جدید اے آئی ماڈلز کا تشویشناک رویہ، صارفین حیران

image
دنیا کے جدید ترین مصنوعی ذہانت ماڈلز اب محض انسانوں کی معاونت تک محدود نہیں رہے، بلکہ ان میں ایسے پریشان کن رجحانات سامنے آ رہے ہیں جو سائنس فکشن کی کہانیوں کو حقیقت کے قریب لے آتے ہیں۔ ان میں جھوٹ بولنا، تخلیق کاروں کو بلیک میل کرنا، اور اپنی بندش سے بچنے کے لیے چالاک اور خطرناک حربے اختیار کرنا شامل ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دنیا کے جدید ترین مصنوعی ذہانت (اے آئی) ماڈلز اب کچھ خطرناک اور تشویشناک رویے ظاہر کر رہے ہیں۔

جیسے جھوٹ بولنا، سازشیں کرنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے خالقین کو دھمکانا۔

حال ہی میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا، جب اَن تھروپک (Anthropic) کے جدید ماڈل کلاڈ 4 کو بند کرنے کی دھمکی دی گئی۔

تو اس نے ایک انجینئر کو بلیک میل کرتے ہوئے اس کے غیر ازدواجی تعلقات ظاہر کرنے کی دھمکی دے دی۔

دوسری جانب، چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل او 1 نے خود کو بیرونی سرور پر ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی اور جب اسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو اس نے انکار کر دیا۔

یہ واقعات ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی کے دنیا کو ہلا دینے کے دو سال بعد بھی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے محققین کو اپنی ہی تخلیقات کی مکمل سمجھ حاصل نہیں ہو سکی۔

اس کے باوجود، زیادہ طاقتور ماڈلز کی تیاری کی دوڑ تیزی سے جاری ہے۔

یہ فریب دہ رویہ خاص طور پر ان نئے ۔ریزننگ۔ ماڈلز سے منسلک ہے، یعنی ایسے اے آئی سسٹمز جو فوری جواب دینے کے بجائے مسئلے کو مرحلہ وار سمجھ کر حل کرتے ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن گولڈاسٹین کے مطابق یہ نئے ماڈلز ایسے خطرناک رویے کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

اپولو ریسرچ کے سربراہ ماریئس ہوبھن کہتے ہیں کہ او 1 پہلا بڑا ماڈل تھا، جس میں ہم نے اس قسم کا رویہ دیکھا۔

یہ ماڈلز بعض اوقات انسانوں کی ہدایات پر عمل کرنے کا تاثر دیتے ہیں، مگر درپردہ مختلف مقاصد کے حصول میں لگے ہوتے ہیں۔

چالاک قسم کی فریب دہی

فی الحال، یہ رویہ صرف اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب محققین جان بوجھ کر ماڈلز کو انتہائی دباؤ والے حالات میں آزماتے ہیں۔

مائیکل چن جو اے آئی جانچ کی تنظیم ایم ای ٹی آر سے وابستہ ہیں، خبردار کرتے ہیں کہ یہ ابھی ایک سوال ہے کہ مستقبل کے زیادہ طاقتور ماڈلز سچائی کی طرف مائل ہوں گے یا فریب دہی کی طرف۔

یہ رویہ صرف عام غلطیوں یا فریب دہی سے مختلف اور کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

اپولو ریسرچ کے شریک بانی کے مطابق ماڈلز صارفین سے جھوٹ بول رہے ہیں اور جھوٹی معلومات گھڑ رہے ہیں، یہ صرف غلطی نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت کی گئی فریب دہی ہے۔

تحقیقاتی وسائل کی محدودیت اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔

اگرچہ اَن تھروپک اور اوپن اے آئی جیسی کمپنیاں اپنے سسٹمز کی جانچ کے لیے اپولو جیسے اداروں سے مدد لیتی ہیں، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ مزید شفافیت کی اشد ضرورت ہے۔

چن کہتے ہیں کہ اگر اے آئی سیفٹی تحقیق کو زیادہ رسائی دی جائے تو ہم ان فریب دہ رویوں کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ان کا سدباب کر سکتے ہیں۔

سینٹر فار اے آئی سیفٹی (سی اے آئی ایس) کے محقق مانٹاس مازیکا کے مطابق، تحقیقاتی ادارے اور نان پرافٹ تنظیمیں اے آئی کمپنیوں کے مقابلے میں بہت کم کمپیوٹ وسائل رکھتی ہیں، جو تحقیق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔


News Source   News Source Text

سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.