آغاز میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ شاید اس لال رنگ کی وجہ کچھ جرثومے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خیال درست نہیں تھا۔ لیکن اس پہیلی کو حل کرنے میں ایک صدی کا وقت لگا۔
انٹارکٹیکا کے سحر انگیز نظاروں میں ایک ایسی غیر معمولی آبشار بھی ہے جسے ’خونیں آبشار‘ کہا جاتا ہے۔
دور سے دیکھیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے خون کی ایک ندی بہہ رہی ہے۔ یہ آبشار انٹارکٹیکا کے مشرق میں ٹیلر گلیشیئر سے رستی ہوئی ایک بڑی جھیل میں گرتی ہے جس کی سطح برف کی چادر جیسی ہے۔
1911 میں انٹارکٹیکا کی مہم کے دوران برطانوی مہم جو تھامس گرفتھ نے پہلی بار اس حیران کن آبشار کو دریافت کیا تھا۔ وہ یہ رنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے کیوں کہ ان کے لیے یہ کافی عجیب تھا۔
ان کے مطابق یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی زخم سے تیزی سے خون بہہ رہا ہو۔
آغاز میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ شاید اس لال رنگ کی وجہ کچھ جرثومے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خیال درست نہیں تھا۔ لیکن اس پہیلی کو حل کرنے میں ایک صدی لگی۔
اس خونیں آبشار کے منفرد رنگ کی وجہ کے بارے میں 1960 کی دہائی میں سائنس دانوں نے سراغ لگایا کہ ہائڈرس فیرک آکسائیڈ برف کے نیچے موجود ہے جو لال رنگ پیدا کرتا ہے۔
لیکن یہ معدنیات کہاں سے آئی؟ ایک اور معمہ یہ بھی تھا کہ آخر برف کی تہہ میں دبی یہ معدنیات سطح تک کیسے پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے پانی کا رنگ لال ہو جاتا ہے۔
2009 میں امریکہ اور برطانیہ کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا کہ دراصل لال رنگ کا پانی ایک قدیم نمکیلی جھیل سے آتا ہے جو طویل عرصے سے برف کی تہہ میں دبی ہوئی ہے۔
خِال کیا جاتا ہے کہ یہ جھیل ڈیڑھ سے چار ملین سال پرانی ہے اور زیر زمین ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جہاں ایسی اور جھیلیں بھی موجود ہیں۔
جب اس آبشار کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں نمک کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ یہ بھی علم ہوا کہ لال رنگ کی وجہ ایک ایسا بیکٹیریا بھی ہے جو آکسیجن کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔
یہ بیکٹیریا نمکیلے پانی میں موجود آئرن کی مدد سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ یہ دنیا میں پایا جانے والا ایک نادر مائیکروب سمجھا جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیکٹیریا جو لاکھوں سال قدیم ہے، باقی حیاتیات سے مختلف ہے۔

گلیشیئر سے جو پانی خارج ہوتا ہے اس کا درجہ حرارت منفی سات ڈگری تک ہونے کی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ زیر زمین جھیل کا درجہ حرارت اس سے بھی کافی کم ہو گا۔ اس کے باوجود یہ پانی جمتا نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات کو اس جگہ میں دلچسپی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ مائیکروب جو اس پانی کے رنگ کی وجہ بنتے ہیں شاید ایسے دوسرے سیاروں پر موجود جرثوموں کے بارے میں علم حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ایسے ہی جرثومے مریخ اور مشتری پر بھی موجود ہیں۔ ایک اور سوال جس کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ابتدائی حشرات میں سے چند اس وقت کیسے زندہ بچے جب پورا کرہ ارض جما ہوا تھا۔ واضح رہے کہ ’سنو بال ارتھ‘ نامی سائنسی مفروضے کے تحت ایک زمانے میں پوری زمین برف کی تہہ سے اٹ گئی تھی۔
حال ہی میں امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی نے اس آبشار میں پائے جانے والے ذرات کے تجزیے پر تحقیق شائع کی ہے۔
اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ ان ذرات میں ایسی خصوصیات ہیں جن کو ’مارس ایکسپلوریشن روورز‘ جیسی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی مکمل طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر لیوی کے مطابق خونیں آبشار میں پائے جانے والی معدنیات کے ذرات انسانی خلیوں سے سو گنا چھوٹے ہیں اور ان میں کافی آئرن موجود ہے۔
اس کے علاوہ سیلیکون، کیلشیئم اور سوڈیئم بھی موجود ہوتے ہیں اور انتہائی نمکیلا پانی جب برف سے خارج ہوتا ہے تو فضا میں موجود آکسیجن اور گلیشیئر کی سطح پر موجود گرم ہوا سے رابطے میں آتا ہے اور یوں لال رنگ جنم لیتا ہے۔
ڈاکٹر لیوی کا کہنا ہے کہ مریخ جیسے سرد سیارے پر بھی ایسے ہی نہایت چھوٹے حجم کے ذرات موجود ہو سکتے ہیں اور اسی لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے آلات کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ان کا مکمل تجزیہ کر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خونیں آبشار ہماری مدد کر سکتی ہے۔