برابری کا انصاف اور انتخابات، ماریہ میمن کا کالم

image
ملکی سیاست کا ٹمپریچر بڑھتا جا رہا ہے اور مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ آخر بات عمران خان کو گرفتار کرنے تک جا پہنچی اور وہ بھی ایک ایسے ایشو پر جو کہ سینیئر قانون دانوں کے نزدیک ضابطے کی ایک رسمی کارروائی ہے۔

عدالت کی طرف سے وارنٹ جاری ہوتے ہیں جو کہ متعلقہ فرد تک پہنچائے جاتے ہیں۔ متعلقہ فرد کی طرف سے تعمیل کی یقین دہانی کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے۔

عمران خان کے معاملے پر ایک معمول کی کارروائی کو ایک بحران کی شکل دے دی گئی۔ اور طرفہ تماشا یہ کہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عمران خان کی میڈیا پر تقریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ 

سوال یہ ہے کہ آخر ایسے وقت جب کہ انتخابات کی تیاری اور ماحول ہونا چاہیے تھا ایسے اقدامات اور واقعات سے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال مزید خراب نہیں ہوگی؟ اس کا جواب ہے لیول پلیئنگ فیلڈ کے بیانیے میں۔

یہ بیانیہ مریم نواز کی طرف سے واضح طور پر آ چکا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ پہلے وقت کا پہیہ واپس پھیرا جائے، جو سب کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے وہ ختم ہو، وہی سب کچھ عمران خان کے ساتھ ہو، اور اس کے بعد جب ’گلیاں خالی ہو جائیں‘ گی تو پھر الیکشن کروائے جائیں گے۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر اخلاقی اور سیاسی دلیل ایک طرف بھی رکھ دی جائے تو پھر بھی قانونی اور عملی طور پر یہ ایک ناقابل عمل اور پیچیدہ ڈیمانڈ ہے۔

آج کے دن انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، کلاک ٹک ٹک چل رہا ہے۔ ایک دو دن میں انتخابات کا شیڈول سامنے آجائے گا ۔ ایسے وقت میں کونسی ایسی ٹائم مشین سامنے آئے گی جو وقت کو پیچھے پھیرے اور ن لیگ کی منشا کے مطابق انصاف کو بحال کرے۔

نواز شریف اور مریم نواز کا کیس سال بھر تک چلا اس کے بعد سزا ہوئی۔ نا اہلی تک کا معاملہ مہینوں زیر سماعت رہا۔ کیا ن لیگ کی یہ خواہش ہے کہ ایک دو سالوں تک عمران خان کے خلاف کیس چلیں اور باقی تمام معاملات میں بریک لگی رہے؟ اس خیال کو خام خیالی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔

مریم نواز واضح کر چکے ہیں کہ میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کو ریورس کرنا ہوگا۔ (فوٹو: مریم نواز فیس بک)

قانونی جواز کے عملی طور اس قسم کے منصوبوں اور خواہشات کی تکمیل میں دونوں طرف کے طرز سیاست کا بھی واضح رول ہے۔ عمران خان اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف اقدامات کو واضح چیلنج کرتے ہیں۔ انہوں نے عدالت میں پیشی یا مقدمات سے لے کر میڈیا کمپین کا کھل کر مقابلہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ کو پچھتاوا ہے کہ جو سب کچھ انہیں کرنا چاہیے تھا وہ عمران خان اور ان کے کارکن کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی وقت کا پہیہ واپس نہیں مڑ سکتا۔ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا کی جماعت کا طعنہ دینے والے یقیناً اپنے کارکنان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کارکن اس کے جواب میں اپنے لیڈرز کی طرف دیکھ کر کندھے اچکاتے نظر آتے ہیں۔ 

آخر میں سوال یہ بھی ہے کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کا منصوبہ ہے کیا؟ ایک بات تو ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی بڑے آرام سے اپنے آپ کو علیحدہ دیکھ رہی ہے اور اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو وہ حتمی فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی۔

باقی پارٹیاں اتنا اثر نہیں رکھتیں کہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔ ان حالات میں یہ تجزیہ بھی موزوں لگنا شروع گیا ہے کہ ن لیگ گویا سیاسی شہادت کو بھی زیر غور لا رہی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کے بعد سے ان کو کوئی سیاسی بیانیہ نہیں ملا اور عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن کے طور پر سروائیو کرنے سے وہ یہی بہتر سمجھیں گے کہ سب کا اقتدار ہی لپیٹا جائے۔ برابری کے انصاف کی خواہش سے لے کر بساط کے لپیٹے جانے تک، کوئی ایسا منظر نہیں لگ رہا جس میں ان کے لیے کوئی فائدہ مند صورتحال ہو۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.