کہتے ہیں کہ موت انسان کو کہیں سے بھی کھینچ کر اس مقام پر لے آتی ہے جہاں اس نے مرنا ہوتا ہے۔۔ بے شک موت ایک حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔۔ لیکن کبھی کبھی کسی کی موت ہر کسی کے دل و دماغ پر بہت گہرہ اثر چھوڑ دیتی ہے، اور انسان بس افسوس کرتا رہ جاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ گزشتہ روز کراچی میں قتل کئے جانے والے پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کی موت پر ہوا، جس کی خبر نے سب کو غمگین کردیا۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں
سید امین الدین علوی جو کہ کینیڈا سے چند روز قبل عید کرنے کراچی آئے تھے۔ وہ بہت خدا ترس اور سخی انسان تھے، ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ اس بار بھی جب وہ کراچی آئے تو قریبی بستی کے 3 غریب بچوں کو اپنے ہمراہ عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے گئے، اور ڈاکوؤں کی سفاکی کا نشانہ بن گئے۔۔
سید امین الدین علوی کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی نے بتایا کہ، ان کے دونوں بیٹے والد کی وفات کی خبر ملنے کے بعد کینیڈا سے کراچی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور متوقع طور پر آج کراچی پہنچ جائیں گے جس کے بعد ان کی تدفین کی جائے گئی۔ قتل کا مقدمہ تھانہ پاپوش نگر کراچی میں مقتول کی بہن کی جانب سے درج کروایا گیا ہے۔
ایس ایچ او ملک شوکت اعوان کے مطابق تین کم عمر لڑکے مقتول کی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد کے قریب موجود ایک غریب بستی کھنڈو گوٹھ سے تعلق رکھتے تھے۔
لڑکوں نے بتایا کہ، "حادثے سے پہلے امین الدین ہمیں اپنی گاڑی میں عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر جا رہے تھے۔ ایسے میں میڑک بورڈ کی عمارت کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی کو روکا اور ایک موٹر سائیکل سوار نے پستول نکال کر ان سے کوئی بات کی۔ اس موقع پر دوسرا موٹر سائیکل سوار موقع سے دور کھڑا رہا۔ موٹر سائیکل سوار کے بات کرنے پر جب مقتول نے ہاتھ پیچھے کیا تو موٹر سائیکل سوار نے فائرنگ کر دی جس سے ان کی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ وہ کافی دیر تڑپتے رہے، پھر ایک رکشہ ڈرائیور نے انھیں ہسپتال پہنچایا۔"
غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کا خرچہ اٹھاتے تھے:
امین الدین علوی کی عمر تقریباً 65 سال تھی اور وہ کینیڈا میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے 4 بچے ہیں، وہ کئی سال تک سعودی ایئر لائن میں ایئر کرافٹ انجینیئر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔
بہنوئی نے بتایا کہ، ہر ایک کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا اور وہ کئی سال سے ان کا معمول تھا کہ وہ سال میں دو، تین مرتبہ کراچی ضرور آتے تھے۔ یہ موقع عموماً عیدوں کا ہوتا تھا اور اس دوران وہ اکثر و بیشتر قریب کی غریب بستی کھنڈو گوٹھ میں جاتے تھے اور وہاں کے لوگ انھیں اچھی طرح جانتے تھے۔ اس بستی میں زیادہ تر غریب، مزدور پیشہ افراد رہتے ہیں۔
بستی کے رہائشی محمد جمال نے بتایا کہ، وہ ہماری بستی کے کئی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ بستی کے کم از کم چھ کم عمر لڑکوں کی تعلیم کا سارا خرچہ اٹھاتے تھے جو پہلے مزدوری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ جب بھی پاکستان آتے تھے زیادہ تر وقت ہماری بستی میں گزارتے تھے۔ جن بچوں کو تعلیم دلوا رہے تھے ان کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ ان کے سکول میں جاتے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
روزگار میں مدد:
محمد جمال کا کہنا تھا کہ، ان کا مدد کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کروایا تھا۔ اس میں بھی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ جن لوگوں کو وہ کاروبار شروع کرواتے ان کے حوالے سے ان کی شرط یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں۔