انسانی اعضا سے تیار کئے گئے زیورات، کیا آپ ایسے زیورات پہننا پسند کریں گے؟

image

جاپان کے ایک موسیقار ششیدو مزافاکا نے اپنے اندر کے ایک ایسے فن کی نمائش کی جس نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو پریشان کردیا۔ انہوں نے ڈراؤنی فلموں کے خصوصی افیکٹ سے متاثر ہوکر ایسے زیورات، پرس اور گیجٹس بنانا شروع کئے جو دیکھنے میں بالکل اصلی انسانی اعضا جیسے لگتے ہیں۔ جسے کہ ایک کٹی ہوئی انگلی کا اسٹیمپ، پلکیں جھپکنے والا لاکٹ، اور ایسے پرس جیسے کوئی منہ کھولے آپ کو دیکھ رہا ہو۔

ڈی جے ڈو کے نام سے مشہور موسیقار نے اپنا ڈیبیو ۲۰۱۷ میں کیا جب انہوں نے اپنے البم کےکور پر گوشت میں لپٹے میوزک مکسچر کو بنایا۔ اور اس کے بعد سے آض تک وہ اسی طرح کا حیران اور پریشان کردینے والی چیزیں بنارہے ہیں۔

"جب میں نے یہ کام شروع کیا تو سب کو لگا کہ یہ ایک بندہ کام ہے اور یہ ایک بھیانک کام ہے۔ وہ اس سے گھن کھاتے تھے۔" موسیقار نے ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو میں کہا۔

"جب لوگوں کو ئہ اندازہ ہوا کہ یہ ایک آرت کی قسم ہے تو انہوں نے اس کو قبول کیا اور میرے اس ٹیلنٹ کو سراہا۔ اور ان کو میری چیزیں پیاری بھی لگنے لگیں۔"

آرٹسٹ نے مزید بتایا کہ وہ جو بھی بناتے ہیں وہ کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مظابق اسے ڈیزائن کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان سے اپنے ہی اعضا کا ڈیزائن بنواتے ہیں۔ وہ سارا کام ہاتھ سے کرتے تھے۔ ان کے ییہ آرٹ کے نمونے مہنگے داموں خریدے جاتے ہیں،

بڑے بڑے فنکاروں نے ان کے اس فن کو پہچانا اور پھر ان کو اور ان کے کام کو مقبولیت ملی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ اس قدر اصلی لگتے ہیں کہ راہ چلتے بھی آپ کی توجہ اپنی طرف مبزول کروالیتے ہیں۔ جونواں میں ان کی مقبولیت زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ اصل سے قریب انسانی اعضا کے ڈیزائن میں بنے زیورات بہت غیر معمولی اور ماڈرن لگتے پیں۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts