راولپنڈی سازش کیس: مقدمے کے کردار اعلیٰ فوجی افسران اور دانشور کیا چاہتے تھے اور نتیجہ کیا نکلا؟

سنہ 1951 میں ماہِ فروری کا یہ آخری جمعہ تھا جب راولپنڈی کی فوجی چھاؤنی میں واقع کرِیگ روڈ پر ایک جنرل کی سرکاری رہائش گاہ میں درجن بھر کے قریب فوجی افسران، ایک جنرل کی بیوی اور کمیونسٹ پارٹی کے تین دانشور عشائیے پر جمع ہوئے۔ وہاں مبینہ طور پر ایک اجلاس ہونا طے پایا تھا۔
لیاقت علی خان
Getty Images

آج سے ٹھیک 30 سال قبل یعنی 5 جون 1993 کو راولپنڈی سازش کیس کے مرکزی کردار جنرل اکبر خان وفات پا گئے تھے۔ راولپنڈی سازش کیس کیا تھا اور جنرل اکبر، جو اس وقت چیف آف جنرل سٹاف کام کر رہے تھے، کا اس میں کیا کردار تھا، اس حوالے سے یہ تفصیلی رپورٹ پڑھیے جو پہلی مرتبہ 10 مارچ 2021 کو شائع ہوئی تھی۔

سنہ 1951 میں ماہِ فروری کا یہ آخری جمعہ تھا جب راولپنڈی کی فوجی چھاؤنی میں واقع کرِیگ روڈ پر ایک جنرل کی سرکاری رہائش گاہ میں درجن بھر کے قریب فوجی افسران، ایک جنرل کی بیوی اور کمیونسٹ پارٹی کے تین دانشور عشائیے پر جمع ہوئے۔ وہاں مبینہ طور پر ایک اجلاس ہونا طے پایا تھا۔

اجلاس میں مبینہ طور پر یہ تجویز زیرِ بحث آئی کہ آیا موجودہ حکومت کا تختہ الٹا جائے جو کہ اُس وقت امریکی بلاک میں شامل ہو چکی تھی۔ 23 فروری کی شام آٹھ گھنٹوں پر محیط طویل اجلاس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اگر کوئی سازش کا منصوبہ تھا تو اُس پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔ اِس عشائیے کے شرکا اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے اور میزبان سونے چلے گئے۔

اسی واقعے کے بارے میں سرکاری موقف کچھ یوں تھا کہ سازش میں شریک ایک پولیس انسپکٹر مخبر بنا اور یوں ’سازش‘ پکڑی گئی۔ اس اجلاس کے دو شرکا نے بعد میں فوج کے کمانڈر ان چیف کو اطلاع دی کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی ہے اور اطلاع دینے والے وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

البتہ سابق بیوروکریٹ حسن ظہیر کی کتاب 'دی ٹائمز اینڈ ٹرائل آف دی راولپنڈی کانسپیریسی 1951'کے مطابق، صوبہ سرحد کی پولیس کے ایک انسپکٹر نے اس واقعے کی مخبری اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد، آئی آئی چندریگر کو کی تھی جس کے بعد 'سازش' پکڑی گئی۔

پھر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے 14 دن بعد، نو مارچ 1951کو حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کا انکشاف کیا اور کہا:

'کچھ ہی دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش پکڑی گئی ہے۔ اس سازش کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر افواجِ پاکستان کی وفاداری کو بھی ملیامیٹ کر دیا جائے۔‘

'حکومت کو ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہو گیا، چنانچہ اس سازش کے سرغنوں کی گرفتاری آج ہی عمل میں آئی ہے۔ یہ افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈیر کمانڈر متعین کوئٹہ، بریگیڈیئر ایم اے لطیف، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور میجر جنرل اکبر خان کی بیگم، مسز اکبر خان (نسیم جہاں شاہنواز) ہیں۔‘

'اس سے پہلے کہ سازش کی جڑیں مستحکم ہوتیں، یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بارے میں سُن کر جس طرح مجھے ازحد صدمہ ہوا ہے، اسی طرح عوام کو بھی شدید رنج ہوا ہو گا۔'

مزید پڑھیے:

پاکستان کے پہلے وزیر قانون جنھوں نے اپنے آخری ایام انڈیا کی جھگیوں میں گزارے

نظریہ پاکستان کی مخالفت کا الزام: حیدرآباد سازش کیس کی حقیقت کیا تھی؟

فیض کی آمریت مخالف نظم ’ہندو مخالف‘ کیسے بن گئی

وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے جس ’سازش‘ کا اعلان کیا تھا وہی بعد میں 'راولپنڈی مقدمہ سازش‘ کہلایا کیونکہ اس مبینہ سازش میں شریک چار شہریوں اور باقی 11 فوجی افسران پر مقدمہ چلانے کے لیے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں ایک خصوصی ٹریبیونل قائم کرنے کے لیے نیا قانون بنایا گیا تھا جو ’راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ (سپیشل ٹریبیونل) 1951‘ کہلایا۔

گرفتار ہونے والے افسران کو توقع تھی کہ ان کا فوجی قانون کے تحت کورٹ مارشل ہو گا اور فوری طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ بصورت دیگر انھیں غداری کے قوانین کے تحت سخت سزا دی جائے گی۔ تاہم سویلین اور فوجی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اس سازش میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک نیا قانون بنایا جائے۔

لہٰذا مبینہ سازش کے ملزمان کی گرفتاریوں کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد، خصوصی عدالت کے قیام کے لیے قانون سازی کی گئی۔ یہ قانون صرف اس سازش کے مقدمے کی سماعت کے لیے بنایا گیا تھا۔ قانون پر نظر رکھنے والے بلاگر چوہدری محمد یوسف لکھتے ہیں: 'یہ ہر لحاظ سے امتیازی قانون تھا۔ ایک اچھی حکومت اس طرح کے قانون نہیں بناتی۔'

پاکستانی مؤرخ اور امریکہ کی ٹفٹ یونیورسٹی کی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ جلال نے اس مبینہ 'سازش' کا بعد میں برطانیہ اور امریکہ کی 'ڈی کلاسیفائیڈ' دستاویزات کی روشنی میں تجزیہ کیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ 'راولپنڈی سازش کیس اُس زمانے کے برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں کی سازش کا نتیجہ تھی جس کے ذریعے انھوں نے پاکستان میں ایک طرف تو نئی ابھرتی ہوئی قوم پرست اور محب الوطن فوجی قیادت کو برباد کیا تو دوسری جانب کمیونسٹ تحریک کو روند ڈالا۔

’قوم پرست فوجی افسران اور کمیونسٹ اُس دور کی عالمی سرد جنگ کے پسِ منظر میں اس خطے میں سامراجی مفادات کے حصول کی راہ میں ایک بڑا خطرہ تھے۔‘

یونیورسٹی آف میشیگن کی ایک ریسرچر ایسٹیلا ڈرائی لینڈ سنہ 1992 میں شائع ہونے والے اپنے مقالے کے مقدمے میں اس بارے میں لکھتی ہیں کہ مارچ سنہ 1951 اس سازش کے انکشاف کے وقت گرفتار ہونے والے لوگوں میں لاہور کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض واحد سویلین تھے جو اس مبینہ فوجی انقلاب کی سازش میں شامل تھے۔ (سجاد ظہیر کو بعد میں گرفتار کیا گیا تھا)۔

اسی پس منظر میں کراچی کے اخبار ڈان کے مطابق 'وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے الزام عائد کیا کہ ان لوگوں نے ایک ایسی سازش تیار کی تھی جس سے پاکستان کی بنیادیں منہدم ہو جاتیں۔'

اخبار نے 10 مارچ کے اداریے میں مبینہ منصوبےکے بارے میں لکھا کہ 'ایک ایسی سازش جس کا مقصد تشدد کے ذریعے ملک بھر میں افراتفری پھیلانا تھا اور پاکستان کی دفاعی افواج کی وفاداری کو تباہ و برباد کردینا تھا۔'

پاکستانی پریس کا رویہ

سازش کے الزام یا انکشاف کے بعد اخبارات کے رویوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگلے دن 18 بڑے قومی اخبارات نے ایک ہی اداریہ شائع کیا جو روزنامہ ڈان کے تمام شماروں میں سُرخ رنگ میں چھپا تھا۔

اس میں سب نے 'اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اس باغیانہ فعل کی کوشش پر کراہت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا گیا۔۔۔۔۔۔'

روزنامہ ڈان کی اس اشاعت میں فیض کے اخبار 'دی پاکستان ٹائمز' کے قائم مقام ایڈیٹر مظہر علی خان نے بھی کہا کہ 'یہ الزامات اتنے سنگین ہیں کہ اگر یہ درست ہیں تو پھر جرم سرزد کرنے والوں کو کوئی پاکستانی معاف کرے گا نہ انھیں ہلکا سمجھے گا۔'

پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک منفرد واقعہ تھا کہ 18 قومی اخبارات کے مُدیران چند گھنٹوں کے نوٹس پر کراچی میں جمع ہو گئے، ان میں سے کچھ تو ڈھاکہ، لاہور اور پشاور سے کراچی لائے گئے۔ اِن سے روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین نے اُسی شام خطاب کیا اور ایک قرارداد سب کے سامنے پیش کی جسے شرکا نے بغیر سوال کیے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اگلے روز وزیراعظم کا بیان اور مدیرانکی قرارداد اکھٹی فرنٹ پیجز پر شائع ہوئیں۔'

ملک کے اندر اور بیرون ملک پاکستان سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لندن، انڈیا، آسٹریلیا، اور کئی اور ممالک کے اخبارات نے اس فوجی انقلاب کی خبر کو جلی سُرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔

اسی ماہ کی 15 تاریخ کو یعنی سازش کے انکشاف کے چھ روز بعد، روزنامہ ڈان نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کا یہ بیان شائع کیا:

'اس سازش کا سرغنہ میجر جنرل اکبر خان اور اس کا رفیقِ خاص، بریگیڈیر ایم اے لطیف تھا۔ ان کے ساتھ چند فوجی افسران اور سویلین بھی اس سازش میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ 'انھوں نے کمیونسٹوں اور دیگر انقلابی عناصر کے ساتھ مل کر طاقت کے استعمال کا منصوبہ بنایا تھا۔'

ایوب خان 1954
Getty Images
جنرل ایوب خان دیگر فوجی افسران کے ہمراہ

مولوی محمد اسحاق کا فتویٰ وجوبِ قتل

مشرقی بنگال کے اپنے وقت کے معروف عالمِ دین مولانا محمد اسحاق نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ اگر وزیرِاعظم اس جرم کی حقیقت کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ سازش واقعی موجود تھی تو اُنھیں مقدمہ چلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سازش میں ملوث افراد کو فوراً سزائے موت دے دینی چاہیے۔

وزیرِ اعظم نے مولانا محمد اسحاق کی رائے سے اتفاق کیا اور بیان دیا کہ 'عام شہری اور فوج کے حلقوں میں یہ عمومی تاثر ہے کہ سازشیوں کو بغیر کسی مقدمے کے گولیاں مار دی جائیں۔'

ادی واسی اچھوت لیگ بنگال کی تائید

اس وقت کے مشرقی پاکستان کی ادی واسی اچھوت لیگ نے جو ہندو اقلیتوں کی نچلی ذات کے افراد کی جماعت تھی کہا کہ کیونکہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی قوانین ہیں 'اس لیے ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بنیادی قانون کے مطابق مقدمہ چلائے اور اس کے مطابق سزائیں دے۔ اسلام منافق سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم دیتا ہے اور منافقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے لوگ سبق حال کر سکیں۔ اس سے پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔'

اس قسم کی جماعتوں اور علما کے بیانات شائع ہونےکے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوری سزاؤں کے مطالبے کو کس طرح ایک عوامی مطالبہ بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

مبینہ سازش درست ثابت کرنے کی کوشش

سرکاری موقف ہمیشہ یہی تھا کہ سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کیونکہ اُس وقت تک پاکستان میں 1935 والا آئین موثر تھا اس لیے الزام میں یہ کہا گیا تھا کہ 'ملکہ کی حکومت کو غیر قانونی طریقے اور تشدد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔'

تمام اخبارات نے اس کہانی کو سازش ہی کہہ کر پیش کیا۔ سازش کو چیلنج کرنے والے بیانیے کو کسی نے شائع کرنے کی جرات کی نہ ہی اس کی عملاً اجازت تھی۔

اس سازشی بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے 'راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ 1951' میں سنہ 1952 میں ایک ترمیم بھی متعارف کرائی گئی جس کے ذریعے حکومت کو تو یہ اختیار تھا کہ وہ اس مقدمے سے متعلقہ جو معلومات چاہے شائع کر سکتی ہے لیکن ملزمان یا کوئی اور حکومتی موقف کے علاوہ کچھ بھی شائع نہیں کر سکتا تھا۔

اس طرح کے ماحول میں اس سازش کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہی انداز قومی ذہن میں راسخ ہو گیا۔ اس دوران اکثر فوجی یا فوج کے حامی لکھاریوں نے سازش کے بیانیے کو ہی تقویت دی۔

تاہم دوسری جانب بہت کم 'آزاد' دفاعی تجزیہ نگاروں نے سنہ 1947 اور 1948میں کشمیر میں ہونے والی فوجی کارروائیوں پر تحریریں لکھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن تحریروں میں جنرل اکبر اور اُن کے ساتھیوں کے ہیرو بننے کا خدشہ تھا۔

سنہ 1998 میں ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر حسن ظہیر نے اس مقدمے کی دستاویزات شائع کرنے کی اجازت حاصل کر کے ایک کتاب لکھی اور یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ سازش کا مقدمہ درست تھا، تاہم مورخ ڈاکٹر عائشہ اس نظریے سے متفق نہیں، وہ کہتی ہیں کہ 'اگر سازش کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کیا جائے، حکومتی پالیسیوں سے ناراض لوگوں کی بحثوں کی بنیاد پر سازش تو ثابت نہیں کی جا سکتی۔'

مبینہ سازش کے کرداروں کا احوال

یہ وہ وقت تھا جب ’سازش‘ کے بنیادی کردار میجر جنرل اکبر خان چیف آف جنرل سٹاف تھے اور اُس وقت کشمیر میں جنگ کی وجہ سے فوج میں اور عوام میں ایک منفرد شہرت حاصل کر کے 'جنرل طارق' کے نام سے مقبول تھے۔

فیض احمد فیض پاکستان ٹائمز کے مدیر تھے جو کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں سے ہمدردی رکھتے تھے، لیکن دائیں بازو کے لوگ انھیں آج بھی کمیونسٹ لکھتے ہیں۔ اور سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری تھے۔ ان کے ہمراہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک اور رہنما محمد حسین عطا بھی شامل تھے۔ یہ بھی بعد میں مشرقی پاکستان سے سب سے آخر میں گرفتار ہوئے تھے۔

اس مبینہ سازش کے ایک ملزم ظفراللہ پوشنی نے (جو مئی سنہ 1951 میں ایک کیپٹن کی حیثیت سے گرفتار ہوئے تھے) اپنی کتاب میں مقدمے کی فردِ جُرم کی تفصیلات لکھی ہیں۔ فرد جُرم 15 افراد پر عائد کی گئی تھی۔

ان تما م افراد کا موقف تو ہم آپ کے سامنے بعد میں رکھیں گے، اس سے پہلے ان سب کا مختصر تعارف ضروری ہے۔

میجر جنرل محمد اکبر خان کون تھے؟

سنہ 1912 میں چارسدہکے علاقے اُتمانزئی میں پیدا ہونے والے محمد اکبر خان نے سنہ 1935 میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ سیلون میں فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا اور دوسری عالمی جنگ میں برما میں دشمن کے حملے کے مقابلے کے دوران غیر معمولی شجاعت، حاضر دماغی اور پیشہ ورانہ قیادت کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوری رجمنٹ کو بچانے کی وجہ سے ڈسٹنگوِشڈ سروس آرڈر (ڈی ایس او) کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

دونوں عالمی جنگیں ملا کر یہ اعزاز شاید دو درجن افسران کو دیا گیا تھا۔ بعد میں یہ اعزاز پاکستانی حکومت کے کہنے پر برطانوی حکومت نے سنہ 1956 میں ضبط کر لیا تھا۔ انھیں کے ہمراہ چھ اور افسران کے ملٹری کراس اور او بی ای کے اعزازات بھی ضبط کر لیے تھے۔

برطانوی خفیہ دستاویزات کے مطابق پھر سنہ 1973 میں جب جنرل اکبر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر بنے تو اُن کی خواہش کی تکمیل پر اور پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے برطانوی حکومت نے ان کا یہ اعزاز بحال کردیا تھا (جنرل اکبر کی تحریری درخواست ان دستاویزات میں کہیں موجود نہیں تھی)۔

اکبر خان سنہ 1947 میں پاکستان آرمی میں لیفٹیننٹ کرنل کی حثیت سے شامل ہوئے۔ کشمیر کی جنگ میں بریگیڈیر کی حیثیت سے جنگ لڑی اور 'جنرل طارق'کے نام سے شہرت حاصل کی۔ اس وقت کے برطانوی افسروں کے بارے میں ان خفیہ دستاویزات میں لکھا ہے کہ وہ اُس وقت پاکستان کی فوج کے سب سے زیادہ قابل افسر تھے۔

مارچ 1951 میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر انھیں برطرف کر دیا گیا۔ راولپنڈی سازش کیس کی عدالت کی جانب سے 12 برس قید کی سزا پانے کے بعد سنہ 1955 میں قانون کے کالعدم ہو جانے کی وجہ سے رہا کر دیا گیا لیکن پھر فوراً ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

انھیں بعد میں آخر کار رہائی مل گئی۔ سنہ 1967 میں جنرل اکبر خان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بھٹو کی پہلی حکومت کے سلامتی کے امور کے مشیر بنے۔ جنرل اکبر کا سنہ 1993 میں انتقال ہوا۔ جنرل اکبر نے 'ریڈرز اِن کشمیر' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں انھوں نے راولپنڈی سازش کیس کو ایک 'کارٹون کہانی'کہہ کر ایوب خان کو اس کا 'میرِ رقص' کہا۔

میجر جنرل نذیر احمد

میجر جنرل نذیر احمد صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور انھیں فوج میں اعلیٰ پیشہ ورانہ خدمات کے باعث بہت تیزی سے ترقیاں ملیں اور وہ پاکستان کی آزادی سے پہلے بریگیڈیر بن گئے۔ جون 1948 میں کشمیر کے اُڑی سیکٹر کے کمانڈر بھی رہے اور انھیں عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی گئی تھی جو کہ ایک علامتی سزا تھی۔ تاہم انھیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ انھیں آزادی کے بعد بھی پاکستانی فوج کو برطانوی مفادات کے لیے استعمال کرنے پر سخت اعتراض تھا۔

ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ

ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ کا تعلق جہلم سے تھا۔ وہ آزادی کے وقت پاکستان ایئر فورس کے سینیئر ترین افسر تھے۔ رائل انڈین ایئر فورس میں وہ سکواڈرن کمانڈر رہے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگ میں حصہ بھی لیا۔

انھیں بھی راولپنڈی سازش کیس میں سزا دی گئی تھی اور ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا۔ وہ سنہ 1955 میں رہا ہوئے اور اس کے فوراً بعد برطانیہ روانہ ہو گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کی وفات بھی برطانیہ میں ہوئی۔

انھوں نے 'پریویلِجڈ وِٹنیس'کے نام سے اپنی سوانح عمری لکھی جس میں انھوں نے راولپنڈی سازش کے وجود سے انکار کیا۔ اپنی کتاب میں انھوں نے انکشافات کرتے ہوئے لکھا کہ برطانیہ نے کشمیر میں کیا کردار ادا کیا تھا اور خطے میں عدم استحکام کس طرح پیدا کیا تھا۔

بریگیڈیر ایم اے لطیف

بریگیڈیر ایم اے لطیف کا تعلق انڈیا کی ریاست بھوپال سے تھا۔ انھوں نے فوج میں سنہ 1936 میں شمولیت اختیار کی تھی۔

انھیں دوسری عالمی جنگ کے دوران برما کے محاذ پر شجاعت دکھانے کی وجہ سے ملٹری کراس ملا تھا۔ تقسیم کے وقت وہ پاکستانی فوج میں شامل ہوئے اور کشمیر کی جنگ میں شریک بھی ہوئے اور اسی دوران ان کی جنرل اکبر سے ملاقات بھی ہوئی۔

وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول بنانے والے ابتدائی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔ سنہ 1950 میں بریگیڈیئر بنے۔ سنہ 1951 میں نو مارچ کو گرفتار ہوئے تھے اور اُسی دن انھیں برطرف کر دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب مبینہ طور پر ان سے ذاتی حیثیت میں ناراض تھے کیونکہ اِنھوں نے کوئٹہ میں جنوری سنہ 1951 میں، گرفتاری سے ایک ماہ پہلے، ایک ملاقات میں کمانڈر اِن چیف کے برطانوی مفادات کی حفاظت والے منصوبوں پر سخت بحث کی تھی۔ ان منصوبوں میں روس کے خلاف جنگ کی تیاری اور برطانیوں مفادات کے تحفظ کے لیے ایران کی تیل کی تنصیبات پر قبضہ کرنا شامل تھا۔

برگیڈیئر صادق خان

بریگیڈیئر صادق خان کا تعلق ضلع راولپنڈی کے معروف قصبے کہوٹہ سے تھا۔ انھوں نے ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون سے تربیت حاصل کی تھی اور سنہ 1936 میں فوج میں شامل ہوئے تھے۔ سنہ 1948 میں پونچھ سیکٹر میں فوجی کمانڈر تھے۔ ٹریبیونل نے انھیں قید بامشقت کی سزا دی۔ ان کی وفات سنہ 1995 میں ہوئی۔

لیفٹیننٹ کرنل ضیاالدین

لیفٹیننٹ کرنل ضیاالدین میر پورخاص سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بہترین خدمات کی وجہ سے انھیں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ سنہ 1949 میں یہ کشمیر کے ایک محاذ پر کمانڈر تھے۔ ان کو بھی ٹریبیونل نے قید بامشقت کی سزا دی تھی اور ملازمت سے برطرف کیا تھا۔

لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب

لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب پشاور کے قریب ایک علاقے تیخا بالا کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ڈیرہ دوُن سے کمیشن حاصل کیا۔ ان کا جنرل اکبر سے تعارف بریگیڈیر صادق خان کے ذریعے ہوا تھا۔ انھیں بھی قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی۔ سزا بھگتنے کے کافی عرصے بعد یہ سیاست میں آ گئے اور جنرل ضیا کی کابینہ میں وزیر بھی بنے تھے۔

میجر اسحاق محمد

میجر اسحاق محمد کا تعلق جالندھر سے تھا۔ یہ سنہ 1948 میں جنرل اکبر کے بارامولا محاذ پربریگیڈ میجر تھے۔ انھیں قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی۔

یہ بھی سنہ 1955 میں رہا ہوئے۔ میجر اسحاق طبیعتاً غصیلے تھے۔ مقدمے کے دوران ٹریبیونل کے ایک جج نے ایک مرتبہ انھیں کہا 'میں تمھیں سیدھا کر دوں گا' تو جواب میں کہا 'مائی لارڈ، گو اہیڈ!'۔

میجر اسحاق نے جیل میں فیض احمد فیض کی شاعری کی ایک کتاب 'زنداں نامہ'کا دیباچہ 'رودادِ قفس' کے عنوان سے لکھا۔ اس دوران ان کی فیض احمد فیض سے گہری دوستی ہو گئی تھی۔ فیض نے میجر اسحاق کے انتقال پرایک نظم لکھی تھی جو اب ادب کا حصہ بن گئی ہے:

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے

باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمان وفا اور

میجر حسن خان

میجر حسن خان کا تعلق گلگت سے تھا۔ بعض دستاویزات میں ان کا نام میجر حسین خان بھی لکھا گیا ہے۔ انھوں نے کشمیر فورسز میں سنہ 1937 میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن بعد میں ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون سے برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔

دوسری عالمی جنگ میں برما کے محاذ پر بہادری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں ملٹری کراس دیا گیا تھا۔ سنہ 1947 جموں کشمیر میں انڈین فوج کی آمد کے بعد مقامی سطح پر بغاوت کرانے میں انھوں نے اہم کردار اداکیا تھا۔ یہ سنہ 1951 میں پونچھ سیکٹر میں تعینات تھے۔ انھیں قیدِ بامشقت کی سزا دی گئی تھی۔

کیپٹن خضر حیات

کیپٹن خضر حیات جہلم سے تعلق رکھتے تھے۔ جنرل اکبر خان کی بریگیڈ کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ یہ لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب کے ماتحت کام کرتے تھے۔ انھیں بھی قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی۔

کیپٹن ظفراللہ پوشنی

کیپٹن ظفراللہ پوشنی کا امرتسر کے ایک گھرانے سے تعلق تھا اور فوج کی سگنلز برانچ میں تعینات تھے۔

مبینہ سازش کے وقت یہ راولپنڈی میں تھےاور انھیں اسی سال مئی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ میجر اسحاق کے ساتھ کام کرتے تھے اور جنرل اکبر سے ان کی پہلی ملاقات 23 فروری کو ہوئی تھی۔

کیپٹن پوشنی کو قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی۔ انھوں نے اپنی قید کے بارے میں ایک کتاب 'زندگی زنداں دلی کا نام ہے'کے عنوان سے لکھی تھی۔ جس کا اب انگریزی ترجمہ 'جیل اِنٹروڈر' بھی آ چکا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں سازش کے وجود کی تردید کی ہے۔

بیگم نسیم اکبر

بیگم نسیم اکبر لاہور کے ایک علاقے باغبانپورہ کے ایک بڑے ارائیں سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ اُس وقت کے ایک معروف سیاستدان میاں افتخار الدین کی کزن تھیں۔

ان کے والد میاں شاہنواز کیمبرج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل معروف وکیل تھے، والدہ بیگم جہاں آرا شاہنواز تھیں جو نہ صرف مسلم لیگ کی واحد خاتون تھیں جنھوں نے سنہ تیس کی دہائی میں لندن میں ہونے والی تینوں راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز میں شرکت کی تھی بلکہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی واحد خاتون رکن بھی تھیں۔

ان کے نانا سر محمد شفیع آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی ارکان میں شامل تھے اور محمد علی جناح سے چند ایک سیاسی معاملات پر اختلافات کے باوجود اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ ایسے خاندان سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ نسیم کافی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔

بیگم نسیم اکبر شعر و ادب میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں اور اس کے علاوہ اُس زمانے کے دیگر پڑھے لکھے اشرافیہ کے نوجوانوں کی طرح برطانوی سامراج کے خلاف تحریک میں شامل تھیں جو سوشلسٹ نظریات کی صورت میں سامنے آئی تھی۔

یہ اپنے شوہر جنرل اکبر خانکے ہمراہ گرفتار کی گئی تھیں۔ بیگم نسیم اکبر کو دو برس قید میں رکھنے کے بعد ٹریبیونل نے بری کر دیا تھا۔ اپنے شوہر کی رہائی کے بعد وہ ان کے ساتھ سنہ 1959 تک رہیں لیکن بعد میں ان کے درمیان علحیدگی ہوگئی تھی۔

سازش کا الزام لگانے والوں نے اُنھیں اس سازش کا بنیادی محرک قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ سازش کی خبر کے آنے کے بعد جب برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ملک میں اس مبینہ سازش کا مراسلہ لکھا تو اُس نے بیگم نسیم اکبر کے 'ایمبیشس' ہونے کو اس کا سبب قرار دیا۔

پاکستانی فوجی تاریخ کے ایک مؤرخ میجر جنرل سید علی حامد اپنے والد کے حوالے سے لکھتے ہیں جو کہ خود اس وقت آئی ایس آئی کے سینئر افسر تھے، کہ 'جنرل گریسی نے کہا تھے کہ مجھے اکبر پر ترس آتا ہے، ایک نفیس سپاہی جو اپنی بیوی کی وجہ سے نقصان اٹھائے گا۔'

ایک برطانوی جنرل کا ایسا کہنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن بعد میں پاکستانی سرکاری تجزیہ نگاروں اور مؤرخین کا نسیم جہاں کو ایک منفی کردار بناکر پیش کرنا پوری کہانی کو مسخ کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

شاید یہ بہت مبالغہ آرائی ہو کیونکہ جنرل اکبر جیسے اپنے وقت کے 'کشمیر کے ہیرو' کی حیثیت سے مقبول ترین افسر پر جب سازش بنانے کا مقدمہ چلایا گیا تو اس کی وجہ کوئی ایسی بھی تو گھڑی جانی تھی جو اسے ایک 'رن مرید' ثابت کر سکے تاکہ ایک ہیرو کا بُت توڑا جا سکے۔

اس کے لیے نسیم کو سرکاری دستاویزات اور سرکاری پراپیگنڈا میں 'تختِ ستم' بنایا گیا۔ اس زمانے میں حکومت کے حامی میڈیا نے جنرل اکبر پر سازش کا الزام عائد کر کے اُن کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی وہیں ایک بات کا تکرار کے ساتھ ذکر کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے زیرِ اثر تھے۔

شاید انہیں بیوی کے 'زیرِ اثر' دکھا کر اُن کی بیوی کو ایک بری عورت اور انھیں ایک کمزور مرد ثابت کرنے مقصود تھا جو شاید اُس زمانے کے پدرشاہی معاشرے میں کسی کو بدنام کرنے کا ایک آسان طریقہ کہا جا سکتا تھا۔

بعد میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں اور سنہ 1971 میں خواتین کے لیے محفوظ نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئی تھیں۔ سنہ 1972 کی قومی اسمبلی میں ان کا نام بیگم نسیم جہاں کے طور پر درج ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کی ایک جدید سوچ اور نظریات والی خاتون تھیں جنھوں نے اپنا تعارف صرف اپنی ماں کے نام کے ساتھ کرایا۔

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ اردو کے مقبول ترین ترقی پسند شاعر جن کا انجمن ترقی پسند مصنفین سے گہرا تعلق تھا۔

اکثر افراد انھیں کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی سمجھتے ہیں، جبکہ وہ اُن کے ہمدرد ضرور تھے لیکن رکن نہیں تھے۔

وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اس دور کے ساتھی تھے جب اُ سے سنہ 1936 میں سجاد ظہیر نے منظم کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ ان دنوں وہ امرتسر کے ایک کالج میں پڑھاتے تھے، اسی لیے شاید حسن ظہیر نے اپنی کتاب میں ان کی جائے پیدائش امرتسر لکھی ہے۔

فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ٹریڈ یونین فیڈریشن آف پاکستان کے نائب صدر بھی تھے۔ انھیں لاہور میں ان کے گھر سے ایک متروک قانون، بنگال ریگیولیشن ایکٹ 1818 کے تحت نو مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فیض کو پانچ برس کی سزا دی گئی تھی۔ وہ بھی سنہ 1955 میں رہا ہوئے تھے۔

سجاد ظہیر

سجاد ظہیر کا تعلق لکھنؤ کے اشرافیہ خاندان سے تھا۔ اُن کے والد الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے تھے۔

سنہ 1930 کی دہائی میں جب آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تو انھوں نے دیگر دوستوں کے ہمراہ جن میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور مُلک راج آنند بھی شامل تھے، انڈیا کی مختلف زبانوں میں ترقی پسندی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی تھی، جس کے پہلے سربراہ اپنے وقت کے معروف افسانہ نگار، منشی پریم چند تھے۔

وہ انڈیا کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے آغاز کے لیے سنہ 1947 میں پاکستان آئے۔ انھیں راولپنڈی سازش کیس کے اعلان کے بعد اپریل میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انھیں قید کی سزا دی گئی تھی۔ وہ سنہ 1955 میں رہائی کے بعد انڈیا چلے گئے اور پھر پاکستان واپس نہیں آئے۔

محمد حسین عطا

محمد حسین عطا کا موجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہزارہ سے تھا۔ وہ اس وقت کی صوبائی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔ یہ اس مبینہ سازش کے سب سے آخر میں گرفتار ہونے والے کردار تھے۔ انہیں اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بھی قید کی سزا دی گئی تھی۔

’سازش‘ کا مخبر

راولپنڈی سازش سے متاثر ہونے والے کرداروں میں جنھوں نے اپنی کتابیں لکھی ہیں انھوں نے اس سازش کے وجود سے انکار کیا ہے۔

اُن کی جانب سےاس مقدمے کے بارے میں حکومت تک جو بھی معلومات یا خبریں پہنچیں ان کا ذمہ دار مختلف افسران کو قرار دیا گیا۔

تاہم استغاثہ نے صوبہ سرحد کی پولیس کے ایک افسر، اسسٹنٹ سب انسپیکٹر عسکر علی شاہ کا نام اس سازش کے اصل مخبر کے طور پر پیش کیا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ اپنے تئیں کشمیر میں لشکر کو منظم کرنے گئے تھے جس نے کشمیر میں حملہ کیا تھا اور اُن ہی دنوں ان کی جنرل اکبر، جو اُس وقت کرنل تھے اور اُڑی محاذ پر تعینات تھے، سے ملاقات ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

نواب آف کالا باغ: سیاہ و سفید کے مالک سیاستدان جو اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوئے

کماؤں کی 'برہمن' لڑکی جو پاکستان کی خاتونِ اول بنی

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

استغاثہ کے مطابق انکے جنرل اکبر سے قریبی تعلقات تھے اور یہ ان کے گھر بھی آتے جاتے تھے۔ یہ 23 فروری والے عشائیے میں شریک نہیں تھے لیکن انھی کی مخبری پر 23 فروری کی میٹنگ میں شریک ہونے والے کرداروں کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں گرفتار کیا گیا۔

استغاثہ کے مطابق جب 23 فروری کو مبینہ سازش کے لیے اجلاس ہو رہا تھا تو انسپٹر عسکر علی شاہ عین اُسی وقت پشاور میں ایک پولیس افسر کو اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے تھے۔

عسکر علی شاہ کے بھائی، سلطان علی شاہ فوج میں کرنل تھے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے کرنل کے ذریعے ان کے بھائی عسکر علی شاہ کو جنرل اکبر کے خلاف استعمال کیا۔ استغاثہ کے مطابق عسکر علی شاہ نے اس سازش کی اطلاع صوبہ سرحد کے گورنر آئی آئی چندریگر کو دی جنھوں نے وزیراعظم کو مطلع کیا اور وزیر اعظم نے جنرل ایوب خان کو اطلاع دی۔

باوجود اس کے کہ عسکر علی شاہ نے مبینہ سازش کی مخبری صوبہ سرحد کے گورنر کو دی تھی، یہ مقدمہ پنجاب پولیس کے حوالے کر دیا گیا جہاں ان دنوں اسکندر مرزا کے قریبی دوست، خان قربان علی خان، انسپکٹر جنرل تھے۔ عسکر علی شاہ کے تمام بیانات پولیس نے ریکارڈ کیے اور بعد میں مبینہ سازش کے کرداروں کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔

قربان علی خان نے انہی دنوں لیبر لیڈر مرزا ابراہیم کو ہتھکڑیاں لگوا کر گرفتار کروایا تھا جس پر فیض احمد فیض نے ان کے اس رویے کے بارے میں پاکستان ٹائمز میں ایک سخت اداریہ بھی لکھا تھا۔ بہرحال ابتدائی بیان کے بعد عسکر علی شاہ دوبارہ کہیں نظر نہیں آیا۔ استغاثہ اور تفتیشی افسران نے ٹریبیونل کو صرف اتنا بتایا کے تمام کوششوں کے باوجود عسکر علی شاہ کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔

کہا جاتا ہے کہ عسکر علی شاہ سے مبینہ طور پر زبردستی استعفیٰ لیا گیا جسے مقدمے کے مکمل ہونے تک کسی خفیہ جگہ پر رکھا گیا۔

وعدہ معاف گواہان

لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ

لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ افوج میں سنہ 1933 میں شامل ہوئے تھے اور اُن کا اُس وقت کے لائل پور سے تعلق تھا۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران مصر میں بھی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ ان کی جنرل اکبر سے ملاقات جون سنہ 1948 میں اُڑی، کشمیر کے محاذ میں ہوئی تھی۔ انھیں 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن انھوں نے وعدہ معاف گواہ بننا پسند کیا۔

ان کا اصرار تھا کہ سازش تیار ہوئی تھی تاہم اس سازش کے تمام ملزمان نے اس بات کی تردید کی تھی۔ استغاثہ نے یہ مقدمہ ان کی اور میجر یوسف سیٹھی کی گواہیوں کی بنیاد پر لڑا تھا۔

میجر یوسف سیٹھی

میجر یوسف سیٹھی نے انڈین آرمی میں ریزرو فورس کے افسر کی حیثیت سے سنہ 1938 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے خاندان کا تعلق پشاور سے تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں فوجی ڈیوٹی کے لیے طلب کر لیا گیا تھا۔ انھوں نے برماکے محاذ پر بھیجا گیا تھا۔

ان کی دوستی جنرل اکبر خان سے کافی عرصے سے تھی۔ میجر سیٹھی آزاد کشمیر فورس میں تعینات رہے۔

استغاثہ کے دیگر اہم گواہان

راولپنڈی سازش کا مقدمہ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی کی گواہیوں کی بنیاد پر لڑا گیا تھا۔ ان کے علاوہ میجر جنرل حیا الدین اور اس وقت بریگیڈیر حبیب اللہ بھی استغاثہ کے اہم گواہوں کی حیثیت سے پیش ہوئے۔

حبیب اللہ بعد میں معاہدہِ بغداد (سیٹو) کے فوجی کمانڈر بنے اور ترقی پا کر لیفٹیننٹ جنرل بھی بنے۔ یہ جلد ریٹائر ہو گئے تھے اور پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے پہلے افسر تھے جنھوں نے ملک میں ایک بڑی انڈسٹریل ایمپائر 'گندھارہ انڈسٹریز' بنائی تھی۔

ان کی بیٹی کی شادی صدر جنرل ایوب خان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب سے ہوئی تھی۔ ان کا اُس وقت کے صوبہ سرحد کے ایک بہت بااثر خاندان سے تعلق تھا۔ ان کی بہن کلثوم سیف اللہ اور ایک بھائی، یوسف خٹک ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

یہ بھی پڑھیے

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین

محمد علی جناح: معاملہ ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کا

کیا محمد علی جناح نے اپنی اکلوتی بیٹی کو عاق کردیا تھا؟

ان کے علاوہ بریگیڈیئر شیر خان بھی گواہان میں شامل تھے۔ انھوں نے جنرل اکبر خان کی کوہاٹ تبدیلیکے بعد کشمیر آپریشن کی کمان سنبھالی تھی جس کے بعد یہ کارروائی تقریباً ختم ہوگئی تھی۔

لیفٹننٹ کرنل گل معاذ جو بعد میں ترقی پا کر بریگیڈیئر بنے اور میجر اسداللہ خان نمازی جو جنرل اکبر خان کے ساتھ ان کے ماتحت کے طور پر اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ یہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ابتدائی دنوں میں اس میں تعینات ہوئے تھے۔

مبینہ سازشی کرداروں کا پیشہ ورانہ، نسلی و مذہبی پس منظر

اس سازش میں شریک تمام فوجی افسران اپنی پیشہ وارانہ قابلیت کی لحاظ سے ایک شاندار ریکارڈ رکھتے تھے۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا تھا تمام ہی افسران 'ڈیکوریٹڈ' تھے۔

حکومت پاکستان کے کہنے پر برطانوی حکومت نے انھیں سزائیں سنائے جانے کے بعد ان سب کے اعزازات سنہ 1953 میں ضبط کر لیے تھے۔ لیکن سنہ 1973 میں یہ اعزازات بحال کردیے گئے تھے۔

اس سازش میں ملوث 15 افراد مختلف نسلوں، مختلف علاقوں اور مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان افراد کے اتنے زیادہ مختلف ہونے کے باوجود ان میں مشترک بات کیا تھی؟ ظفراللہ پوشنی اپنی سنہ 1976 میں شائع ہونے والی کتاب 'زندگی زندہ دلی کا نام ہے' میں لکھتے ہیں کہ ان سب کا حکومت کی کشمیر اور خارجہ پالیسی سے اختلاف تھا۔

صحافی اور دانشور علی جعفر زیدی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب 'باہر جنگل اندر آگ' میں ایئر کموڈور جنجوعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 23 فروری کی اس میٹنگ میں شریک تمام افراد کمیونسٹ نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ سامراج دشمن اور محب وطن افراد تھے۔

'ان میں سے کچھ تو بقول سابق ایئر کموڈور جنجوعہ کمیونسٹ دشمن تھے۔ بریگیڈیئر لطیف تو تہجدگزار اور کمیونسٹ دشمن تھے، بریگیڈیر صادق تو نماز روزے کے پابند تھے، کرنل محمد ارباب کا کمیونزم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ کرنل ضیا الدین تہجد گزار اور کمیونزم دشمن تھے۔'

چارج شیٹ میں عائد الزامات

ظفراللہ پوشنی لکھتے ہیں کہ 'اس چارج شیٹ کی عبارت اور ترتیب اب مجھے صحیح یاد نہیں رہی کیونکہ اس واقعے کو خاصا عرصہ گزر چکا ہے۔ یوں بھی مقدمہ ختم ہونے کے فوراً بعد تمام متعلقہ کاغذات اور دستاویزات ہم سے واپس لے لی گئی تھیں، تاہم لبِ لباب ان الزامات کا یہ تھا کہ ان 15 ملزمان نے مختلف مواقع پر مل جل کر حکومت کا تختہ الٹنے کی سکیمیں بنائیں اور کابینہ کے فاضل ارکان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔'

'یہ دونوں افراد (کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی) عدالت میں استغاثہ کی جانب سے ملزموں کے خلاف پیش ہوں گے۔ مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعات 121، 121 اے، 124 بی، 120، 365، 302، 342 اور 120 کے تحت بنائے گئے تھے۔'

ان دفعات کے علاوہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 27 اے اور سی بھی ہم سب پر عائد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ چارج شیٹ میں اس مقدمے کے قانون کے مطابق یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'مقدمے کی کارروائی کے دوران میں اگر کوئی اور جرم ثابت ہو گیا تو ملزموں کو اس کے تحت بھی سزا دی جا سکتی ہے۔'

ظفراللہ پوشنی نے اپنی تصنیف میں کہا کہ 'اس رات (23 فروری) پنڈی سازش کیس کے ارکان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فیض اور سجاد ظہیر بھی اس غیر جمہوری عمل کے حق میں نہیں تھے، انھوں نے اس کے خلاف دلائل دیے۔ آٹھ گھنٹے کی تند و تیز بحث و تمحیص کے بعد بالآخر جنرل اکبر خان کے پیش کردہ منصوبے کو ناقابلِ عمل سمجھ کر رد کر دیا گیا۔'

منفرد عدالتی ٹریبیونل

گرفتار ہونے والے افسران اور غیر فوجی ملزمان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبیونل تشکیل دینے کےلیے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں قانون سازی کی گئی۔ ان ملزمان پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے ان کے تحت انھیں سزائے موت بھی دی جا سکتی تھی جس کی ان سب کو توقع بھی تھی۔

اس خصوصی ٹریبیونل کے قانون کا نام 'راولپنڈی کانسپیریسی (سپیشل ٹریبیونل) ایکٹ، 1951 قرار پایا۔ اس قانون کے تحت ملزمان کو کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا اور کسی بھی فیئر ٹرائل کے میعار سے اس قانون کو جائز نہیں کہا جاسکتا تھا۔

اس میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں تھا۔ یہ قانون ایک مقدمے کے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اس قانون میں نہ ضمانت کا حق تھا نہ جیوری کا۔

پاکستانی حکومت نے بعد میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن میں کئی یورپی ممالک کی ٹریڈ یونینز کی جانب سے داخل کی گئی شکایتوں پر یہ موقف اختیار کیا تھا کہ راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ، 1951 میں اپیل کا حق نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ایک رکن فیڈرل کورٹ کے جج تھے اس لیے ان کی شمولیت کی وجہ سے اسے فیڈرل کورٹ کی حیثیت حاصل ہے لہٰذا فیڈرل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے۔

حالانکہ اس قانون کے آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ اس ٹریبیونل کو ایک ہائی کورٹ کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔

'اس ٹریبیونل کے قانون کے مطابق مقدمے کی کارروائی خفیہ رکھی جانا تھی۔ لیاقت علی خان نے اس کی وجہ اسمبلی میں یہ بیان کی تھی کہ خصوصی نوعیت کی یہ کارروائی ملزمان کے مفاد میں نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کے مفاد میں ہو گی۔ اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز 15 جون سنہ 1951 کو ہوا۔

ٹریبیونل کے تین جج تھے، فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس عبدالرحمان، پنجاب ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد شریف اور ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سمیرالدین۔

آج کے ایکماہرِ قانون اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس بابر ستار نے اس ٹریبیونل پر اپنے ایک آرٹیکل میں راولپنڈی کاسپیریسی ایکٹ، 1951 کے تحت بننے والے سپیشل ٹریبیونل پر تبصرہ کرتے ہوئے دو برس قبل لکھا تھا کہ 'ریاست کی جن معاملات میں دلچسپی ہو وہاں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا رجحان کم از کم 1951 تک جا پہنچتا ہے۔'

وکیلان صفائی و استغاثہ

ملزمان کی جانب سے کئی وکلا نے اپنی خدمات پیش کیں۔ جن میں نمایاں نام حسین شہید سہروردی کا تھا۔سہروردی سوشلسٹ وکیل تھے اور نہ ہی ملک دشمن۔ انھیں اس مقدمے پر کبھی بھی یقین نہیں تھا۔ بعد میں انھوں نے سزا پانے والوں کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کیں اور بالآخر کامیاب ہوئے۔

حکومت نے سرکاری وکیل کی خدمات کی بھی پیش کش کی تھی۔ استغاثہ کی جانب سے اپنے وقت کے معروف وکیل اےکے بروہی پیش ہوئے تھے۔

مقدمے کی طوالت اور ملزمان کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ملزمان کے اکثر وکلا پیروی سے علحیدہ ہوتے گئے تاہم سہروردی آخر تک مقدمے میں ملزمان کی پیروی کرتے رہے۔

ظفر اللہ پوشنی لکھتے ہیں کے جب مقدمہ چل رہا تھا تو ایک ایک کر کے ملزمان کے وکلا مالی مسائل کی وجہ سے پیروی کرنے سے معذوری ظاہر کر کے الگ ہوتے گئے۔

اس کارروائی کے دوران ایک عام تاثر یہ تھا کہ جنرل اکبر اور فیض احمد فیض کو سزائے موت دی جائے گی۔ جس دن مقدمے کا آخری دن تھا تو ٹریبیونل کی کارروائی کے اختتام پر حسین شہید سہروردی نے جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض کو بتایا تھا کہ ان دونوں کو سزائے موت سنائی جائے گی۔

فیض بظاہر مطمئن نظر آئے۔ ان کے جیل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اُن کے چہرے پر ان کی مہین سی مسکراہٹ رہی، سگریٹپیتے ہوئے وہبظاہر پرسکون نظر آئے۔

مقدمے کا فیصلہ

ٹریبیونل نے پانچ جنوری 1953کو مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ جنرل اکبر کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی جبکہ باقی افسران کو چند برسوں کی (چار سے پانچ برس) کی قید کی سزا دی گئی۔ میجر جنرل (نذیر احمد) کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا دی گئی۔

فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کو پانچ پانچ برس کی سزا سنائی گئی۔بیگم نسیم اکبر (نسیم جہاں) کو دو برس قید میں رکھنے کے بعد بری کر دیا گیا۔ ٹریبیونل نے نسیم کے بارے میں کہا کہ اُنھیں سازش کا علم تو ہوگا لیکن وہ اکبر خان کی بیوی کی حیثیت سے ہر بات ماننے پر مجبور ہوں گی۔

سازش کیس کے ملزمان کو رہائی کیسے ملی؟

راولپنڈی سازش کیس کا ٹریبیونل سزائیں سنا کر ختم ہوگیا کیونکہ اس کا کُل یہی مینڈیٹ تھا۔ سنہ 1954 میں اس وقت کے گورنر جنرل غلاممحمد نے آئین ساز اسمبلی یہ کہہ کر تحلیل کر دی کہ یہ اپنا مینڈیٹ کھو بیٹھی ہے کیونکہ یہ آئین بنانے میں ناکام رہی۔ تاہم اسمبلی کے سپیکر، مولوی تمیزالدین نے گورنر جنرل کے تحیل کرنے کے حکم کو اس بنیاد پر رد کیا کہ یہ حکمنامہ غیر آئینی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے سپیکر کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل پر فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے تحلیلی حکمنامے کو درست قرار دیا۔ اور اسی فیصلے میں یہ بھی تعین کر دیا کہ آئین ساز اسمبلی نے جو قوانین بنائے وہ اس وقت تک درست ہوں گے اگر ان کی گورنر جنرل نے توثیق کر دی ہو۔

اس طرح اس تحلیل شدہ اسمبلی کے تمام وہ قوانین جن کی گورنر جنرل سے توثیق نہیں لی گئی تھی وہ کالعدم ہو گئے۔

ان کالعدم ہونے والے قوانین میں سے اس سازش کے مقدمے کو سننے والے ٹریبیونل کا قانون بھی شامل تھا۔ ملزمان نے نئی آئینی صورتِ حال میں راولپنڈی سازش کیس کا قانون عدالت میں چیلنج کیا اور بالآخر انھیں رہائی مل گئی۔ تاہم ان میں سے کسی کو نوکری پر بحال نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے نقصانات کا کوئی ازالہ کیا گیا۔

سجاد ظہیر کا موقف

خلیق انجم نے سنہ 1973 میں انڈیا میں سجاد ظہیر سے بھی اس مبینہ سازش کے بارے میں انٹرویو کیا تھا اور اسے اپنے 'اردو ادب' کے 'فیض نمبر' میں شائع کیا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے سجاد ظہیر سے راولپنڈی سازش کیس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا تھا کہ 23 فروری1951 کے عشائیے میں بات چیت ہوئی لیکن کسی سازش پر اتفاقِ رائے نہیں تھا اور یہ خیال مسترد کر دیا گیا تھا۔' اس میٹنگ کےبارے میں اس ’سازش کیس‘ کے مختلف کرداروں کی تقریباً یہی رائے ہے۔ ’

ان لوگوں کی پاکستان کے حالات پر تشویش کے بارے میں سجاد ظہیر نے بتایا تھا کہ’پاکستان کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے حق میں انتہائی خطرناک ہے کیونکہ پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہوتے ہی امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے بنائے گا اور اگر لڑائی ہوئی تو روس اس فوجی اڈّے ختم کرنے کے لیے ایٹم بم کا استمال کرے گا۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی جنگ میں پاکستان کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔'

اسی طرح کی رائے ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ سے منسوب کی جاتی ہے کہ 'سازش'کا وجود میں آنا در اصل فوج کے قوم پرست افسران کا اُن برطانوی فوجی افسران سے کمان چھین لینے کی سوچ کا نتیجہ تھا جو آزادی کے بعد بھی پاکستان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔'

یہ بھی پڑھیے

14 جولائی تا 11 ستمبر 1948: محمد علی جناح کی زندگی کے آخری 60 دن

نظریہ پاکستان کی مخالفت کا الزام: حیدرآباد سازش کیس کی حقیقت کیا تھی؟

'دینا واڈیا کو سرکاری پروٹوکول پسند نہیں تھا'

اس مبینہ سازش میں شریک فوجی افسر ظفراللہ پوشنی نے اس میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'اس میٹنگ میں جنرل صاحب نے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو سکیم پیش کی تھی اسے حاضرین نے کئی گھنٹوں کے مباحثے کے بعد مسترد کر دیا تھا۔‘

راولپنڈی سازش کیس سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے؟

اس مقدمے کا کئی محققین نے مختلف انداز سے جائزہ لیا ہے اور تجزیہ کیا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے وابستہ تاریخ کے استاد ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ 'یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا موڑ ہے جو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ پاکستان موجودہ حالت تک کیسے پہنچا۔'

ڈاکٹر قاسمی کہتے ہیں کہ 'اس واقعے کو سمجھنے کے لیے اس دور کی سرد جنگ کو جاننا کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور یہی وہ پہلو ہیں جو (ڈاکٹر) عائشہ جلال کے سیاسی معیشت اور دفاع کے درمیان تعلق کے نظریے اور سعدیہ طور کے (سرد جنگ کے زمانے کے پس منظر میں) پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی ثقافتی جنگ کے نظریے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔'

سازش کیس کمیونسٹ تحریک اور قوم پرستی کو ختم کرنے کی کوشش تھی

سنہ 2012 میں چھپنے والی سعدیہ طور کی کتاب 'دی سٹیٹ آف اسلام' میں بائیں بازو کے دانشوروں کی ترقی پسند ادبی تحریک اور کمیونسٹ پارٹی پر تنگ ہوتی ہوئی دنیا کا تفصیلاً ذکر ہے جس کے بعد وہ بیان کرتی ہیں کہ 'راولپنڈی سازش کیس نے ان دونوں پر ایک مہلک ضرب لگائی۔'

انھوں نے لکھا کہ جس طرح لیاقت علی خان نے سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض پر اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اُس سے 'ریاست کو وہ موقع مل گیا جس کے تحت اُس نے کمیونسٹ پارٹی اور پر پھر بالآخر ترقی پسند مصنفین کی تحریک پر پابندی لگانے کا ہدف حاصل کر لیا۔ اس الزام سے نہ صرف مسلم لیگی لیڈروں بلکہ (محمد حسن) عسکری جیسے ریاست کے حامی ادیبوں کو یہ کہنے کا موقع بھی مل گیا کہ کمیونسٹ پاکستان کے دشمن ہیں۔'

سعدیہ طور بیان کرتی ہیں کہ 'سرد جنگ کے زمانے کی ثقافتی جنگ کمیونسٹوں کے خلاف لبرل اتفاقِ رائے کی بنیاد پر لڑی گئی تھی اور یہ اس کے ذریعے اُس وقت کے میکارتھی دور میں (سرد جنگ کے دوران کمیونسٹوں کی بیخ کنی کی) تحریک بن گئی۔'

'پاکستان سنہ 1950 کے اوائل ہی سے امریکہ کا اہم اتحادی بن گیا تھا اور سنہ 1953 تک امریکہ کو تو پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت کی دعوت دے دی گئی تھی۔ سنہ 1954 میں اپریل کے مہینے میں پاکستان نے میوچوئل ڈیفینس اینڈ اسسٹینس پیکٹ (باہمی دفاع اور معاونت کے معاہدے) پر دستخط کر دیے تھے، جو امریکہ کے ساتھ باقاعدہ دفاعی معاہدوں کا آغاز تھا۔'

سعدیہ طور لکھتی ہیں کہ '(امریکہ میں) کانگریس فار کلچرل فریڈم (ثقافتی آزادیوں کی کانگریس) کے نام سے ایک پاکستانی شاخ قائم کر دی گئی جو سی آئی اے کی حمایت یافتہ لبرلز کی ایک ایسی تنظیم تھی جس کا ہدف کمیونسٹ تھے۔ اس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہونا تھا۔'

پاکستان میں اس ثقافتی جنگ کے پسِ پُشت پاکستان کی فوج میں قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ کشمیر میں برطانوی جنرل گریسی کی وجہ سے نوزائیدہ پاکستانی ریاست کو جس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اُس نے اس فوج کے پاکستانی افسران میں اپنے ادارے کو ایک قومی ریاستی فوج میں تبدیل کرنے کے احساس کو گہرا کر دیا تھا۔

سنہ 1970 میں مشرقی پاکستان کے ایک محقق، ہارون چوہدری پاکستان کی پہلی دہائی کی سیاسی پیش رفت پر اپنے تحقیقی مقالے میں 16 مئی 1948 کے ایک انگریزی اخبار سٹیٹسمین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سنہ 1948 میں کراچی میں تمام صوبوں کے وزرائے داخلہ، انفارمیشن ڈائریکٹر اور پولیس کے انسپکٹرز جنرل کی اس بارے میں ایک کانفرنس ہوئی تھی کہ رپورٹس کے مطابق کمیونسٹس انڈیا سے پاکستان آ رہے ہیں۔ ایسی کانفرنس کا ہونا اُس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔

سازشکے بیانیے کا تجزیہ

سنہ 1951 کی راولپنڈی سازش کے بارے میں مبصرین کہتے ہیں کہ یہ مبینہ طور پر پاکستانی افواج کی ایک سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس کے علاوہ اس مبینہ سازش میں ایک اور منفرد بات یہ تھی کہ یہ واحد مبینہ سازش ہے جس میں پاکستان کی ایک سیکیولر اور کیمیونسٹ پارٹی پر فوج کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام بھی لگا۔

جبکہ اس کے برعکس جن مورخین نے ان معاملات پر تحقیق کی اور سازش کے ثبوت مانگے ہیں ان کے بقول اصل سازش حکومت کا تختہ الٹنے کی نہیں تھی، بلکہ اصل سازش تحتہ الٹنے کے نام پر قوم پرست پاکستانی فوجیوں اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو منظر نامے سے ہٹانے کے لیے تیار کی گئی تھی جو کہ اس دور کی سرد جنگ اور امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ تھی۔

تاہم پاکستان کی قومی تاریخ اور شعور میں یہی سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ سنہ 1951 میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔

محقق سعدیہ طور اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا تسلسل کے ساتھ برقرار رکھے جانے والے بیانیے کو قرار دیتی ہیں: 'جتنا بڑا ایک گروہ ہو گا یا اُس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہو گی، تو اُس کے پاس اپنا پیغام دور دور تک اور بہت زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے اور متبادل حقائق کو دبانے کے اُتنی ہی زیادہ وسائل ہوں گے۔'

یہی وجہ ہے کہ اس سازش کے واقعے کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور ان کی حکومت اور اس سے وابستہ میڈیا اور اخبارات نے جس انداز سے کوّر کیا اُس کے نتیجے میں اس سازش کے حقیقی ہونے اور اس میں شامل کرداروں کو ملک دشمن ثابت کرنے کا پورا ماحول تیار کر لیا گیا تھا، جس کا اثر آج تک موجود ہے۔

کامران اسدر علی کے مطابق، فیض احمد فیض کو بدنام کرنے کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سرپرستی، لبرل اور دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے صحافیوں کے ذریعے مہم چلوائی گئی جس میں انھیں ریاست مخالف اور اسلام دشمن بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بعض موقعوں پر تو گستاخِ رسول جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف

جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعی ایک سازش تھی اُن میں کئی اور مصنفین اور مبصرین کے علاوہ سابق کیبینٹ سیکریٹری، حسن ظہیر ہیں جنھیں، بقول اُن کے، راولپنڈی سازش کیس کے مقدمے کی دستاویزات تک اتفاق سے رسائی حاصل ہوئی۔

راولپنڈی سازش کیس کی ساری کارروائی خُفیہ قرار دی گئی تھی اور مقدمے کی تمام متعلقہ دستاویزات کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس قرار دے دیے گئے تھے۔ حسن ظہیر نے یہ دستاویزات ڈی کلاسیفائی کرائے اور ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سازش رچائی گئی تھی اس لیے ملزمان کو سزائیں درست طور پر دی گئی تھیں۔

حسن ظہیر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے بائیں بازو کے دانشوروں کے ان دعوؤں کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں کوئی سازش نہیں تھی۔ ان کے بقول، یہ درست ہے کہ حکومت نے ان دستاویزات کو خفیہ رکھا اور ابھی حال ہی میں ان پر سے پابندی اٹھائی گئی ہے، تاہم اس سازش کے بنیادی خدوخال سب ہی کے علم میں ہیں۔

حسن ظہیر یہاں اُن دو افسران کی اپنی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں جن پر راولپنڈی سازش کیس کے قانون کے تحت مقدمہ چلا تھا اور سزائیں دی گئیں تھیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کمیونسٹ لیڈران جن پر مقدمہ چلا تھا وہ اس مقدمے پر بات کرنے کے لیے تیار تھے۔

حسن ظہیر کہتے ہیں کہ 'جوافسران اس سازش میں ملوث تھے اور اس کے علاوہ جن سے انھوں نے اپنی کتاب کے شائع ہونے سے پہلے انٹرویو کیے انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس مقدمے کے دوران جو حقائق پیش کیے گئے وہ کافی حد تک درست تھے۔'

تاہم اُن کے بقول ان سزا یافتہ افراد نے جو سوال اٹھایا وہ ان الزامات کے قانونی پہلو کے بارے میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جب 23 فروری کی میٹنگ میں ہر بات ملتوی یا تمام اقدامات منسوخ کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا اور جو بیانات میں باتیں کی گئی تھیں ان کے حصول کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی جُرم سرزد ہوا ہی نہیں تھا۔'

تاہم حسن ظہیر کے مطابق ٹریبیونل نے اپنے فیصلے میں سازش کے قانون اور اس کی توضیحات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اِس کے مطابق ٹریبیونل نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چاہے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی طور پر کوئی غیر قانونی اقدام کیا گیا ہے یا نہیں، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 121 اےکے تحت پھر بھی سزا دی جا سکتی ہے۔

اگر 1951 میں واقعی کوئی تبدیلی آ جاتی؟

میں نے مؤرخ عائشہ جلال سے سوال کیا کہ اگر میں یہ جاننا چاہوں کہ فرض کیجیے کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی آتی، فوجی انقلاب کے ذریعے نہیں، بلکہ ایک قومی تحریک بنتی اور کمیونسٹ پارٹی پر سرکاری یلغار نہ ہوتی تو آج پاکستان کی کیا صورتِ حال ہوتی؟

ڈاکٹر عائشہ جلال نے جواب دیا کہ ایک صورت تو یہ ہوتی کہ جس آسانی سے ایوب خان نے پاکستان کو امریکہ کی شطرنج کی کھیل کا مہرہ بنا دیا، وہ نہ ہوتا۔ اُس نے پاکستان کو بہت ارزاں قیمت پر فروخت کردیا۔ یہ پالیسی کہ پاکستان کو برطانوی اور امریکی بلاک کا حصہ بنا دیا جائے، اُس وقت اُس کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔ مشرقی پاکستان میں مخالفت زیادہ سنگین تھی۔ لیکن مغربی پاکستان میں بھی کافی مخالفت تھی۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ بنیادی طور پر راولپنڈی سازش کے کیس کو کمیونسٹوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں دانشورانہ سوچ کو کچلنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ تو جو بھی ان کے خلاف (حکومت کے خلاف) باتیں کر رہے تھے، وہ تو صرف باتیں ہی کر رہے تھے، ان (باتوں) کو انھوں نے آلے کے طور پر استعمال کرکے انھیں کچل دیا، بنیادی طور پر تو اس طرح اسٹیبلشمنٹ کو ان پر یلغار کرنے میں بہت آسانی ہو گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تو اپوزیشن کا اس طرح کچلے جانے سے طویل المدتی اثرات مرتب ہوئے، جس طرح بعد میں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی گئی اُس کے خلاف ایک موثر اپوزیشن ہوتی (جو نہیں ہوئی)، کیونکہ عوامی سطح پر ان معاہدوں کی بہت زیادہ مخالفت تھی (لیکن ان کا اظہار کرنے والے رہنما موجود ہی نہیں تھے)۔ کسی نے اتنے بڑے فیصلوں پر عوام سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ایوب خان اور اسکندر مرزا جیسے چند لوگوں نے پاکستان کو سستے سستے فروخت کردیا اور جس طرح فروخت کیا آپ اُس سے آج بھی نجات نہیں پا سکتے ہیں۔ ابھی تک یہاں کے لوگ جو ہیں وہ امریکہ کی نئی حکومت جو صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ہے، اُس کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کون ہے جو ہمیں پیسے دے گا، کتنا اسلحہ دے گا ہماری خدمات کا کرایہ کون دے گا، ہمیں تو عادت پڑ گئی ہے کہ کوئی ہمیں مفت میں اسلحہ دے دے گا، کچھ دے۔ تو اگر آپ پوچھتے ہیں کہ کیا فرق ہوتا تو میں کہوں گی کہ ایسی ذہنیت نہ پیدا ہوتی۔

میں نے سوال کیا کہ کیا (راولپنڈی سازش کیس) کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا مستقبل بالکل تباہ ہو گیا؟ ڈاکٹر عائشہ جلال نے جواب دیا کہ بالکل، انھوں نے تو اِسے کچل کر رکھ دیا تھا۔ جو باتیں کرتے ہیں وہ ثبوت نکالیں اور ثابت کریں (کہ یہ سازش تھی)۔ انھوں نے اس سازش کو استعمال کر کے کمیونسٹ تحریک کو تہس نہس کردیا۔ راولپنڈی سازش کیس کا بہانہ بنا کر انھوں نے اس تحریک کا مکمل خاتمہ کردیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.