’بھائی کی سہمی ہوئی آواز آئی کہ سب باہر نکلو، پہاڑ کھسک رہا ہے، ہمارا مکان ٹوٹ رہا ہے‘

گھر دھنسنے کے واقعات صرف ٹھاٹھری میں نہیں، بلکہ پڑوسی ضلع رام بن کی کچھ بستیوں میں بھی رونما ہوئے ہیں۔
فِضا بانو
BBC
فِضا بانو

فِضا بانو کے بھائی خالد نجیب کی شادی مارچ میں طے تھی۔ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ٹھاٹھری میں دریائے چناب کے کنارے ایک پہاڑی پر آباد نئی بستی میں اپنی پانچ بہنوں اور والدہ کے ہمراہ 30 سال سے رہتے ہیں۔

فِضا کہتی ہیں کہ ایک دن بھائی کی شادی کی شاپنگ کے بعد وہ باقی بہنوں کے ساتھ سامان سنبھال رہی تھیں کہ خالد نے چھت سے سہمی ہوئی آواز میں کہا ’سب باہر نکلو، پہاڑ کھسک رہا ہے، ہمارا مکان بھی ٹوٹ رہا ہے۔‘

پھر جس کے ہاتھ جو سامان لگا اس نے وہ اُٹھایا اور چند منٹوں میں نئی بستی کے دیگر 80 مکانوں کی طرح فضا بانوکا گھر بھی خالی ہو گیا۔

اس وقت یہاں کے مکانوں میں چاروں طرف سے دراڑیں ہیں اور چھتیں بھی ٹوٹ چکی ہیں۔

کشمیر
BBC

30 سال بعد ایک اور ہجرت

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے چند سال بعد ڈوڈہ کے دُور دراز علاقوں میں بھی مسلح تشدد کی کارروائیاں ہونے لگی تھیں اور سرکاری فورسز کی انسدادی کاروائیاں بھی ہو رہی تھیں۔

اسی دوران ان علاقوں سے سینکڑوں لوگوں نے امن کی تلاش میں ہجرت کی اور ٹھاٹری کی نئی بستی اسی ہجرت کے نتیجے میں بسی۔

خالد نجیب کہتے ہیں کہ ’میرے والد پولیس میں عارضی اہلکار تھے، برسوں بعد مستقل ہوئے۔ ہم یہاں آئے تو پہلے ایک منزل کا مکان بنایا، پھر کئی سال بعد دوسری منزل اور اب تیسری منزل بنا چکے تھے۔‘

’بینک اور لوگوں سے قرضے لے لے کر یہ گھر بن چکا تھا، میرے والد نے ہجرت کی اور ہم نئی بستی میں ہی پلے بڑے، لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک اور ہجرت کرنا پڑے گی۔‘

خالد
BBC
خالد

خالد کی دو بہنوں کی شادی ہو چکی ہے، لیکن باقی تین بہنوں اور ماں کے ہمراہ وہ اب ایک نزدیکی بستی میں کرایہ کے عوض دو کمروں میں گزارہ کر رہے ہیں۔

’لڑکی والوں نے کہا تھا کہ لڑکی کے والدین کو حج پر جانا ہے اس لیے اُس سے پہلے ہی شادی ہو گی۔ ہم سب اسی کام میں مصروف تھے۔ ٹائلیں خریدی تھیں، رنگ خریدا تھا، بہنیں بھی خوش تھیں۔ اب گھر ہی ختم ہو گیا تو وہ سارے خواب بھی اسی کے ساتھ ختم ہو گئے۔‘

خالد شاک میں ضرور ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک نیا سفر شروع کرنے کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔

’میری بھی پڑھائی ادھوری ہے، تینوں بہنوں کی پڑھائی اور ان کی شادی کا بھی مسئلہ ہے۔ گھر کھونے سے میں بہت ڈپریس ہوں، لیکن اللہ نے چاہا تو میں ایک بار پھر کسی محفوظ جگہ پر گھر بناؤں گا۔‘

’سڑک پر بھی رہنا پڑے، پڑھائی نہیں چھوڑوں گی‘

15 سالہ فضا بانو نویں جماعت میں ہیں اور سکول کے پانچ بہترین طالب علموں میں شامل ہیں۔

کشمیر
BBC

انھیں بہت دُکھ ہے کہ وہ ایک خوشحال گھر سے محروم ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اتنی کھلبلی مچی اُس دن، میں اپنی ساری کتابیں بھی نہیں اُٹھا سکی۔ ہمارے بھائی ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔ فی الحال ہم کرایہ پر رہتے ہیں، لیکن اگر سڑک پر بھی رہنا پڑے تو میں پڑھائی کبھی نہیں چھوڑوں گی۔‘

تحصیل انتظامیہ نے ایک مقامی سکول میں متاثرین کی عارضی رہائش کا انتظام کیا تھا، تاہم مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے نجی طور پر کرایہ کے گھروں میں شفٹ کیا ہے۔ لیکن ضلع انتظامیہ نے یقین دلایا ہے کہ کرایہ حکومت ادا کرے گی۔

زمین کیوں دھنسی؟

ڈوڈہ
BBC
ڈوڈہ

ٹھاٹھری کے تحصیلدار ساحِل رندھاوا کہتے ہیں کہ نئی دلی سے جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کی ٹیم نے علاقے کا معائنہ کیا ہے اور ان کی رپورٹ اگلے ماہ تیار ہو گی۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے اور متاثرین کے لئے عارضی رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے ڈوڈہ ضلع ہمالیائی سلسلے کی مغربی پٹی پر کئی پہاڑوں پر آباد ہے۔ تاہم ڈوڈہ سے ٹھاٹھری تک 30 کلومیٹر مسافت والی سڑک پر کام گزشتہ برس سے شروع ہوا ہے۔

چند مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ زمین دھنسنے کی ایک وجہ یہی سڑک ہو سکتی ہے۔

کشمیر
BBC

نئی بستی کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’سڑک بنانے کے لیے پہاڑوں کی بے تحاشا کٹائی کی گئی۔ جب سڑک پر راک کٹر (بڑی چٹانوں کو توڑنے کا آلہ) چلتا تھا تو زمین ہلتی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں کوئی ماہر نہیں ہوں، لیکن یہ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر پہاڑوں کی کٹائی ہوگی تو نتیجہ یہی ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہمالیہ کا وہ قصبہ جو آہستہ آہستہ زمین میں دھنستا جا رہا ہے

’بزرگ کی کرامت‘ یا زمین کی ساخت: نوشہرہ کی ’پختہ مسجد‘ جو زمین میں دھنس رہی ہے

کروشیا: یورپی دیہات میں اچانک پانی کے بڑے بڑے درجنوں گڑھے نمودار، ماہرین پریشان

خطرے کی گھنٹی؟

گھر دھنسنے کے واقعات صرف ٹھاٹھری میں نہیں، بلکہ پڑوسی ضلع رام بن کی کچھ بستیوں میں بھی رونما ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے کشمیر کو انڈیا کے ساتھ ملانے والے واحد راستے ’سرینگر۔جموں ہائی وے‘ پر سفر کو آسان بنانے کی غرض سے حکومت نے کئی منصوبے ایک ساتھ شروع کیے ہیں۔

ان میں کئی سُرنگیں اور ایشیا کا سب سے اونچے ریلوے پُل کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ 9 کلومیٹر مسافت کی ناشری۔چنانی ٹنل پر ٹریفک چل رہا ہے اور اس کی بدولت 12 گھنٹے کا سفر سات گھنٹوں تک سمٹ گیا ہے۔

اس حوالے سے لوگ خوش بھی ہیں، لیکن رام بن اور ڈوڈہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ’جموں اور کشمیر پہلے ہی زلزلوں سے متعلق زون چار اور زون پانچ میں ہیں۔ پہاڑوں کی توڑ پھوڑ کہیں کوئی بڑی آفت نہ لے آئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو یقین دلانا چاہیے کہ یہ سب ماہرین کی رائے سے ہو رہا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.