’تم کسی اور سے شادی کر لو، میں تمہارے لائق نہیں‘: ایک گمشدہ بیگ، 16 سال انتظار اور پھر شادی کی کہانی

’میں جہاں بھی گیا، پریشانیوں نے ہمیشہ میرا پیچھا ہی کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ مصیبتیں بس میرا ہیپتہ ڈھونڈ رہی ہوں۔ لیکن پھر اچانک ایک دن میرا بیگ گم ہو گیا جس میں میرا وزیٹنگ کارڈ بھی تھا، اور پھر خدا نے ارمیلا کو میری پریشانیوں کے حل کے طور پر بھیج دیا۔‘

’میں جہاں بھی گیا، پریشانیوں نے ہمیشہ میرا پیچھا ہی کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ مصیبتیں بس میرا ہی پتہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ لیکن پھر اچانک ایک دن میرا بیگ گم ہو گیا جس میں میرا وزیٹنگ کارڈ بھی تھا، اور پھر خدا نے ارمیلا کو میری پریشانیوں کے حل کے طور پر بھیج دیا۔‘

’پہلے میں نے غربت کی وجہ سے شادی کرنے سے انکاری تھا۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا کہ مصیبتیں اور پریشانیاں میری ہی تلاش میں رہتی تھیں تو جب میں نے شادی کے لیے ذہن بنایا تو مجھ پر فالج کا حملہ ہو گیا، جس سے صحت مند ہونے میں مجھے چھ سال لگ گئی۔‘

یہ کہنا ہے انڈین شہر گودھرا کے رہائشی نتن شرما کا۔

نتن تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد کی معذوری کے باعث انھیں خاندان کی کفالت کے لیے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرنا پڑا۔

’مجھے وہ دن اچھی طرح سے یاد ہیں۔ میں 19 سال کا تھا کہ اچانک گھر کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی۔ چونکہ کمائی کی ذمہ داری مجھ پر تھی اس لیے میں صبح کو کالج جاتا اور شام کو کام پر۔‘

’ابتدا میں مجھے ایک فنانس کمپنی میں نوکری مل گئی۔ میں لوگوں کو دستیاب قرضوں کے بارے میں بتاتا تھا اور انھیں حاصل کرنے میں مدد کرتا تھا۔ لوگ کمپنی سے قرض لیتے تھے جس کے بدلے مجھے کمیشن مل جاتا تھا۔ گھر میں تین بہنیں تھیں، جن میں سے ایک بیمار بھی رہتی ہیں جن کی صحت پر اخراجات آتے تھے۔ اس لیے میں دن میں 16 گھنٹے سے زیادہ کام کرتا۔ میرا مقصد صرف پڑھنا اور اچھی نوکری کرنا تھا۔‘

نتن اپنے سر پر ذمہ داری اور ذہن میں ایک واضح مقصدلیے انتھک محنت کر رہے تھے۔ مگر جیسا کہ انھوں نے خود کہا مصیبتیں ان کی تلاش میں رہتی تھیں۔۔۔

’آپ کو میرا نمبر کیسے ملا؟‘

بیگ
Getty Images

اپنے ساتھ ہونے والی پریشانیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے نتن کہتے ہیں کہ ’ایک دن میرا ایک بیگ گم ہو گیا جس میں کمپنی کے چند کاغذات اور والد کی نئی خریدی ہوئی دوائیاں تھیں۔ میرے وزیٹنگ کارڈز بھی اس بیگ میں ہی تھے۔ اس رات جب میں گھر گیا اور والد نے دوا مانگی اور تب مجھے معلوم ہوا کہ میرا بیگ گم چکا ہے۔

’مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ گم ہونے والے تھیلے میں وہ دوائیں تھیں جو بمشکل بچائی گئی رقم سے خریدی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ اس بیگ میں لوگوں کی طرف دیے گئے وہ چیک بھی تھے جو انھوں نے بطور قرض کی قسط کے جمع کروائے تھے۔‘

تاہم اُسی رات انھیں ایک خوشخبری بھی ملی۔ وہ اپنے گھر میں اداس بیٹھے تھے جب اچانک اُن کے فون کی گھنٹی بجی۔

فون کے دوسرے طرف سے ایک نوجوان عورت کی آواز آئی۔ لڑکی نے نتن سے اس کا نام پوچھا اور اور بتایا کہ انھیں ایک گمشدہ بیگ ملا ہے۔اس لڑکی نے نتن سے کہا کہ وہ اس کے دفتر آ کر اپنا بیگ لے جائیں۔ اگلے دن، نتن بیگ لینے لڑکی کے دفتر گئے اور کھویا ہوا بیگ واپس پا کر خوشی سے نہال ہو گئے۔

یہ واقعہ 16 سال پہلے کا ہے یعنی سنہ 2007 کا ہے جب نتن کی پہلی مرتبہ ارمیلا سے ملاقات ہوئی جس کے دوران ارمیلا نے نتن کو ان کا کھویا ہوا بیگ واپس کیا۔

جب نتن بی بی سی کو اپنی یہ کہانی سنا رہے تھے تو ان کے ساتھ بیٹھی ارمیلا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’پہلا سوال اس نے (نتن) فون پر مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ آپ نے میرا نمبر کہاں سے لیا اور آپ کو میرے نام کیسے معلوم ہے؟ اور یہ سوال سن کر میں اس کی بے وقوفی پر ہنس پڑی تھی۔‘

ظاہر ہے کہ ارمیلا کو نام اور نمبر بیگ میں رکھے وزیٹنگ کارڈ سے ملا تھا۔

ارمیلا بتاتی ہیں کہ ’اُس دن دفتر سے فارغ ہونے کے بعد وہ نتن کے ساتھ شام کی چائے پینے باہر گئیں۔ دوران گفتگو نتن نے بتایا کہ وہ پڑھتے بھی ہیں اور گھر والوں کی ذمہ داری کے باعث رات گئے تک نوکری بھی کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے دو سال چھوٹا تھا لیکن اس کو سخت محنت کرتے دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔‘

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا،آہستہ آہستہ فون پر بات چیت شروع ہوئی اور یہ دوستی کب محبت میں بدل گئی دونوں کو معلوم نہ ہو سکا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نتن صاف گوئی اور اپنے گھر والوں سمیت تمام ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنے کی ان کی عادت پسند تھی۔ دوسری جانب میرے خاندان کی طرف سے مجھ پر شادی کے لیے دباؤ تھا، اس لیے میں نے نتن سے اس بارے میں بات کی۔‘

’اس پر نتن نے کہا کہ وہ شادی سے پہلے کچھ پیسے بچانا اور گھریلو ذمہ داریاں کم کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

’تم کسی اور سے شادی کر لو، میں تمہارے لائق نہیں‘

شادی کے حوالے سے طے پانے والے اس زبانی معاہدے کے بعد دونوں ہر روز دوپہر کے کھانے کے وقت ملتے رہے اور یہ سلسلہ اگلے آٹھ سال تک چلتا رہا یعنی سنہ 2007 سے سنہ 2016 تک: لیکن پھر اچانک ایک روز نتن نے آنا بند کر دیا۔

ارملا کے مطابق نتن کو سنہ 2016 میں فالج ہو گیا تھا، جس کے بارے میں انھیں ابتدا میں کچھ عرصے تک علم نہیں ہو سکا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کے گھر پر ہمارے افیئر کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کس سے رابطہ کرنا ہے۔ میں لاعلمی میں ہر روز دوپہر کو نتن کا انتظار کرتی رہی، کیونکہ ہم آٹھ سال سے اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ لیکن وہ کبھی نہیں آیا۔‘

دوسری جانب نتن کو فالج ہونے کے بعد ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، جہاں پہنچنے کے بعد ان کا فون بند ہونے کی وجہ سے رابطہ نہ ہو سکا۔لیکن تھوڑے وقفے کے بعدایک دن ارملا کے فون پر نتن کے نمبر سے کال آئی۔

نتن نے فقط اتنا کہا ’ارمیلا آپ کسی اور سے شادی کر لیں، میں تمھارے قابل نہیں رہا کیونکہ میں مفلوج ہو چکا ہوں۔‘

یہ سُن کر ارملا کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ نتن کے گھر کی طرف بھاگیں۔ نتن کو وہاں پڑا دیکھ کر وہ بہت روئیں، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری، ڈاکٹروں سے بات کی اور نتن کا علاج جاری رکھا۔

ارمیلا کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹروں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مناسب فزیوتھراپی اور اچھی خوراک سے یہ جلد صحت یاب ہو جائے گا۔ اس لیے میں نے اور نتن کی والدہ نے گھر پر اس کی دیکھ بھال شروع کی جس سے اس کی حالت بہتر ہونے لگی۔ اس دوران وہ لگاتار مجھے کہیں اور شادی کرنے کا کہتے رہے۔ لیکن میں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر میں شادی کروں گی، تو نتن سے ہیورنہ میں ساری زندگی کنواری رہوں گی۔‘

نتن کہتے ہیں کہ ’ارمیلا کے اس اصرار نے مجھے زندگی کا ایک نیا موقع فراہم کیا۔ میں آہستہ آہستہ واپس چلنا شروع ہوا اور فالج کے حملے کے لگ بھگ چھ سال بعد یعنی 2022 تک مکمل صحت یاب ہو گیا۔ پھر ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور 2022 میں ہی شادی کر لی۔‘

’ہاتھ میں تیرا ہاتھ‘

شادی کے ایک سال بعد کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے 35 سالہ نتن کہتے ہیں کہ ’شادی کے بعد ارمیلا نے مجھے بغیر گیئر کے سکوٹر چلانے کی ترغیب دی۔آہستہ آہستہ میں نے نوکری کرنا شروع کی جبکہ ارمیلا نے گھر سنبھال کیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ گھر میں سلائی کرتی ہے اور جب جب اس کے پاس وقت ہوتا ہے وہ میرے کام میں بھی میرا ہاتھ بٹاتی ہے۔ میں یقینی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھ سے چھین لیا تھا، وہ ارمیلا کی صورت میں مجھے واپس کر دیا۔‘

دوسری جانب ارمیلا کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں نتن سے شادی کرنا چاہتی ہوں، تو میں اسے کیسے چھوڑنے کا سوچ سکتی تھی؟‘

’جب نتن مفلوج ہو گیا تھا اور مجھ سے کہیں اور شادی کرنے کا کہہ رہا تھا، تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’جب تک تمہارا ہاتھ اس ہاتھ میں ہے، میں نہیں دیکھنا چاہتی کہ ان لائنوں (قسمت) میں کیا لکھا ہے۔ یہ سُن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ ہماری محبت سچی ہے اس لیے ہم نے شادی کر لی اور اب ہم خوش و خرم رہ رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.