ایف نائن ریپ کیس: مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان کے ورثا کا تحقیقات کرانے کا مطالبہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف نائن پارک میں خاتون کے ساتھ ریپ کے دو مبینہ ملزمان کو پولیس مقابلے میں ہلاکت سے متعلق تھانہ گولڑہ پولیس کے سربراہ کو ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف نائن پارک میں خاتون کے ساتھ ریپ کے دو مبینہ ملزمان کی پولیس مقابلے میں ہلاکت سے متعلق تھانہ گولڑہ پولیس کے سربراہ کو ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاورق نے یہ احکامات پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان نواب خان اور اقبال خان کے ورثا کے وکلا کی طرف سے اس پولیس مقابلے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیے۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل قاضی عادل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ مجسٹریٹ کے پاس گئے ہیں؟ اگر ہم تھوڑے قاعدے قانون کو فالو کر لیں تو اچھا ہے۔‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہم ڈیڈ باڈی کے حصول کے لیے کس کو درخواست دیں؟ جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مجھے بتائیں کہ ہائی کورٹ کے پاس جوڈیشل کمیشن بنانے کا کون سا اختیار ہے؟‘

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ’معاملہ یہ ہے کہ اصل داد رسی کوئی بھی نہیں چاہ رہا۔‘

انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے اپنے مؤکل کو مشورہ دیا کہ مجسٹریٹ کے پاس جائیں؟

’آپ تھانے تو جائیں اور مجسٹریٹ کے پاس تو جائیں اور اگر وہاں سے ریلیف نہ ملے تو ہائی کورٹ آ جائیں۔‘

ایف نائن پارک
Getty Images
ریپ کا واقعے ایف نائن پارک میں پیش آیا تھا

پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کا مؤقف ہے کہ پولیس نے ان دونوں ملزمان کو 15 فروری کو گرفتار کیا تھا اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان دونوں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے انھیں ’جعلی پولیس مقابلے‘ میں ہلاک کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ پولیس کی جانب سے گذشتہ جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان ملزمان نے سیکٹر ڈی 12 میں پولیس کے ناکے پر موجود اہلکاروں پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ سے دونوں ملزمان مارے گئے۔

پولیس کے بیان میں کہا گیا تھا کہ بدھ کی شب ناکے پر گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی تھی کہ وہاں موٹرسائیکل پر پہنچنے والے مسلح ملزمان نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جوابی فائرنگ سے دونوں ملزمان شدید زخمی ہوئے اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہلاک شدگان کی شناخت کر لی گئی ہے اور وہ وہ ایف نائن ریپ کیس کے علاوہ سٹریٹ کرائم سمیت سنگین جرائم کی وارداتوں میں بھی مطلوب تھے۔

اس واقعے سے متعلق درخواست کی پیروی کرنے والے وکلا پینل میں شامل ایمان زینب مزاری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ’پولیس نے اس واقعہ میں ملوث دونوں ملزمان نواب خان اور اقبال خان کو پندرہ فروری کو حراست میں لیا تھا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’گرفتاری کے بعد ملزمان کو آئی نائن میں واقعہ سی آئی اے سینٹر لے جایا گیا اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار متاثرہ خاتونکو لے کر اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں پر اس واقعہ میں ملوث ملزمان کو رکھا گیا تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’متاثرہ خاتون نے ان دونوں ملزمان کو شناخت کر لیا۔ متاثرہ خاتون کی موجودگی میں ہی ان دونوں ملزمان نے نہ صرف اعترافِ جرم کیا بلکہ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس واقعہ سے پہلے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں پچاس کے قریب خواتین کے ساتھ ریپ کر چکے ہیں۔‘

ایمان زینب مزاری نے دعویٰ کیا کہ ’ان دونوں ملزمان کے خلاف راولپنڈی اور ٹیکسلا کے متعدد تھانوں میں مقدمات درج ہیں اور ان ملزمان کا کریمینل ریکارڈ تھانہ مارگلہ کے پاس بھی موجود ہے جس کی حدود میں ایف نائن پارک واقعہ رونما ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملزمان کی شناخت کے بعد پولیس متاثرہ خاتون کو وہاں سے لے گئی۔‘

اگلے روز یعنی 16 فروری کو ملزمان کے ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے کی خبر سامنے آئی۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان سے جب ان دعوؤں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اس لیے وہ فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اور پولیس کی جانب سے تفصیلی جواب عدالت میں دیا جائے گا۔

ایمان مزاری نے اس واقعہ سے متعلق ہومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کو بھی ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد پولیس نے اس مقدمے کو اپنی منطقی انجام تک پہنچانے میں بڑی جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور واقعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے پولیس مقابلے کی پہلے سے ہی پلاننگ کر رکھی تھی۔‘

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے حالات میں پولیس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔‘

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان کی میتیں پوس مارٹم مکمل ہونے کے بعد ان کے ورثا کے حوالے کر دی گئی تھیں اور انھوں نے 17 فروری کی شب کو ان کی اسلام آباد میں تدفین کر دی تھی۔‘

دوسری جانب انسانی حقوق کی وزارت سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایف نائن پارک کے واقعہ اور اس میں ملوث ملزمان کی ’مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت‘ سے متعلق اسلام آباد پولیس کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے اسلام آباد پولیس کے حکام سے کہا ہے کہ ’وہ اس واقعہ سے متعلق ایسی رپورٹ پیش کریں جو حقائق پر مبنی ہو۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.