سجل علی: ’جب پتا چلا کہ جمائما خان کو میرا کام پسند آیا تو یہ میرے لیے سرپرائز تھا‘

اب سجل علی اپنے بارے میں جو بھی سوچیں، ہم انھیں ایک بہترین اور مقبول اداکارہ کے طور پر جانتے ہیں لیکن کیا آپ کو یہ پتا ہے کہ وہ کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں؟
سجل علی
BBC

ایک وقت ایسا تھا جب پاکستانی ڈراموں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ منفرد، حقیقت سے قریب، دل اور دماغ دونوں کو چھو جانے والی کہانیاں، جدت پسند، مضبوط اور دلچسپ کردار، خاص طور پر خواتین کے بہترین ڈائیلاگ اور ہدایتکاری اور اداکاری ایسی کہ اُف!

تنہائیاں، دھوپ کنارے، ان کہی جیسے ڈرامے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں اور یہ وہ پاکستانی ڈرامے ہیں جنھیں دیکھ کر میں پاکستان میں نہیں بلکہ انڈیا کے زیر اتنظام کشمیر میں بڑی ہوئی۔

اب ظاہر ہے سرینگر میں ٹی وی پر پی ٹی وی تو آتا نہیں تھا اور انٹرنیٹ اور یوٹیوب اس وقت کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا لیکن پاکستانی ڈراموں کی ویڈیو کیسٹس کی دھوم تھی۔

خیر آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد، اپنے بڑھاپے کے اعتراف کے ساتھ ساتھ،یہ تھا کہ ایک زمانے میں، میں بھی پاکستانی ڈراموں کی فین تھی۔

پاکستانی ڈرامے ظاہر ہے اب بھی بنتے ہیں، مقبول ہوتے ہیں، ان کے آج بھی اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ مداح ہیں لیکن اب پاکستانی ڈراموں پر خاصی تنقید بھی ہوتی ہے۔

اکثر ایسا لگتا ہے کہ دلچسپ کہانیوں کی جگہ ساس بہو ٹائپ سٹوری لائنز نے لے لی ہے۔ عورتیں یا تو صبر، قربانی اور آنسوؤں کا مجسمہ ہوتی ہیں، یا پھر بدکردار اور بری۔

اس سب کے باوجود حال ہی میں کچھ ایسے ڈرامے نشر ہونے شروع ہوئے ہیں جن میں ساس بہو فارلولا سے ہٹ کر عورتوں کے مضبوط اور باہمت کردار ہیں۔

کیا یہ ایکٹرز اور مصنفوں کی طرف سے ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے تاکہ عورتوں کی حقیقت سے قریب عکاسی کی جا سکے؟ اور ایک اداکارہ کے لیے اس طرح کے ماحول میں مثبت اور مضبوط رولز ڈھونڈنا اور ادا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟

جب میں کچھ دن پہلے سجل علی سے ملی تو میں نے ان سے یہی سوال کیا۔

’بہت سے پروجیکٹس میں ہراسانی کو پیار کا نام دے دیا گیا‘

اگر آپ پاکستانی ڈرامے دیکھتے ہیں تو یقیناً آپ سجل علی کے فین بھی ہوں گے۔

سجل علی کے سامنے جب میں نے یہ سوال رکھا کہ آج کل کے دور میں مثبت اور مختلف کردار ڈھونڈنا کتنا مشکل ہے تو انھوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ ہیں، میں، صبا (قمر)۔۔۔ اگر میں صرف اپنی بات کروں تو ہمیں لڑنا پڑتا ہے، منع کرنا پڑتا ہے، بہت سارے پروجیکٹس کو ناں کہنا پڑتا ہے۔‘

’ابھی بھی اگر آپ دیکھیں تو بہت سارے ایسے پروجیکٹس ہیں جس میں ہراسانی کو پیار کا نام دے دیا گیا ہے اور آخر میں ہراساں کرنے والے لڑکے سے ہی لڑکی کو پیار ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح کے پروجیکٹس بہت دیکھے بھی جاتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ٹی وی کے پاس لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنے کی طاقت ہے اور ہماری یہ جنگ جاری ہے۔‘

سجل علی نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے اس وجہ سے کئی پروجیکٹس منع کر دیے کیونکہ ’میں عورت کو پٹتا، روتا ہوا، اور کمزور نہیں دیکھ سکتی۔ سوائے اس کے، کہ کردار کا ایک سفر ہو جو دکھایا جائِے لیکن شروعات ایک تھپڑ سے ہو اور ختم بھی تھپڑ مارنے والے کو معاف کر دینے پر ہو تو میں ذاتی طور پر اس چیز میں یقین نہیں رکھتی تو میں ایسے پروجیٹکس کا حصہ نہیں بننا چاہتی اور میں اس کے لیے لڑ رہی ہوں اور ہمیشہ لڑتی رہوں گی۔‘

’جب پتا چلا کہ جمائما خان کو کام پسند آیا تو یہ سرپرائز تھا‘

جمائما خان
Getty Images

جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس وقت سجل علی اپنی نئی فلم ’وٹس لوو گاٹ ٹو ڈو وِد اِٹ‘ کے سلسلے میں لندن میں تھیں۔

یہ وہی فلم ہے جس کو جمائما خان نے لکھا اور پرڈیوس کیا ہے۔ فلم میں سجل علی کے ساتھ ہالی وڈ سٹارز ایما ٹومپسن اور لِلی جیمز کے علاوہ انڈین اداکارہ شبانہ اعظمی نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔

میں نے سجل سے پوچھا کہ اس پروجیکٹ کے لیے انھیں کس طرح منتخب کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے میرے انٹرنیشل پروجیکٹس کے ایجنٹ نے اس بارے میں بتایا اور کہا کہ اس کے لیے ایک آڈیشن ریکارڈ کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تو انھوں نے مجھے دو سین بھیجے ریکارڈ کرنے کے لیے اور میں نے سوچا کہ کہاں ہو گی سیلیکشن۔۔۔‘

شاید آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ سجل علی جیسی کامیاب اور مقبول اداکارہ بھی کئی بار اِمپوسٹر سِنڈروم کا شکار ہو جاتی ہیں یعنی وہ کیفیت جس میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی صلاحیت دراصل آپ کی کامیابی سے کم ہے۔

سجل بتایا کہ انھیں آڈیشن کے بعد جب بتایا گیا کہ ہدایتکار شیکھر کپور اور جمائما خان کو ان کا کام بہت پسند آیا تو یہ ان کے لیے سرپرایز تھا۔

’کیونکہ خود تو مجھے لگتا نہیں کہ میں کچھ بہت کمال کر سکتی ہوں! تو مجھے بہت ساری چیزیں ایک سرپرائز کے طور پر ملتی ہیں۔‘

سجل کہتی ہیں کہ ’میں ایسی ہی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ ایسا کہاں ہو گا اور پھر وہ چیز ہو جاتی ہے۔‘

سجل نے یہ بھی کہا کہ اس، اور اس جیسے دیگر پروجیکٹس کی وجہ سے پاکستان کے دوسرے اداکاروں کے لیے بھی دروازے کھلیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کی بھانجی کا ’ڈائیلاگ‘ جو جمائما خان نے ارینج میرج پر بنائی گئی اپنی فلم میں شامل کیا

صبور علی: ’سجل سے شکل و صورت کا موازنہ تو ٹھیک مگر جب کام کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو عجیب لگتا ہے‘

’گھسی پٹی محبت‘ کی اداکارہ رمشا خان: ’ڈرامے میں سامعہ کا کردار عورتوں کے دل کی آواز ہے‘

سجل نے شبانہ اعظمی کے لیے بھنڈی، اچاری گوشت اور دال بنائی

اب سجل علی اپنے بارے میں جو بھی سوچیں، ہم انھیں ایک بہترین اور مقبول اداکارہ کے طور پر جانتے ہیں لیکن کیا آپ کو یہ پتا ہے کہ وہ کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں؟

لندن میں اس فلم کی شوٹِنگ کے دوران انھوں نے شبانہ اعظمی کے گھر میں ان کے لیے بھنڈی، اچاری گوشت اور کھٹی دال بنائی۔

سجل بتاتی ہیں کہ ’سخت کووڈ کا زمانا تھا۔ میں ہوٹل میں اکیلی تھی۔ شبانہ جی نے کہا کہ نہیں تم میرے گھر آ کر رہو۔ تو میں نے ان کے گھر جا کر، ان کے ساتھ مل کر سارا دن کھانا بنایا۔ شیکھر سر بھی آئے، شہزاد لطیف بھی آئے۔ ہم نے ساتھ کھانا کھایا۔ پھر میں نے ساری رات پاکستانی گانے لگائے۔ دوسرے دن انھوں نے میرے لیے ناشتہ بنایا۔ بہت خیال رکھا میرا۔ میں وہ رات اور دن کبھی نہیں بھولوں گی۔‘

سیٹ پر شبانہ اعظمی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں سجل نے بتایا کہ ’میں ڈری ہوئی تھی، خوفزدہ تھی کہ آج وہ دن ہے جب مجھے شبانہ جی سے ملنا ہے، ایما ٹومپسن سے ملنا ہے مگر وہ جو پہلی ملاقات میری شبانہ جی کے ساتھ تھی، انھوں نے کہا کہ اسلام علیکم، رات ہی میرا تمہارا ڈرامہ دیکھ رہی تھی تو انھوں نے میرے لیے اتنا آسان بنا دیا۔‘

’ہمیں دور سے لگتا ہے کہ نہ جانے کیسا ہوگا مگر کچھ لوگ جو واقعی بہت بڑے لوگ ہیں، وہ ایسے نہیں، وہ بہت نارمل ہوتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.