’روس میں جوہری طاقت کی تشہیر پالتو جانوروں کے کھانوں کی طرح ہو رہی ہے‘

نوبیل انعام یافتہ روسی صحافی دمرتی مراتوف کہتے ہیں کہ ریاستی پروپیگنڈا تابکاری کی طرح پھیل رہا ہے۔
دمتری مراتوف
BBC
’روس میں لوگ پروپیگنڈا سے ایسے متاثر ہو چکے ہیں جیسے لوگ تابکاری سے متاثر پو جاتے ہیں‘

ہو سکتا ہے کہ روسی حکام نے ان کا اخبار بند کر دیا ہو، لیکن لگتا یہی ہے کہ معروف روسی صحافی دمتری مراتوف نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا ہے۔

جب ماسکو میں ہماری ملاقات ہوئی تو روزنامہ ’نووایا گزیٹا‘کے مدیرِ اعلیٰ اور روس کے نوبل امن انعام یافتہ صحافی کو تشویش تھی کہ مغرب کے ساتھ تصادم میں کریملن کہاں تک جا سکتا ہے۔

دمتری مراتوف نے مجھے بتایا کہ اگرچہ ہماری دو نسلیں جوہری جنگ کے خطرے کے بغیر زندگی گزار چکی ہیں ’لیکن یہ دور اب ختم ہو چکا ہے۔ پوتن جوہری بٹن دبائیں گے یا نہیں؟ کون جانتا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا. ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو یہ بات یقین سے کہہ سکے۔‘

جب سے روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بھرپور حملے کا آغاز کیا ہے، ماسکو کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی دھمکیاں زور و شور سے جاری ہیں۔

اس دوران مغربی ممالک میں سینیئر حکام نے خبردار کرتے رہے ہیں کہ یوکرین کو مسلح کرنے والے مغربی ممالک کو روس کو زیادہ دور نہیں دھکیلنا چاہیے۔

چند روز قبل ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بیلاروس میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک، نکولائی پیٹروشیف نے متنبہ کیا کہ روس کے پاس ایک ایسا جدید اور انوکھا ہتھیار موجود ہے جو امریکہ سمیت کسی بھی دشمن کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کیا یہ محض ایک فریب ہے یا ایک خطرہ جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے؟

مراتوف کہتے ہیں کہ اس حوالے سے انھیں تشویش ناک اشارے مل رہے ہیں۔

ان کے بقول ’ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ کس طرح ریاستی پروپیگنڈا لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ جوہری جنگ کوئی بری چیز نہیں ہے۔ یہاں ٹی وی چینلز پر جوہری جنگ اور جوہری ہتھیاروں کی باتیں ایسے کی جا رہی ہیں جیسے پالتو جانوروں کے کھانوں کی تشہیر ہو رہی ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس یہ میزائل ہے، وہ میزائل ہے، ایک اور قسم کا میزائل ہے۔ وہ برطانیہ اور فرانس کو نشانہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ایک جوہری سونامی پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں، ایسی سونامی جو امریکہ کو غرق کر سکتی ہے۔وہ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ تاکہ یہاں کے لوگ تیار رہیں۔‘

حال ہی میں روس کے سرکاری ٹی وی پر ایک معروف ٹاک شو کے میزبان نے یہ مشورہ بھی دے دیا کہ روس کو چاہیے کہ وہ ’فرانس، پولینڈ اور برطانیہ کی سرزمین پر کسی بھی فوجی تنصیب کو جائز ہدف قرار دے دے۔‘

اسی ٹی وی میزبان نے یہ تجویزبھی دی کہ ’ایک جزیرے کو اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں سے ہموار کیا جائے اور وہاں پر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا جائے، تاکہ کسی کو کوئی غلط فہمی نہ رہے۔‘

اس کے باوجود یہاں ریاستی پروپیگنڈا روس کو امن پسند ملک اور یوکرین اور مغرب کو جارح ممالک کے طور پر پیش کرتا ہے اور بہت سے روسی اس بات کو سچ سمجھتے ہیں۔

مراتوف کہتے ہیں کہ ’روس میں لوگوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے مشتعل کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈا تابکاری کی ایک قسم ہے۔ یہ تابکاری ہر کسی پر اثرانداز ہو سکتی ہے، صرف روسیوں پر نہیں۔ روس میں، پروپیگنڈا بارہ ٹی وی چینلز، ہزاروں اخبارات، اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور یہ تمام ذرائع ریاست کے نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔‘

AFP
AFP

لیکن اگر یہ پروپیگنڈا کل اچانک بند ہو جائے تو کیا ہوگا؟ اگر سب کچھ خاموش ہو جائے؟ تب روسی کیا سوچیں گے؟

اس کے جواب میں مراتوف نے کہا کہ ’ہماری نوجوان نسل بڑی حیرت انگیز ہے۔ یہ نسل بہت تعلیم یافتہ ہے۔ تقریبا دس لاکھ روسی ملک چھوڑ کے جا چکے ہیں، اور جو ملک میں موجود ہیں وہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ نوجوان اس جہنم کے خلاف ہیں جو روس نے یوکرین میں پیدا کیا ہوا ہے۔‘

’مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی پروپیگنڈا بند ہوگا، یہ نسل اور ذرا سا فہم رکھنے والا ہر شخص اس پر بات کرے گا۔‘

بلکہ مسٹر مراتوف کہتے ہیں ’یہ لوگ پہلے ہی ایسا کر رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والے روسیوں کے خلاف 21 ہزار انتظامی اور فوجداری مقدمات قائم کیے جا سکے ہیں۔ اپوزیشن جیل میں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو بند کر دیا گیا ہے۔ بہت سے کارکنوں، شہریوں اور صحافیوں کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جا چکا ہے۔‘

کیا پوتن کو کوئی حمایت حاصل ہے۔

’ جی ہاں، بہت زیادہ۔ لیکن پوتن کے حمایتی وہ بڑی عمر کے لوگ ہیں جو پوتن کو اپنے پوتے کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسے شخص کے طور پر جو ان کی حفاظت کرے گا اور جو انھیں ہر ماہ پنشن دیتا ہے اور ہر سال نئے سال کی مبارک باد دیتا ہے۔ یہ لوگ سمجھتےہیں کہ ان کے حقیقی پوتے پوتیوں کو اگلے محاذ پر جا کر لڑنا اور مرجانا چاہیے۔‘

گزشتہ سال مسٹر مراتوف نے مختلف ممالک میں پناہ لینے والے یوکرینی بچوں کے لیے پیسے جمع کرنے کی غرض سے اپنا امن کا نوبل انعام نیلام کر دیا تھا مگر انھیں مستقبل کے بارے میں امید بہت کم ہے۔

’روس اور یوکرین کے عوام کے درمیان دوبارہ کبھی بھی معمول کے تعلقات قائم نہیں ہوں گے۔ کبھی نہیں. یوکرین اس سانحے سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوگا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ روس میں حکومت کے تمام مخالفین کے خلاف سیاسی جبر جاری رہے گا۔

لیکن ’مجھے واحد امید نوجوان نسل سے ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کو دشمن کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوست کے طور پر دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ روس سے محبت کی جائے اور روس دنیا سے محبت کرے۔‘

’میری خواہش ہے کہ یہ نسل میرے اور پوتن کے بعد بھی زندہ رہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.