’پلیز ہمیں گرفتار کرو نا‘: تحریک انصاف کی جیل بھرو مہم کے پہلے دن کا احوال

جیل بھرو تحریک کا حصہ بننے کے لیے آئی خواتین بھی خاصی پُرجوش نظر آ رہی تھیں۔ میرے پاس کھڑی چند خواتین نے آتے ہی فوٹوسیشن کروایا اور ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ایک کارکن کے ہاتھ سے غلیل پکڑی اور کہا کہ یہ مجھے دکھاؤ میں نے تصویر بنوانی ہے۔
PTI
BBC

’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جو بھی کارکنان قیدیوں کی وین میں بیٹھنا چاہتے ہیں وہ جا کر بیٹھ جائیں قیدیوں والی وین کھلی ہے۔‘ یہ وہ اعلان تھا جو لاہور پولیس کی جانب سے جیل بھرو تحریک کے مجمعے میں کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کا آغاز گذشتہ روز لاہور سے ہوا جس میں پنجاب پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے کل81 افراد نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی ہے، جنھیں کوٹ لکپھت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

تاہم گرفتار ہونے والے رہنماؤں اور کارکنان کو جب جیل لے جایا گیا تو کچھ ہی دیر بعد تحریک انصاف کے لوگوں کی جانب سے پہلی شکایت یہ سامنے آئی کہ رہنماؤں کے لیے کھانا اور ادویات جیل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

کل کے دن میں یہ تحریک انصاف کی طرف سے کی جانے والی واحد شکایت نہیں تھی۔

تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کی کوریج کے لیے جب میں صبح گیارہ بجے لاہور کی مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچی تو وہاں سٹیج بنا ہوا تھا اور دو درجن افراد وہاں موجود تھے جبکہ ایک شخص نے اپنی گاڑی کی چھت پر علامتی جیل کا کمرہ بنا رکھا تھا، جس میں اس نے اپنے آپ کو قید کیا ہوا تھا۔

مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے سب سے پہلی شکایت انھوں نے یہ کی اور کہنے لگے کہ ہم گرفتاری دینا چاہتے ہیں لیکن ہمیں گرفتار نہیں کیا جارہا ہے۔ ہم پولیس والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں پکڑ لیں۔ میں نے استفسار کیا کہ آخر آپ گرفتاری کیوں دینا چاہتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ ’میں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے لیے جان بھی دینی پڑے تو میں وہ بھی دینے کو تیار ہوں۔‘

اس کے بعد آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے کارکنان ٹولیوں کی صورت میں آتے رہے۔ پولیس والے بھی وہاں موجود تھے۔

کچھ دیر بعد قیدیوں والی گاڑیاں پہنچنا شروع ہو گئیں۔ اسی دوران کچھ پولیس والے ہاتھ میں کاغذ تھامے گھومتے پھرتے ہوئے معلومات اکھٹی کرتے نظر آئے۔

میں نے پاس کھڑے ایک صحافی سے پوچھا کہ پولیس کا کیا ارادہ لگ رہا ہے؟ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے نزدیک کھڑے تحریک انصاف کے ایک کارکن نے کہا کہ ’نام نوٹ کر رہے ہیں ہمارے لیکن گرفتار نہیں کریں گے‘۔

PTI's court arrest movement
BBC

آغاز میں گرفتاری کی درخواست پر پولیس والے مسکرا دیتے

کچھ دیر مزید گزرنے کے بعد سیف سٹی کی کیمرہ وین بھی وہاں پہنچ گئی۔ اس سے پہلے یہ وین ایسے موقع پر استعمال ہوتے نہیں دیکھی گئی۔ تاہم اس وین کے آنے سے ایک بات واضع ہو گئی کہ جیل بھرو تحریک کا حصہ بننے والوں کی شناخت کا کام کیمروں کی مدد سے لیا جائے گا، جس کے بعد باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

دن دو بجے تحریک انصاف کی قیادت گرفتاری والی جگہ پر پہنچنا شروع ہو گئی۔ ان کے پہنچتے ہی سٹیج سے تقریروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

موجودہ حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے رہنما بار بار کہتے رہے کہ ’ہمیں گرفتار کر لو‘۔ لیکن دوپہر کے ساڑھے تین تک اس جگہ کا ماحول خاصہ خوشگوار تھا۔

پولیس اہلکار اور تحریک انصاف کے کارکنان ایک دوسرے کے اچھا وقت گزارتے دکھائی دے رہے تھے۔ آتے جاتے کوئی کارکن کہہ دیتا تھا کہ ’ہمیں گرفتار کریں نا‘ اور آگے سے پولیس والے مسکرا دیتے۔

PTI
BBC

فوٹو سیشن: ’جلدی جلدی میری ویڈیو بناؤ میں نے خان صاحب کو بھیجنی ہے‘

PTI
BBC

تاہم صبح سے لے کر شام تک پی ٹی آئی کا تقریباً ہر کارکن فوٹو سیشن کرواتا دکھائی دیا۔ شاید وہ اس تحریک میں شامل ہونے کا ثبوت دینا چاہتے تھے۔

مصنوعی جیل میں کھڑے ایک صاحب اپنے دوستوں کو کہتے رہے کہ ’جلدی جلدی میری ویڈیو بناؤ میں نے خان صاحب کو بھیجنی ہے۔‘

جیل بھرو تحریک کا حصہ بننے کے لیے آئی خواتین بھی خاصی پُرجوش نظر آ رہی تھیں۔ میرے پاس کھڑی چند خواتین نے آتے ہی فوٹو سیشن کروایا اور ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ایک کارکن کے ہاتھ سے غلیل پکڑی اور کہا کہ یہ مجھے دکھاؤ میں نے تصویر بنوانی ہے۔ ان کے غلیل کے ساتھ ساتھ اپنے بیگ سے پتھر نکال کر بھی دے دیا۔

جب میں نے ان کی تصویر بنانا شروع کی تو انھوں نے پوز بنا کر تصویر اتروائی۔ تاہم بعد میں جب انھیں محسوس ہوا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے تو کہنے لگیں کہ ’ہمارا احتجاج تو پُر امن ہے میں تو تصوریر کے لیے پوز کر رہی تھی، جس پر ساتھ کھڑے پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے جواب دیا کہ جو سٹائل آپ نے بنایا تھا وہ پر امن لگ تو نہیں رہا تھا۔

’اس تحریک میں سب سے پہلی گرفتاری علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال دیں گے‘

PTI
BBC

سیٹج سے تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے اعلان کیا کہ اس تحریک میں سب سے پہلی گرفتاری علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال دیں گے۔ میرے ساتھ کارکنوں کے ایک گروپ سے آواز آئی کہ ’چلو شکر ہے ولید اقبال بھی کسی کام آیا‘۔

اعجاز چوہدری نے اصرار کیا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ ولید اقبال بھی تقریر کریں۔ لیکن وہ نہیں مانے اور کہا کہ ’میں یہاں تقریر کرنے نہیں گرفتاری دینے آیا ہوں۔‘ لیکن پھر ولید اقبال نے مائیک پر آکر ایک شعر سنایا اور چلے گئے۔

ساڑھے تین بجے تو شاہ محمود قریشی نے اعلان یا کہ پولیس والے یہاں سے ہمیں گرفتار نہیں کر رہے اس لیے کم سی سی پی او آفس کے سامنے جا کر گرفتاری دیں گے۔ جس کے بعد سب سے پہلے سی سی پی او آفس کی جانب شفت محمود اور محمود الرشید نکلے لیکن چند ہی قدم کے فاصلے پر جا کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے چلے گئے۔

اس کے بعد عندلیب عباس کچھ کارکنان کے ساتھ سی سی پی او آفس کے مرکزی دروازے پر پہنچیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ عمران خان کے اس تحریک میں شامل نہ ہونے سے آپ کے کارکنان کی تعداد میں واضع فرق دکھائی دے رہا ہے۔ آپ لوگوں کی تعداد کم کیوں ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ دو سو لوگوں کا فنکشن تھا۔ ہم باقی لوگوں کو نہیں بلایا تھا۔ وہ تو خود سپورٹ کرنے آگئے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان ’جیل بھرو تحریک‘ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

’جیل بھرو تحریک‘: تحریک انصاف کے کارکن آج کس قانون کے تحت اپنی گرفتاریاں پیش کریں گے؟

ڈاکٹر یاسمین راشد اور غلام محمود ڈوگر کی مبینہ آڈیو لیک: ’میرا مسٹر ڈوگر سے براہ راست کنسرن ہے‘

’سکرین کا وائپر تو مت توڑو‘

چند ہی لمحوں بعد شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعظم سواتی، اسد عمر اور چند کارکنان رضاکارانہ طور پر قیدی وین میں جا کر بیٹھ گئے جبکہ باقی کارکن اس وین کی چھت پر سوار ہو گئے، جس کے بعد پولیس نے اس وین کو وہاں سے چلانا شروع کیا اور سی سی پی او آفس کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے۔

وین سی سی پی او دفتر کے مرکزی گیٹ سے تھوڑا سا آگے کچھ دیر کے لیے رُکی تو کچھ کارکن نیچے اترنا شروع ہو گئے جن میں حماد اظہر بھی شامل تھے۔

اسی دوران پولیس اہلکار ڈرائیونگ سیٹ سے اُتر کر باہر آئے اور کارکنان سے کہنے لگے کہ وین کا سکرین وائپر تو مت توڑو۔ اسی دوران قیدی وین کے اندر سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کا کہ ’مجھے لگا تھا کہ یہلے ہمیں سی پی او آفس کے اندر لے کر جائیں گے، لیکن یہ تو آگے آ گئے ہیں۔

مھجے اب یہ نہیں پتا کہ یہ ہمیں کہاں لے کر جائیں گے۔ کچھ دیر وین وہاں کھڑی ہوئی اس کے بعد اسے شہر کے مختلف حصوں سے لے جاتے ہوئے کوٹ لکپھت جیل لےجایا گیا۔

پولیس پنجاب اسمبلی کے سامنے باقی رہ جانے والے کارکنان کے لیے مسلسل اعلان کرتی رہی کہ جو جو قیدی وین میں بیٹھنا چاہتا ہےجا کر بیٹھ جائے اس کا دروازہ کھلا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.