کلو 820 گرام تھا۔

ماہل بلوچ کون ہیں؟

ماہل بلوچ کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گومازی سے ہے اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابی ہیں اور بی بی گل کی طرح وہ بھی کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور حقوق انسانی کی پامالیوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔

بی بی گل بلوچ کا کہنا تھا کہ ماہل بلوچ کی عمر27 سال ہے اور انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2015 میں گومازی میں ان کے رشتہ داروں کی گرفتاری کے لیے سکیورٹی فورسز نے چھاپہ مارا تو وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔

ان کا الزام ہے کہ ’نہ صرف ہمارے گھروں کو گولے مار کر گرا دیا گیا بلکہ ان کو نذر آتش بھی کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ گھر کو نذر آتش کرنے کے علاوہ وہاں ہر وقت چھاپوں کے باعث ماہل اور دیگر خواتین کے لیے رہنا ممکن نہیں تھا جس کے باعث وہ کوئٹہ منتقل ہوئیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’ماہل بلوچ کو پارک کے قریب سے نہیں بلکہ ان سمیت پانچ افراد کو گھر سے حراست میں لیا گیا۔‘

بی بی گل بلوچ نے سی ٹی ڈی سمیت دیگر حکام کی ماہل بلوچ کی لیڈیز پارک سیٹلائیٹ ٹاﺅن کے قریب سے گرفتاری کے دعوے کومسترد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ماہل بلوچ ، ان کی دو کمسن بچیوں کے علاوہ میری والدہ اور میری ایک اور بھتیجیکو سیٹلائیٹ ٹاﺅن میں گھر سے گرفتار کیا گیا۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’سکیورٹی فورسز کے اہلکار سیٹلائیٹ ٹاﺅن میں گھر آئے اور وہاں مین گیٹ پر پہلے چوکیدار کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگلے روز صبح دس بجے میری والدہ ، بھتیجی اور ماہل کی دو کمسن بچیوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ ماہل کو نہیں چھوڑا گیا۔

’میری والدہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں ایک ویرانے میں چھوڑ دیا گیا۔ وہ وہاں سے جس شاہراہ پر پہنچے تو وہ قمبرانی روڈ تھا‘۔

بی بی گل بلوچ کا اصرار ہے کہ ماہل کی سیٹلائیٹ ٹاﺅن میں لیڈیز پارک سے گرفتاری اور ان سے خود کش جیکٹ کی برآمدگی کے دعووں میں کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی ان کا کالعدم عسکریت پسند تنظیم بی ایل ایف سے کوئی تعلق ہے۔

دوسری جانب کالعدم بی ایل ایف کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں ماہل بلوچ کے تنظیم سے تعلق کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر رد عمل

ماہل بلوچ کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ، کراچی اور تربت میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ٹوئٹر پر ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اپنی ایک ٹویٹ میں ماہل بلوچ کی گرفتاری کو ’جبر، ظلم اور بربریت‘ قرار دیا ہے۔

سماجی کارکن سمی دن بلوچ کا کہنا ہے ’چند سال سے بلوچ خواتین کا اغوا اور ان پر اپنی مرضی کے سنگین و ناجائز الزام لگا کرتشدد کی فضا کو ہوا دینے کی کوشش کی جاری ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’ان کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا‘

’دھرنا دیا تو سب کو جیل میں ڈال دوں گا‘ لیفٹینینٹ جنرل آصف غفور سے منسوب متنازع بیان کی حقیقت کیا؟

بلوچ عسکریت پسند کمانڈر گلزار امام کی گرفتاری کیا اہم پیشرفت ہے؟

’ماہل کے شوہر کا تعلق بی ایل ایف سے تھا، جو آپریشن میں مارے گئے‘

جب ماہل بلوچ کی گرفتاری کے حوالے سے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کو امن دینا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ دنوں سے تھریٹس تھے کہ خود کش بمبار آئے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

’ان تھریٹس کے بعد اداروں کو کہا گیا کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور تباہی کو روکیں۔ خدانخواستہ یہ خودکش حملہ بچوں پر بھی ہو سکتا تھا۔ عام عوام پر ہو سکتا تھا یا سکیورٹی فورسز پر ہو سکتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں آپ نے دیکھا کہ ’شاری بلوچ نے خود کش حملہ کیا۔‘

وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ’خواتین ہماری مائیں اور بہنیں ہیں۔ ہم بھی بلوچ اور مسلمان ہیں۔ ہمارا بھی دل نہیں چاہتا کہ خواتین کو گرفتار کریں لیکن قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اگر کوئی مرد قانون کو توڑے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی اور اگر کوئی خاتون قانون توڑے گی تو اس کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ’سرکار کو کہا جاتا ہے کہ خواتین کو نہیں پکڑیں تو اسی طرح کالعدم تنظیموں کو بھی کہا جائے کہ وہ بھی خواتین کو استعمال نہ کریں۔ ان کے خلاف بھی ہڑتال کی جائے اور سڑکوں پر نکلا جائے۔‘

میر ضیا للہ لانگو نے کہا کہ ماہل کے خلاف کیس عدالت میں پیش کیا جائے گا اور ان کو اپنی صفائی اور دفاع کا پورا پورا حق دیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح کسی ملزم کو اپنی صفائی کے لیے بنیادی سہولیات حاصل ہوتی ہیں وہی سہولیات اس کیس میں ماہل بلوچ کو حاصل ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ماہل کے شوہر کا تعلق کالعدم بی ایل ایف سے تھا اور وہ کسی آپریشن میں مارے گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ فیملی ریکارڈ کو دیکھ کر یا جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اگر حکومت اور اس کے اداروں کو ایسی خبرملتی ہے کہ کسی سے شہریوں کو خطرہ ہے تو وہ اس کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت تھریٹس پر کوئی کارروائی نہیں کرے گی اور خدانخواستہ کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے تو پھر حکومت پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی کہ حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو کام کرنے دیا جائے۔زیادتی کسی سے نہیں ہوگی، سب کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.