پوتن کے 56 کلومیٹر طویل فوجی قافلے کی ناکامی کی کہانی: انتہائی رازداری کی حکمت عملی جو بڑی کمزروی ثابت ہوئی

اس معاملے پر اتنی رازداری برتی گئی کہ روسی فوج کے کئی جرنیل بھی اس سے ناواقف رہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے دو روز بعد سٹیلائیٹ پر نظر آنے والا یہ 56 کلومیٹر طویل قافلہ موضوع بحث تھا مگراتنی بڑی فوج کیئو پہنچنے میں کیوں ناکام رہی اور حقیقت میں ہوا کیا؟

گذشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے تین دن بعد ایک سیٹلائٹ نے بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل 15.5 کلومیٹر طویل ایک قافلہ زمین پر چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُسی صبح یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے شمال میں واقع بوچا شہر میں 67 سالہ ولودیمیر شربینین اپنی مقامی سپر مارکیٹ کے باہر کھڑے تھے جب ایک سو سے زیادہ روسی فوجی گاڑیاں شہر میں داخل ہوئیں۔

شہری ولودیمیر اور خلا میں موجود سیٹلائٹ دونوں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اس منصوبے کے آغاز کے عینی شاہد تھے جس کا مقصد یوکرینی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔

48 گھنٹے بعد یعنی 29 فروری 2022 کو یہ قافلہ 56 کلومیٹر لمبا ہو گیا تھا۔ لیکن فوری فتح حاصل کرنے کے بجائے اسے ہفتوں تک روک دیا گیا۔ پھر بظاہر راتوں رات یہ غائب ہو گیا۔ مگر ہوا کيا؟ اور اتنی بڑی فوج کیئو تک پہنچنے میں کیوں ناکام رہی؟

بی بی سی کی ایک ٹیم نے درجنوں عینی شاہدین سے بات کی ہے جن میں فوجی اہلکار، قومی اور بین الاقوامی انٹیلیجنس سروسز، سویلین اور سابق فوجی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سبھی کسی نہ کسی طرح قافلے کے رابطے میں آئے تھے۔ بی بی سی کی ٹیم کو روسی نقشوں اور دستاویزات تک بھی رسائی حاصل ہوئی جو ظاہر کرتے ہیں کہ قافلے کا اصل میں منصوبہ کیا تھا اور یہ اتنی بُری طرح سے ناکام کیوں ہوا۔

اس کہانی کا حقیقی آغاز شمال میں واقعے بیلاروس کے ساتھ یوکرین کی سرحد سے ہوتا ہے۔

یوکرین کی 80ویں ایئر اسالٹ بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ ولادیسلاؤ دن کا پہلا سگریٹ پینے کے لیے باہر نکلے تو انھیں آسمان پر تیز روشنیاں نظر آئیں۔

’مجھے یاد ہے کہ میں نے پورے جنگل سے روشنیوں کو ابھرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پہلے مجھے لگا کہ وہ کسی کار کی ہیڈ لائٹس ہیں۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ گریڈ (خود کار میزائل) تھے۔ وہ ہم پر فائرنگ کر رہے تھے۔‘

چرنوبل مخصوص زون کے جنگل کے اندر کیمپ لگائے ہوئے ولادیسلاؤ کا یونٹ گشت پر تھا روسی گاڑیاں کا قافلہ یوکرین میں داخل ہوا۔

’پوری زمین کانپ رہی تھی۔ کیا آپ کبھی ٹینک کے اندر بیٹھے ہیں؟ اس طرح کی کوئی اور آواز نہیں ہے۔ یہ نہایت زوردار تھی۔‘

جیسا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں منصوبہ بندی کی گئی تھی، ولادیسلاؤ اور باقی 80ویں بریگیڈ نے چرنوبل کو اگلے بڑے شہر ایوانکیئو سے ملانے والے پُل کو دھماکے سے اڑا دیا۔

یوں روسی فوجیوں کو متبادل عارضی پل بنانے میں وقت لگتا اور ولادیسلاؤ اور ان کے یونٹ کو کیئو جانے کا وقت مل جاتا۔

’پہلے تو مجھے حیرت ہوئی، ہم نے انھیں چرنوبل میں کیوں نہیں روکا؟ لیکن ہمیں اپنے دشمن کے بارے میں جاننے کی ضرورت تھی۔ تو ہم نے یہی کیا۔‘

یوکرینی بیلاروس کی سرحد کے قریب فائرنگ کرنے اور ایک اور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کی ترجیح لائن آف فائر میں اپنی فوجیں بھیجنے سے پہلے روس کے جنگی منصوبے کو سمجھنا تھا۔

پوتن کا ماسٹر پلان

یوکرین کی مسلح افواج کے مطابق اور اس وقت کی بہت سی میڈیا رپورٹس کے برعکس 35 میل (56 کلومیٹر) لمبا یہ کالم (فوجی قافلہ) دراصل دس مختلف روسی ٹیکٹیکل بٹالین یونٹس پر مشتمل تھا۔

بی بی سی کو دکھائی گئی ایک روسی دستاویز میں اس حملے کا ٹائم ٹیبل دکھایا گیا ہے۔ 24 فروری کو صبح کے چار بجے پہلی بٹالین کے یوکرین میں داخل ہونے کے بعد ان کے احکامات تھے کہ وہ سہ پہر کے 2 بجکر 55 منٹ تک کیئو پہنچ جائیں۔

اس حملے کی کامیابی کا انحصار دو عناصر پر تھا: رازداری اور رفتار۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (آر یو ایس آئی) کے مطابق دارالحکومت پر حملے کی منصوبہ بندی کو پوشیدہ رکھتے ہوئے روسی فوج کا کیئو کے شمال میں تعینات یوکرینی افواج کے مقابلے میں تناسب بارہ اور ایک ہو سکتا تھا۔

تاہم پوتن کو رازداری کی قیمت چکانا پڑی۔ اس منصوبے کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ ان کے زیادہ تر کمانڈروں کو بھی حملے سے 24 گھنٹے پہلے تک احکامات موصول نہیں ہوئے تھے۔

حکمت عملی کے نقطۂ نظر سے یہ ایک کمزوری تھی۔

ان کے پاس خوراک، ایندھن اور نقشوں کی کمی تھی۔ ان کے پاس مواصلات کے مناسب آلات نہیں تھے۔ ان کے پاس گولہ بارود نا کافی تھا۔ یہاں تک کہ وہ سردیوں کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

غلط ٹائروں اور برف سے گھرے روسی سیدھے کیچڑ میں چلے گئے۔ ایوانکیئو کے قریبی شہریوں کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے یوکرین کے کسانوں سے کہا ہے کہ وہ ان کے ٹینکوں کو کیچڑ سے نکالنے میں مدد کریں۔

روسی گاڑیوں کو نرم زمین سے بچنے کے لیے پکی سڑکوں کا استعمال کرنے کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے ہزاروں افراد کو ایک ہی کالم میں جمع ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

لیکن بٹالین کے درمیان محدود مواصلات کی وجہ سے وہ تقریباً فوری طور پر ٹریفک جام کی صورت میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔

جیسا کہ زمین پر موجود ایک عسکری ماہر نے کہا، ’آپ کبھی بھی ایک لمبی قطار کی صورت میں قافلے میں دشمن کے علاقے میں نہیں چلتے۔ کبھی نہیں۔‘

عینی شاہدین اور یوکرینی فوج کی انٹیلیجنس کی بنیاد پر ہم 24 فروری سے اواخرِ مارچ تک قافلے کی نقل و حرکت کا نقشہ بنانے میں کامیاب رہے۔ چونکہ اس نے کھیتوں میں سفر کرنے سے گریز کیا لہٰذا یہ کیئو کے شمال میں زیادہ تر اہم سڑکوں پر ختم ہوا۔

بی بی سی ریسرچ کا تیار کردہ نقشہ
BBC

جس وقت اس فوجی قافلے کی لمبائی 56 کلومیٹر طویل ہوئی تو اس میں ایک ہزار ٹینک، 24 سو میکنائزڈ انفنٹری کی گاڑیاں اور دس ہزار فوجی شامل تھے۔ اس کے علاوہ درجنوں ٹرک خوراک، ایندھن، تیل اور گولہ بارود سے لدے ہوئے تھے۔

ایک متحدہ مزاحمت

کیئو کے شمال میں پھنسے اور خوراک اور ایندھن کی کمی کے شکار روسیوں کو اپنے دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔

تین دن سے ولودیمیر شربینین اور ان کے ساتھی رضاکار، جن میں اکثریت ریٹائرڈ افراد کی تھی، اپنے آبائی قصبے بوچا میں قافلے کی آمد کی تیاری کر رہے تھے۔

ایک مشین گن سے لیس تقریباً 12 مقامی لوگوں نے سڑک کے تمام نشانات کو ہٹا کر چیک پوائنٹس بنائے اور سینکڑوں پٹرول بم تیار کیے۔

آخر کار اتوار کی صبح روسی ٹینک شہر میں داخل ہو گئے۔

ولودیمیر اور ان کے بہت ہی بنیادی یونٹ نے تقریباً تیس منٹ تک ٹینکوں کو نشانہ بنایا۔

ولودیمیر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے دو گاڑیوں کو آگ لگا دی اور پورے قافلے کی رفتار سست کر دی۔‘

لیکن اس کے بعد جوابی کارروائی ہوئی۔

تیس سالہ میکسم شکوروپر نے بتایا کہ ’جب انھوں نے ہمیں بوتل بم پھینکتے دیکھا تو انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ میں ایک بارمین تھا۔ میرے پاس کوئی فوجی تربیت نہیں تھی۔‘

اس آدھے گھنٹے کے اختتام تک ولودیمیر کے تمام ساتھی گولیوں سے زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ چکے تھے۔

لیکنیہاں اس مشکل محاذ پر ولودیمیر نے لڑائی جاری رکھی اور قافلے پر نظریں جمائے رکھی۔

لائن کی دوسری طرف پر ارپین کے 23 برس کے مقامی ڈپٹی گورنر رومن پوہوریلائل تھے۔

ان کے مطابق ہم تین دن تک سو نہیں سکے۔ میں اور میرا دوست کونسل آفس میں ہاٹ لائن کی نگرانی کرتے رہے۔

فوجی دستوں اور تخریب کاروں سے متعلق کالز وصول کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔

دن کے وقت ایک کونسلر کے روپ میں کام کرنے والے رومن رات کو اوپن سورس انٹیلیجنس کے ماہر بھی ہیں۔ انتہائی معتبر ویب سائٹ ڈیپ سٹیٹ کے شریک بانی کے طور پر وہ سوشل میڈیا اور انٹیلیجنس رپورٹس کو اکٹھا کرتے ہیں۔ انھیں جغرافیائی طور پر تلاش کرتے ہیں اور پھر انھیں اپنی ویب سائٹ پر دوبارہ پوسٹ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق کیئو کے رستے میں روسی سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کر رہے تھے۔ ایسے میں ہم ان کی ویڈیوز کو دوبارہ پوسٹ کر کے ان کی نقل و حرکت سے متعلق تمام معلومات عام کر دیتے تھے۔

وہ محض دکھاوے کے لیے یہ سب کر رہے تھے مگر اس سے خود ہی وہ بے نقاب ہو گئے تھے۔

رومن کے مطابق کیئو پر روسی حملے کے بعد جو اہم چیز تھی وہ متحدہ یوکرین کا احساس کا اجاگر ہونا تھا۔

ہر کوئی کچھ نہ کچھ کر رہا تھا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ابتدائی چند دن بہت تھکا دینے والے تھے۔ مگر ایسے میں سویلین کی بہت اہم مدد بھی ہمارے ساتھ تھی۔ ہر کوئی اپنے شہر کے دفاع کے لیے نکل آیا تھا۔

کیئو کے خطے میں ہر قصبے اور گاؤں میں قافلے کے خلاف سینکڑوں حملے کیے گئے۔ ان میں گھریلو ہتھیاروں سے لیس شہریوں سے لے کر مشینی پیدل فوج اور توپ خانے تک سب شامل تھے۔

فرسودہ حربے

یوکرینیوں کے بالکل برعکس روسی افواج نے زمینی صورتحال کے پیش نظر اہم فیصلے لینے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا۔

80ویں بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے ولادیسلاؤ کا کہنا ہے کہ ’روسی تمام بڑے ’دھاتی بکسوں‘ کو لے کر جا رہے تھے جن پر 'خفیہ' نشان لگا ہوا تھا۔ ان کے مطابق ’ہم نے موقع پا کر ایک حملے میں ایسے ایک باکس کو قابو کر لیا۔ ہمیں ان کے نشان زدہ نقشوں کے ذریعے ان کے پورے روٹ کے بارے میں علم ہو گیا اور یوں ہمیں ان کی پوری حکمت عملی سمجھ آ گئی۔‘

پوتن کی رازداری کا مطلب یہ تھا کہ زمین پر موجود روسی کمانڈروں کو وسیع جنگی منصوبے کا کوئی احساس نہیں تھا۔

ان کے ’نیویگیشن ٹُولز‘ بھی بہت پرانے تھے۔ حملے کے بعد کے ایک سال میں بی بی سی نے روسی فوجیوں کے پیچھے چھوڑے گئے نقشوں کی کھوج لگانا جاری رکھی ہوئی ہے جو 1960 اور 70 کی دہائی کے ہیں۔ ایسے پورے پورے شہر آباد ہیں جو سرے سے روسی فوجیوں کے نقشے پر موجود ہی نہیں تھے اور وہ ان نقشوں کو ’نیوی گیشن‘ کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ ہمیں ’سیمافور فلیگز‘ بھی ملے، جو مختلف فوجی ’یونٹس‘ کے درمیان بات چیت کرنے کا ایک بہت پرانا طریقہ ہے۔

یوکرائنی مزاحمت کا ایک کامیاب حربہ روسی قافلے کے رستے میں آنے والے پُلوں اور ڈیموں کو اُڑا دینا تھا، اس طرح روسیوں کو دوبارہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ پُرانے نقشوں پر انحصار کرتے ہوئے اور اپنی اعلیٰ کمان تک محدود مواصلات کے ساتھ روسی یونٹس اکثر فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ جاتے۔

کئی سیٹلائٹ تصاویر میں روسی گاڑیاں حقیقی معنوں میں گول دائروں میں چکر کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔

قبضہ

یوکرین کے فضائی حملوں اور توپ خانے کے دباؤ میں روسی قافلے کو بالآخر کیئو کے شہر کی حدود سے بالکل باہر رکنا پڑ گیا۔ رکے ہوئے فوجیوں کے قریب رہنے والے ہزاروں شہریوں کے لیے یہ تجربہ ہولناک تھا۔

ولادیسلاؤ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہر جگہ سے سب کچھ لوٹ لیا۔ انھوں نے دکانیں خالی کرا دیں۔ انھوں نے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا۔‘

کیئو کے شمال اور مغرب میں بہت سے دیہاتوں اور قصبوں میں جو کچھ ہوا اس کی اب بھی بین الاقوامی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمینل کورٹ) سمیت متعدد حکام جنگی جرائم کے ثبوت تلاش کر رہے ہیں۔

ولادیسلاؤ کا کہنا ہے کہ جب میں ایک چوکی پر تھا، لوگوں کی قطاروں کے پیچھے سے روسی افواج نے ہم پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ شہری لڑائی کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ یہ خوفناک تھا۔

چار طویل ہفتوں کے بعد بالآخر روسیوں نے انخلا شروع کر دیا۔

باقی سب سے بڑی بٹالین میں سے دو کو ہوسٹومِل ایئرپورٹ کے قریب شکست ہوئی۔ مزید 370 خیمے والے فوجی ٹرک جو بظاہر ایک مقامی گاؤں میں رہ گئے تھے توپ خانے کے ذریعے تباہ کر دیے گئے۔

یوکرین کی فوج انھیں 19 مارچ تک پیچھے دھکیلتی رہی، جس کے بعد روسی مکمل طور پر کیئو اوبلاست کے مقام سے پیچھے ہٹ گئے۔

کیئو پر نئے سرے سے روسی حملوں کی قیاس آرائیوں کے باوجود ماہرین کی اکثریت متفق ہے کہ ایسے حملوں کا امکان نہیں ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے بیلاروس کی سرحد پر روسی فوجیوں کی بڑے پیمانے پر تعیناتی نہیں دیکھی ہے۔

روس دونباس کے مشرقی صنعتی مرکز میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور جنوب میں کھیرسن، میلیتوپل اور زاپوریژیا علاقوں کی سمت میں حملے کر رہا ہے۔

لیکن شمال میں اب بھی سرحد کے قریب جاسوسی ڈرون کے ذریعے دیکھ رہے ہیں، جہاں انھوں نے یوکرین کے شہریوں کو بھرتی کیا ہوا ہے۔

ولادیسلاؤ کا کہنا ہے کہ ’میں چرنوبل کی وہ رات ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ جب میں اپنے دوست کے ساتھ باہر سگریٹ پینے گیا تھا۔ لیکن جب میں نے سگریٹ ختم کیا تب تک جنگ شروع ہو چکی تھی۔‘

’میرے دوست اور میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ ہم شفٹ پر جائیں گے، جیسا کہ ہم نے اس دن کیا تھا، اور جب ہم ایک اور سگریٹ پیئں گے تو ہم سنیں گے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ اور یہ کہ ہم جیت گئے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.