ہندوستان کی تقسیم کے وقت کئی ریاستوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا گیا جن میں سے کچھ نے بھارت اور کچھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، ایسی ہی ایک ریاست سوات بھی تھی۔
تقسیم کے وقت جب آزاد ریاستوں کو الحاق کا آپشن دیا گیا تو ریاست سوات پاکستان کا حصہ بن گئی۔اس وقت ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق تو ہوا تھا، تاہم سوات ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھی۔
میاں گل عبدالحق جہانزیب سوات ریاست کے والی (حکمران) تھے، 1940 میں انہیں سوات آرمی کاکمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ 1949میں اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے ایک تقریب کے دوران ان کو والی سوات مقرر کیا۔ بعد میں حکومت پاکستان کی طرف سے میاں گل عبدالحق جہانزیب کو ’ہلال پاکستان اور ہلال قائداعظم‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
اس حوالے سے شہریار امیر زیب کے حوالے سے یہ بیان منسوب ہے کہ ’دیر کے نواب میرے دادا کو کہتے تھے کہ آپ سوات کے لوگوں کو تعلیم کے لیے کراچی اور دیگر علاقوں میں بھیجتے ہیں تو یہ تو آپ اپنے مخالفین پیدا کر رہے تھے اور اس پر میرے دادا کہتے تھے کہ آج نہیں تو کل یہ ریاست ضم ہو جانی ہےاس لیے اس کی ترقی ہونی چاہیے۔
شہریار امیر زیب کے مطابق ان کے پردادا نے مسلم لیگ کی بہت خدمت کی تھی اور تقسیم ہند کے بعد جب پناہ گزین کراچی آئے تو انہوں نے اپنی جیب سے تین لاکھ چندہ دیا تھا۔
سوات کا زبردستی الحاق نہیں ہوا تھا بلکہ میرے دادا تو تب والی بنے تھے، جب میرے پردادا زندہ تھے اور میرے دادا کی تاج پوشی کے لیے لیاقت علی خان آئے تھے اور مرضی سے الحاق کیا گیا تھا۔
شہریار امیر زیب کے مطابق والی کے دور میں سوات ایک فلاحی ریاست تھی اور ہسپتال میں مفت علاج مفت دوائیاں، ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا مفت ملتا تھا۔اسی طرح تعلیم بالکل مفت تھی اور وکیلوں کے کوئی پیسے نہیں تھے۔ دونوں فریقین پیش ہوتے تھے اور دو تین دنوں میں فیصلہ ہوجاتا تھا۔