گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان کی صورت میں انھیں ملک بچانے والا ایک سیاست دان مل گیا ہے۔ تاہم اقتدار سے ہٹنے کے ایک برس بعد ہی وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زوال کی وجہ بننے کے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور فوج اپنا پورا زور لگا کر خود کو عمران خان کے اعتاب سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان کی صورت میں انھیں ملک کو بچانے والا نجات دہندہ سیاست دان مل گیا ہے۔ تاہم اقتدار سے ہٹنے کے ایک برس بعد ہی وہ ایک ایسے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں جوفوجی اسٹیبلشمنٹ کے زوال کی وجہ بن سکتے ہیں اور اب فوج خود کو عمران خان کے عتاب سے بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کر رہی ہے۔
عمران خان کی جماعت کو اس وقت ایک ملک گیر کریک ڈاؤن کا سامنا ہے اور پاکستان بظاہر اس کے نتیجے میں جمود کی کیفیت کا شکار ہے۔
ملک میں اس وقت مہنگائی عروج پر ہے اور یہاں تاریخ کے سب سے گرم ترین موسمِ گرما کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔ اس دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن سکتی ہے۔
تاہم اس سب کے درمیان پورا ملک اس سوچ میں الجھا ہوا ہے کہ عمران خان اب آگے کیا کریں گے اور ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ انھیں محدود کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہے۔
ایک برس قبل جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا تو ان کے حامیوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عمران خان ہماری 'ریڈ لائن' ہیں اور اگر انھیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ملک جلے گا۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد رینجرز کی جانب سے نو مئی کو باکل ایسا ہی کیا گیا۔
ملک بڑے پیمانے پر جلا تو نہیں لیکن عمران خان کے حامیوں نے فوجی چھاؤنیوں کا رخ کیا۔
فوج کا ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو، جسے بلاشبہ پاکستان میں سب سے محفوظ جگہ تصور کیا جاتا ہے، اس کا دروازہ توڑ دیا گیا اور لوگوں نے فوجی لوگو والے سائن بورڈز کو روند ڈالا۔
لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کو نذرِ آتش کر دیا گیا اور عمران خان کے حامیوں نے گھر میں فرنیچر اور گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے ویڈیوز بھی بنائیں۔ مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے جنرل کا یونیفارم پہن لیا اور ایک نے گھر سے پالتو مور اٹھا لیا۔
اس میں انقلاب کی تمام علامات تو موجود تھیں، لیکن یہ انقلاب نہیں تھا۔ عمران خان سے پہلے فوج کو محبت تھی لیکن بعد میں انھوں نے عمران خان کو نظرانداز کیا اور اب ان کے حامی حساب برابر کر رہے تھے۔ یہ انقلاب سے زیادہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ کی لڑائی تھی۔
پاکستان میں اب یہ معمول بن چکا ہے کہ ہر وزیرِ اعظم کے پاکستانی فوج کے ساتھ معاملات کچھ عرصے کے بعد بگڑ جاتے ہیں۔
ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی، ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو بطور وزیرِ اعظم دو مرتبہ اقتدار سے ہٹایا گیا اور ایک خودکش دھماکے کے نتیجے میں ان کی ہلاکت کی کبھی بھی مکمل طور پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔

نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا، جیل بھیجا گیا اور پھر ملک بدر کیا گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر سے وہ ملک سے باہر ہیں اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے ذریعے ایک پراکسی حکومت چلا رہے ہیں لیکن اب بھی وہ ملک واپس نہیں آ سکتے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں نے وہ کیا جو آج تک کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے نہیں کیا تھا۔ سڑکوں پر احتجاج کرنے کے بجائے انھوں نے فوجی چھاؤنیوں پر حملہ کیا اور عوام کو دکھایا کہ پاکستانی جنرل کیسی زندگی گزارتے ہیں۔ یعنی بڑے محلات میں جہاں سوئمنگ پولز ہوتے ہیں اور کئی ایکڑوں پر موجود لان جن میں مور گھومتے ہیں۔
گرفتاری سے کچھ ہی وقت پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ان کی جماعت کو کچلنا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے انھوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو غدار کہا تھا جنھوں نے انھیں اقتدار میں لانے اور اس دوران مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
عمران خان نے ایک آئی ایس آئی جنرل کو اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ وہ اور ان کے حامی اس جنرل کو عوامی اجتماعات میں ’ڈرٹی ہیری‘ کے لقب سے پکارتے رہے ہیں۔
ماضی میں بھی کئی سیاست دانوں نے پاکستانی فوج پر بطور ادارہ نام لے کر الزامات لگائے ہیں لیکن پاکستانیوں نے کم از کم کور کمانڈر ہاؤس نذرِ آتش ہونے کے مناظر نہیں دیکھے، نہ ہی خواتین مظاہرین کو جی ایچ کیو کے گیٹ کو جھنجھوڑتے دیکھا گیا اور نہ ہی اعلٰی فوجی اعزاز حاصل کرنے والے فوجیوں کے مجسموں کو اکھاڑتے ہوئے۔
یہ سب وہ عوامل تھے جو عمران خان کی مخالف جماعتوں پر مبنی پی ڈی ایم کی موجودہ اتحادی حکومت کو ایک جوابی وار کے لیے درکار تھے۔
حکومت اس وقت عام انتخابات سے کترا رہی ہے جن میں متعدد رائے عامہ کے تجزیوں کے مطابق عمران خان کی فتح متوقع ہے۔ اس وقت حکومت میں موجود اکثر سیاست دان عمران خان کی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ماضی میں بھی ایسے سیاست دانوں کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی رہی ہے جو فوج پر تنقید کرتے تھے۔
منتخب رکنِ پارلیمان علی وزیرِ جنھوں نے طالبان کے حوالے سے فوج کی مبینہ ہمدردیوں پر کھل کر تنقید کی تھی کو دو برس تک جیل میں رکھا گیا تھا۔ انھیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

اب تک بلوچستان سے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کا سامنا رہا ہے اور کوئی پاکستانی عدالت یا مرکزی سیاسی جماعت ان کے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
تو پھر عمران خان پر متعدد مقدمات ہونے کے باوجود وہ تاحال آزاد کیوں ہیں۔
اس حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ فوج میں ایسے افسر اور ان کے خاندان ہیں جو عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف عدلیہ ہے جو ان کی ضمانت میں توسیع کیے جا رہی ہے۔
حراست میں ایک دن گزارنے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انھیں اپنی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ اور پھر انھیں سرکاری گیسٹ ہاؤس میں بھیج دیا۔ اگلے ہی روز ایک اور جج نے ان کی ضمانت منظور کر لی۔
عمران خان نے پاکستان میں ایک ایسے حلقے کی حمایت حاصل کر لی ہے جسے ان کے آنے سے پہلے تک سیاست اور سیاست دانوں سے شدید نفرت تھی۔ ان کے انصاف اور کرپشن سے پاک گورننس کے بیانیے کی عام عوام میں خاصی مقبولیت ہے حالانکہ جب عمران خان خود اقتدار میں تھے تو کرپشن میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ انھوں نے اپنے متعدد سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا۔
تاہم اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے ان کے حامی مزید پرجوش ہیں اور ان میں سے اکثر خواتین اور نوجوان ہیں جنھوں نے پہلے کبھی ووٹ نہیں دیا نا ہی کسی سیاسی ریلی میں شرکت کی۔
انھیں اکثر سیاسی لاشعوری کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ بحران کو تاریخی سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی اصلاحی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں جو ملک سے تمام کرپٹ سیاستدانوں کو نکالنا چاہتی ہے۔
عمران خان کی طرح انھیں بھی فوج سے محبت تھی۔ اب وہ فوج کر ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے فوجی سربراہان پر مسلسل تنقید کے باوجود اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فوج کا اثرورسوخ کم نہیں کرنا چاہتے، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ فوج کے جنرل دوبارہ سے ان سے محبت کریں اور ان کی جماعت کی حمایت کریں جیسے وہ پہلے کیا کرتے تھے۔

تاہم نو مئی کے واقعات کے بعد فوج کی اعلیٰ کمانڈ نے بظاہر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ موجودہ آرمی چیف نے اس دن کو ’پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن‘ قرار دیا ہے۔
عمران خان نے پاکستان میں شاید ایک نئی طرز کی پاپولسٹ سیاست کی بنیاد رکھی ہے لیکن فوج ماضی میں دیگر سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیے گئے ہتھکنڈے اب ان کے خلاف استعمال کرتی نظر آ رہی ہے۔
اب تک ان پر درجنوں کرپشن کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور ان کے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا ہے اور ایک واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ آرمی پر حملہ کر کے دراصل عمران خان نے ریڈ لائن کراس کی۔
فوج کی جانب سے عوام کے دلوں اور ذہنوں میں جگہ بنانے کے لیے ایک گانا بھی ریلیز کیا گیا ہے جس میں ’فوجی شہدا‘ کو سلام پیش کیا گیا ہے۔
اسی طرح نو مئی کو عسکری املاک پر حملوں کے ردِ عمل میں 'تکریمِ شہدا' کا دن بھی منایا گیا ہے۔ (ناقدین توجہ دلواتے ہیں کہ اس دن کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا، صرف غصے سے بھرپور ایک ہجوم نے ایک محل نما حویلی کو نذرِ آتش کیا تھا)۔

ملک کے بڑے شہروں کی اہم شہراہوں پر ایسے بینرز آویزاں ہیں جن میں فوج کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وفاداری نبھانے کا عہد کیا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے ایسی مذہبی جماعتوں کو بھی سڑکوں پر لایا گیا جنھوں نے ماضی میں اس پر حملے کیے تھے اور ان کی جانب سے بھی فوج کے لیے محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان کی فوج اس وقت اپنی صفوں میں عمران خان سے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔
ایک خاتون، جن پر الزام تھا کہ ان کا نو مئی کے مظاہروں میں مبینہ طور پر ہاتھ تھا، کی گرفتاری کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کئی روز تک کوششیں کرتے رہے اور بالآخر اس میں کامیاب ہوئے۔ یہ خاتون خدیجہ شاہ تھیں جو ایک فیشن ڈیزائنر اور ایک سیاسی کارکن ہیں اور سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی نواسی ہیں۔

وہ کسی بھی جرم کے ارتکاب کی تردید کرتی ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ عمران خان کچھ ’آرمی بریٹس‘ (فوجی خاندانوں کے بچوں) کو اپنے بیانیے پر اس حد تک یقین کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اب وہ اپنے ہی گھر کو آگ لگانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
خدیجہ شاہ کی گرفتاری اور انھیں جیل میں بھیج کر فوج کی جانب سے فوجی خاندانوں کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی سیاست سے خود کو دور رکھیں۔
فوج کی جانب عمران خان کی جماعت کو توڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں اور ان کارکنوں اور رہنماؤں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی بات کی ہے جو کنٹونمنٹ پر حملوں میں ملوث تھے۔
عمران خان کے سینیئر پارٹی رہنماؤں پر سخت دباؤ ہے کہ وہ ان کی جماعت چھوڑ دیں۔ کچھ رہنما یہ دعویٰ کرتے ہوئے جماعت چھوڑ چکے ہیں کہ وہ فوج کے خلاف عمران خان کی تصادم پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بن سکتے۔
تاریخی طور پر بھی جب بھی سویلین رہنما فوج کے ساتھ متصادم ہوئے تو فوج کو ہی برتری حاصل ہوئی۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں سے غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے کا کہا ہے۔ اس ڈیڈلاک میں عام پاکستانیوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔