شائستہ لودھی: ’لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ ڈاکٹر ہوں بھی یا نام کے ساتھ بس ڈاکٹر لگا لیا‘

شائستہ لودھی نے’سمجھوتہ‘ میں جاوید شیخ کے مقابل کام کیا۔ اس ڈرامہ سیریل میں اُن کے کردار نرگس کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پہلی شادی ختم ہو چکی ہے اور دوسری شادی وقار نامی شخص سے ہوتی ہے جو اپنی بیوی کے انتقال کے بعد تنہا رہ جاتا ہے اور بچے اُس کی دیکھ بھال نہیں کرپاتے۔

ڈاکٹر شائستہ لودھی کا شمار اُن مارننگ شو ہوسٹس میں کیا جاتا ہے، جنھیں عوام نے اُن کے کام پر بے حد پیار دیا اور پذیرائی بخشی ہے۔

سنہ 2011 میں پاکستانی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بطور وی جے قدم رکھنے والی شائستہ لودھی نے مارننگ شوز سے شہرت سمیٹی اورسنہ 2016 میں انھوں نے اداکاری کی شروعات کی اور ڈرامہ سیریل ’وعدہ‘ اور پھر ’خان‘ میں کام کیا۔

ورسٹائل شخصیت کی مالک شائستہ لودھی نے طویل عرصہ بعد سنہ 2021 میں ڈرامہ سیریل پردیس میں اپنے کردار زوبی کے ذریعے منوایا کہ وہ اپنی اداکاری کے فن سے بھی لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔

اس ڈرامے سے ان کی اداکاری کو بہت سراہا گیا اور اب حال ہی میں وہ ایک اور ڈرامہ سیریل ’سمجھوتہ‘ میں نظر آ رہی ہیں۔

ڈرامہ سیریل ’سمجھوتہ‘ کی کہانی بوڑھے ماں باپ، اُن کی ذمہ داریوں اور شادی شدہ بچوں کی الجھنوں کے گرد گھومتی ہے۔

شائستہ لودھی نے’سمجھوتہ‘ میں جاوید شیخ کے مقابل کام کیا ہے۔ اس ڈرامہ سیریل میں اُن کے کردار نرگس کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پہلی شادی ختم ہو چکی ہے اور دوسری شادی وقار نامی شخص سے ہوتی ہے جو اپنی بیوی کے انتقال کے بعد تنہا رہ جاتا ہے اور بچے اُس کی دیکھ بھال نہیں کرپاتے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ اِن موضوعات پر بات کی جائے۔

شائستہ لودھی
BBC

’ٹی وی پر ہم بوڑھوں اور بچوں کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں‘

شائشہ کہتی ہیں کہ ’والدین جب ایک مخصوص عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور اگر اُن میں سے کوئی ایک اکیلا رہ جاتا ہے تو ہمارا زاویہ یہ ہے کہ اُن کی اپنی زندگی ختم ہو گئی یا ہو جائے گی۔ اولاد ہونے کے ناطے ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہے لیکن ہم نے یہ نہیں سوچنا ہے کہ ابا کی شادی کیسے کریں۔ مجھے لگا کہ یہ سوسائٹی کے لیے سوچنے کی بات ہو گی۔‘

میں نے شائستہ سے کہا کہ یہ بھی ایک فارمولا ڈرامہ لگتا ہے تو وہ جذباتی انداز میں کہنے لگیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بڑوں کو بتائیں کہ اس سے آگے کی زندگی ہے۔ ہم اُن پر اُن کی زندگیاں تنگ کر دیتے ہیں۔ آپ کو نہیں لگتا کہ اب تک یہ بات ہمارے کسی ڈرامہ میں نہیں کی گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ٹی وی پر ہم بزرگوں اور بچوں کو بالکل نظر انداز کرتے ہی اور صرف جوانوں کو خاطر میں لاتے ہیں کیونکہ اُس سے آپ کو ریٹنگ ملتی ہے۔

’ہم کیوں چاہتے ہیں کہ ہمارے ابو کھانستے رہیں اور ہم اُنھیں کھانسی کا شربت دینے کے لیے کسی ملازم کو بھیج دیں یا خود اُنھیں دے دیں۔ ہم کیوں نہیں چاہتے کہ ہمارے والد اُٹھیں اور اُس عمر میں بھی کام کریں تاکہ وہ اپنے آپ کو ہمارے سوشل سیٹ اپ کا ایک ایکٹو ممبر سمجھیں۔ انھیں جیتے جی مار دیتے ہیں۔‘

’میرے خیال میں اس ڈرامہ میں ہر ایک وہ فارمولا موجود ہے جس میں معاشرے کےلیے ایک سبق بھی ہے۔‘

انھوں نے اس ڈرامہ میں اداکار جاوید شیخ اور صبا فیصل کے کرداروں کے درمیان محبت پر بات کرتے ہوئِے کہا کہ جہاں لوگ اُن کے رشتے کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔

’مطلب اماں ابا ایک دوسرے کےساتھ اچھے نہیں ہو سکتے۔ صرف یہ نوجوان جوڑے ہیں جو ایک دوسرے کو پھول دیتے ہیں۔‘

’ہم پتا نہیں کن لو سٹوریز کی باتیں کرتے ہیں۔ اصل سٹوریز تو ہماری نانی اور دادیوں کی ہیں جنھوں نے ہمارے دبنگ اور ایلفا میلز کے ساتھ پوری عمر گزارہ کیا۔ اُس سے زیادہ مضبوط عورت کون ہوسکتی ہے اور وہ اس چیز کا جشن منانے کی حق دار ہیں لیکن ہم یہ سوچتے ہی نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ مارننگ شوز کی طرح ڈراموں میں بھی ریٹنگ کا پریشر ہوتا ہے اور ڈرامہ آن ائیر ہونے کے بعد بھی چینل کی طرف سے کچھ سینز ڈالنے کی فرمائش آتی ہے۔

میں نے جاننا چاہا کہ چینل کی طرف سے کیا فرمائش آتی ہے تو انھوں نے مثال دیتے ہوئِے بتایا کہ ’اور بیچاری دِکھا دیں اور ظلم دِکھا دیں۔ یہ سب اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں جب آپ ڈرامہ کر رہے ہوتے ہیں۔‘

’لوگ پیار کرتے ہیں اور ڈرامے میں دلچسپی لے رہے ہیں‘

ڈرامہ سیریل سمجھوتہ پر ملنے والے فیڈبیک کے بارے شائستہ لودھی نے بتایا کہ ’میں تو ہر ہفتے لاہور کا سفر کرتی ہوں تو جہاز میں لوگوں سے ملنے والے فیڈ بیک پر مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔‘

’ایسے ہی ہوا کہ میں جہاز میں داخل ہوئی ہوں تو مجھے آوازیں آنے لگیں کہ نرگس میرے پاس، نرگس میرے پاس آؤ۔لوگ پیار کرتے ہیں اور ڈرامے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ریٹنگز چینل کا ایندھن ہے‘: کیا پاکستانی ڈرامے زندگی کے قریب ہو رہے ہیں؟

صنم جنگ: ’ڈرامہ پیاری مونا میں کردار کے لیے 20 کلو وزن بڑھایا، شوٹنگ کے وقت کوئی پہچان نہ پایا‘

سرکاری ملازمت چھوڑ کر ایکٹر بننے والے راشد فاروقی: ’پاگل واگل تو نہیں ایکٹنگ سے بھی کوئی کماتا ہے‘

’یہ ڈاکٹر ہیں بھی یا نام کے ساتھ بس ڈاکٹر لگا لیا‘

ڈاکٹر شائستہ لودھی نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی۔ میڈیا میں کام کرنے، شادی اور پھر بچوں کی ذمہ داریوں کے باوجود انھوں نے کبھی بھی اپنے پیشے سے مکمل علیحدگی اختیار نہیں کی۔اب وہ بطور Aesthetic physician یا (طبی ماہرِ جمالیات) کے اپنا کلینک چلاتی ہیں جس کی شاخیں کراچی اور لاہور میں ہیں۔

شائستہ نے مُسکراتے ہوئے بتایا کہ اُن کے مارننگ شو کے امیج کی وجہ سے اُنھیں ڈاکٹری کے پیشے میں کافی مشکلات آئیں کیونکہ ان کے خیال میں معاشرے میں میڈیا کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے۔

’میں کانفرنس میں جا کر بیٹھتی تھی تو لوگ مجھے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے کیونکہ اُن کو لگتا ہے کہ یہ صبح بیٹھ کے تو بتا رہی ہوتی ہے کہ آپ نے پرانی شرٹ کو نیا کیسے کرنا ہے اور اب ادھر کیا آ گئی ہے پڑھنے کے لیے۔ یہ ڈاکٹر ہے بھی؟ پہلے تو بہت سارے لوگوں کو یقین بھی نہیں آتا تھا۔ اچھا یہ تو وہ ہیں نا جو میڈیا سے ہیں یا نام کے ساتھ بس ڈاکٹر لگا لیا ہے۔‘

وہ اپنے تجربات سے متعلق مزید بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ لوگ کہتے تھے کہ ’یہ تو بس میک اپ کر کے بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کے پاس کیا علم ہو گا۔ ایویں شروع کر دیا بس انھوں نے۔ بغیر پڑھے بغیر لکھے بغیر کچھ جانے۔‘

انھوں نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’میں مستقل مزاج رہی اور بس پھر آج وہی لوگ ہیں جو خود میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے میرے ساتھی (ڈاکٹرز) بھی بہتمشورے کر رہے ہوتے ہیں۔‘

’میں کبھی اداس ہوں تو بھی اُس کو پتا ہوتا ہے‘

ہر فنکار کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مداح ایسا ہوتا ہے جو انھیں کبھی پریشان کرتا یا حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ شائستہ نے اپنے ایک ایسے ہی مداح کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ایک نے مجھے کافی پریشان کیے رکھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کسی کی ایسی فین نہیں ہو سکتی کہ میں کسی کے لیے خودکشی کرنے کا سوچوں اور میں بالکل پاگل ہو جاؤں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں کس وقت کہاں ہوں، اُس کو وہ بھی پتا ہوتا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ کہیں میرے گھر میں جو ملازمین ہیں، اُن میں سے کسی سے تو اُس کا رابطہ نہیں کیونکہ میں کبھی اگر ایئر پورٹ پر ہوں تو اُس کو پتا ہوتا ہے، میں کبھی اداس ہوں تو بھی اُس کو پتا ہوتا ہے، اور اُس کے پاس وہ تصویریں ہیں جو شاید پبلک بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اُس کی پوری زندگی کا مقصد صرف مجھے سٹاک کرنا یا میرا پیچھا کرنا ہے۔‘

انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’وہ بہت ہی کریزی (پاگل پن) سین ہے۔ شروع میں تو مجھے بڑا ڈر لگتا تھا میری بڑی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ میں نے رپورٹ کر دیا تھا اُن کے بارے میں کیونکہ میں ڈر گئی تھی۔‘

’فِلر اور بوٹوکس تھیراپیوٹک بھی ہوتے ہیں‘

ڈاکٹر شائستہ لودھی ماضی میں اپنے مارننگ شوز پر اور اب مختلف میڈیا پلیٹ فارمز سمیت سوشل میڈیا پر خواتین کو اپنی جلد بہتر بنانے کے مشورے دیتی نظر آتی ہیں۔

وہ جلد کو صاف، دلکش اور نکھارنے کے لیے گھریلو ٹوٹکوں کے ساتھ بوٹوکس، فلرز اور اینٹی آکسیڈینٹ انجیکشنز وغیرہ کو ضروری سمجھتی ہیں۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ میڈیسن کی یہ فیلڈ ’ایلیٹ‘ ہے اور ہر کوئی اِن پروسیجرز کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا البتہ اُن کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کر رہی ہیں کہ اسے ہر کلائنٹ کے لیے معقول اور پہنچ کے اندر بنا دیں۔

شائستہ لودھی نے کہا کہ ’اینٹی آکسیڈنٹ انجیکشنز بہت اہم ہیں۔ ہمارے جسم سے روزآنہ ہر سیکنڈ آکسیڈنٹس ریلیز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اُس کی روک تھام کرنا ضروری ہے۔ وہ آپ کے بالوں اور جلد کے ساتھ ساتھ مزاج کے لیے بھی بہت اچھے ہیں۔ اِس میں کوئی برائی تو نہیں اور فِلر اور بوٹوکس تھیراپیوٹک بھی ہوتے ہیں۔ صرف بیوٹیفیکشن کے لیے نہیں ہوتے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.