پاکستان تحریک انصاف کس سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے؟ 

image
پاکستان میں سیاسی بحران کے خاتمے اور انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات کو ہی واحد حل قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ مذاکرات کون کس سے کرے گا اس کا فیصلہ کافی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ 

حکمراں اتحاد ہو یا اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان کے بیانات آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس سے مذاکرات کے لیے درکار ماحول ہر دوسرے روز متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 

سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کا مقدمہ آنے سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ حکومت میں شامل جماعتوں سے مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ وہ بے اختیار ہیں۔ خود عمران خان اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’انہوں نے مذاکرات کے لیے صدر عارف علوی اور ہاشم ڈوگر کے ذریعے آرمی چیف کو پیغامات بھجوائے لیکن ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔‘

سپریم کورٹ کی جانب سے ایک روڈ میپ ملنے کے بعد حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تین ادوار ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور پُرتشدد واقعات کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ 

عمران خان نے پارٹی رہنماوں کے خلاف کریک ڈاون، ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کے بعد بار بار سوشل میڈیا پر اپنے خطابات میں کہا کہ اب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ 

چیئرمین پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا نوٹیفکیشن سنیچر کو پارٹی کے آفیشل لیٹر ہیڈ پر پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان کے دستخط سے جاری کیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ’مذاکراتی کمیٹی‘ کے ارکان میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر، حلیم عادل شیخ، عون عباس بپی، مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔

جاری کیے گئے بیان اور نوٹیفکیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی یہ کمیٹی کس سے مذاکرات کرے گی۔

تاہم اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد حکمراں اتحاد کی جانب سے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان سامنے آ گیا۔ اس سلسلے میں پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں صاف صاف کہہ دیا کہ تحریک انصاف سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تحریک انصاف سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔ 

بات چیت صرف سیاست دانوں سے کی جاتی ہے۔

شہدا کی یادگاروں کو جلانے والے، ملک کو آگ لگانے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے گروہ سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔

— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) May 27, 2023

اس حوالے سے شہباز شریف نے بھی نواز شریف کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقا میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مزاکرت کی میز پر بیٹھے اور قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا۔‘

’تاہم یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انتشار اور جلاؤ گھیراؤ پھیلانے والے ایسے لوگ جو خود کو نام نہاد سیاست دان کہلواتے ہیں، مذاکرات کے اہل نہیں ہو سکتے۔ ان کا ان کے عسکریت پسندانہ اقدامات کے لیے احتساب ہونا چاہیے۔ اور یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔‘

مزاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقاء میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں. تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مزاکرت کی میز پر بیٹھے اور قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا.

تاہم یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انتشار اور جلاؤ گھیراؤ…

— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) May 30, 2023

بدھ کو عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے آئے تو اردو نیوز نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ نے مذاکراتی کمیٹی حکومت سے مذاکرات کے لیے بنائی ہے یا اسٹیبلشمنٹ سے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم دونوں سے بلکہ سب سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

جب کہا گیا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت شدت پسند ہے اور آپ سے مذاکرات نہیں ہوں گے تو سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں۔‘

اس کے بعد بھی عمران خان متعدد بار سوشل میڈیا پر خطاب کے لیے آئے اور مذاکرات پر زور دیا۔ 

جس کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ’اگر سنجیدہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف وزیراعظم شہباز شریف سے ہی ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت سمیت سب سے مذاکرات کی بات کے باوجود ان کی جماعت کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ 

اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہیں ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔‘

ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہیں ہیں۔

آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

— Hammad Azhar (@Hammad_Azhar) June 2, 2023

خیال رہے کہ عمران خان کی تشکیل دی گئی کمیٹی کے اہم رکن پرویز خٹک پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں اکثریت گرفتار ہے۔ جس کے باعث فی الحال مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات صرف اس وقت ہی ہو سکتے ہیں اور ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے جب پی ٹی آئی سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو بہتر حل کی طرف لے جانے کے لیے یکسو ہوگی۔ 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.