پاکستانی سوشل میڈیا پر ایسے مختلف گروپس اور پیجز موجود ہیں جو یونیورسٹی سکالرشپس کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ پیجز نہ صرف سکالرشپ کے بارے معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ پہلے سے تعلیمی سکالرشپس پر بیرون ملک جانے والے لوگوں کے تجربات سے بھرپور ہیں۔
فواد خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم قبائلی علاقے فاٹا سے ہےامریکہ، انگلینڈ، آسڑیلیا، یورپ، جرمنی اور ایسے کئی ممالک ہیں جو اس وقت پڑھائی کے لیے نوجوانوں کے پسندیدہ ملک تصور کیے جاتے ہیں۔
آج کل ہر دوسرے نوجوان سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ اس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا ہے، جس کے لیے وہ سکالرشپ ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر ایسے مختلف گروپس اور پیجز موجود ہیں جو یونیورسٹی سکالرشپس کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ پیجز نہ صرف سکالرشپ کے بارے معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ پہلے سے تعلیمی سکالرشپس پر بیرون ملک جانے والے لوگوں کے تجربات سے بھرپور ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر موجود ایک پیج ’سکالر شپ کورنر‘ کے سی ای او فواد خان سنہ 2013 میں ایک ایکسچینج پروگرام پر امریکہ گئے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا جب وہ اس پروگرام پر جانے کے لیے درخواست جمع کروا رہے تھے تو اُن کی رہنمائی کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا کیونکہ اُن کے علاقے میں اُس وقت کوئی بھی ملک سے باہر پڑھنے کے لیے نہیں گیا تھا۔
فواد خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم قبائلی علاقے فاٹا سے ہے۔
فواد خان نے واپس آکر دوسرے لوگوں کی مدد کرنے کا سوچا اور فیس بک پر پیج بنایا۔ اس پیچ پر اب پانچ لاکھ سے زائد صارفین موجود ہیں۔
’اس پیج پر ہم دنیا بھر میں کھلنے والے تعلیمی سکالرشپ، ایکسچینج پروگرامز اور انٹرن شپ کے بارے میں مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ آفیشل لنکس بھی دیتے ہیں تاکہ لوگ خود سے بھی مکمل تسلی کر لیں۔‘
فواد خان کا کہنا ہے کہ ’میں اس پیج پر لوگوں کو مکمل معلومات دیتا ہوں کہ وہ فارم کس طرح بھریں اور کون کون سی غلطیاں ہی،ں جو وہ نہ کریں۔‘
سکالرشپ کے لیے کیسے درخواست جمع کروانی چاہیے اس بارے میں آگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن ابھی بات کر لیتے ہیں اُن لوگوں کی جو ان پیچز پر موجود ماہرین کی مدد حاصل کر کے خود سکالر شپ کے لیے درخواستیں جمع کرا رہے ہیں۔
آج کل ہر دوسرے شخص سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ اس نے پڑھنے کے لیے بیرون ملک جانا ہے، جس کے لیے وہ سکالرشپ ڈھونڈتا نظر آتا ہے’کالج یا یونیورسٹی میں بیرون ملک پڑھائی کے لیے رہنمائی نہیں کی جاتی‘
فاطمہ محمود پی ایچ ڈی کے لیے آسڑیلیا کی یونیورسٹی میں اپلائی کر رہی ہیں۔ ریسرچ پرپوزل اور موٹیویشن لیٹر لکھنے میں اُن کو بھی مشکل پیش آرہی تھی۔ پھر اُنھوں نے یوٹیوب پر موجود مختلف چینلز اور فیس بک پر موجود پیچز اور گروپس کی مدد حاصل کی۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے سکول، کالج یا یونیورسٹیوں میں کھبی بھی بیرون ملک جا کر پڑھنے کے لیے رہنمائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ کون سا ملک آپ کے لیے بہتر ہے۔‘
’ایک اچھا موٹیویشن لیٹر، پرسنل سٹیٹمنٹ کیسے لکھی جائے، اس بارے میں بھی نہیں بتایا جاتا۔ اب پہلے سے تعلیمی وظائف حاصل کرنے والے یا جو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آچکے ہیں وہ میرے جیسے دوسرے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔‘
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر ماہرین کی آسان دستیابی کے باعث اب لوگ ایجنٹس کی مدد نہیں لے رہے اور کئی افراد ایسے بھی ہیں جو ان ایجینٹس کے ہاتھوں لوٹنے کے بعد اب خود درخواستیں جمع کروا رہے ہیں۔
فاطمہ بھی اُن افراد میں شامل ہیں جو اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے کچھ عرصہ قبل ایک ایجنٹ کے ذریعے بیرون ملک جانے کے لیے کوشش کی تھی مگر اُس ایجنٹ نے شروع میں ہی مجھ سے پیسے لے لیے اور پھر وہ کہیں غائب ہو گیا۔ جس کے بعد میں نے سوچا کہ میں سوشل میڈیا پر موجود ان ایکسپرٹس کی مدد سے خود اپلائی کروں گی۔‘
عامر حبیب خٹک آج کل ایک ایکسچینج پروگرام کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ اُن کو اس سے پہلے کئی بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس بار وہ پرامید ہیں کہ اُن کو کامیابی حاصل ہو گی۔
’میں اس بار اُن ماہرین اور سوشل گروپس میں موجود لوگوں کی مدد لے رہا ہوں، جو پہلے سے اس پروگرام پر جا چکے ہیں۔ مجھے انھوں نے ایپلیکیشن مکمل کرنے میں بہت مدد کی۔ مختلف گروپس میں موجود ایکسپرٹس درخواست کے لیے مرحلہ وار اور نقطہ بہ نقطہ رہنمائی کرتے ہیں۔‘
عامر نے بتایا کہ ان ایکسپرٹس سے بات کر کے اُن کو سمجھ آیا کہ وہ پہلے درخواست جمع کروانے میں کیا غلطی کرتے تھے۔
عامر جیسے کئی افراد ہیں جو اب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود لوگ اب ایک دوسرے کے باہر جا کر پڑھنے کے خواب کو حقیقت بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔
عامر حبیب خٹک آج کل ایک ایکسچینج پروگرام کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ اُن کو اس سے پہلے کئی بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس بار وہ پرامید ہیں کہ اُن کو کامیابی حاصل ہو گی کیا یہ ایکسپرٹ یا پیجز مدد کرنے کے پیسے لیتے ہیں؟
مگر یہاں سوال یہ آتا کہ کیا یہ ایکسپرٹس یا پیجز مدد کرنے کے کوئی پیسے لیتے ہیں۔
اس بات کا جواب دیتے ہوئے فواد نے کہا کہ جب اُنھوں نے اپنا پیچ شروع کیا تھا تو اُن کو کہیں سے بھی آمدن نہیں ہوتی تھی مگر اب جب کوئی یونیورسٹی یا کوئی ادارہ اُن کو اشتہار لگانے کا کہتا ہے تو پھر وہ پیسے لیتے ہیں۔
’اب میرے پاس 15 لوگوں کی ٹیم موجود ہے جن کو ہر ماہ کے آخر میں مجھے پیسے دینے ہوتے ہیں مگر ہم جن کی مدد کرتے ہیں اُن سے پیسے نہیں لیتے۔ یہ سب ہم مفت میں کرتے ہیں۔‘
فواد نے بتایا کہ جو بھی ایکسپرٹ یا پہلے سے سکالرشپ پر جانے والے افراد ہیں وہ بھی یہ کام مفت میں کرتے ہیں اور کوئی کسی سے پیسے نہیں لیتا۔
جیسا کے اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر موجود ان گروپس اور پیجز نے بیرون ملک جا کر پڑھنے والے افراد کے لیے آسانی پیدا کر کے ایجنٹس کے کام کو کہیں نہ کہیں کم کر دیا ہے۔
ایک ایجنٹ ایک طالب علم سے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے بھی لیتے ہیں اور ایسے میں یہ گروپس ان سٹوڈنٹس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
سعد بن سعید گزشتہ تیں سال سے طلبا کو باہر بھیجنے کا کام کر رہے ہیں۔ سعد نے بتایا کہ وہ کس طرح طلبہ کو باہر بھیجتے ہیں۔
’ہم سٹوڈنٹ کو بولتے ہیں کہ وہ آئیلٹس دے اس کے بعد ہم سب کچھ خود کرتے ہیں، پھر متعلقہ یونیورسٹی ہم سے جو دستاویز مانگتی ہے، ہم وہ بچوں سے مانگ کر آگے بھیج دیتے ہیں۔‘
سعد نے بتایا کہ ایڈمیشن لیٹر آنے کے بعد کسی کا ویزا نہ لگے تو ایسے میں وہ پیسے واپس نہیں دیتے کیونکہ اُنھوں نے اپنی محنت کی ہوتی ہے۔
’بیرون ملک یونیورسٹوں کو ڈالر میں فیس ادا کرنے کے لیے ڈالر نہیں‘
اگر ہم گذشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو بیرون ملک جا کر پڑھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جو خود اپنی مدد آپ کے تحت یا ایجنٹس کے ذریعے بیرونِ ملک گئے ہیں۔
اس کی ایک وجہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سکالرشپس کا اعلان نہ کرنا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ہر سال کئی تعلیمی وطائف کا اعلان کرتا آیا ہے مگر گذشتہ دو سال سے فنڈز کی عدم موجودگی کی وجہ سے سکالرشپس کا اعلان نہیں کیا گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایچ ای سی کی ڈائریکٹر جنرل صائمہ نورین نے بتایا کہ ’فنانس ڈویژن نے ہمیں یہ ہدایت کی ہے کہ فل الحال کسی شکالرشپ کا اعلان نہیں کرنا۔ اس کی وجہ ملک کی معاشی صورتِحال ہے۔ ہم بیرون ملک یونیورسٹوں کو ڈالر میں فیس ادا کرتے ہیں اور اس وقت ہمارے پاس اُن کو دینے کے لیے ڈالر نہیں۔‘
حالات کس قدر خراب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایچ ای سی کے پاس پہلے سے بیرون ملک سکالرشپ پر موجودطالب علموں کو ماہانہ وظیفہ دینے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔

سکالرشپ کے لیے درخواست کیسے جمع کروانی چاہیے؟
فواد خان نے بی بی سی کو بیرون ملک تعلیم کے لیے درخواست جمع کروانے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا:
- لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک دن پہلے بھی ایپلیکشن فل کر کے اپلائی کیا جا سکتا ہے ایسا ممکن تو ہے مگر اس میں طالبِ علم کی کامیابی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جس ملک کی یونیورسٹی میں جانا ہے، چھ ماہ قبل اُس پر کام شروع کر دیں۔
- سب سے پہلے جو بھی ایپلیکیشن میں دستاویز مانگی گئیں ہیں اُن کو جمع کر لیں۔ جیسے سکول کالج کی ٹرانسکرپٹس، ریفرنس لیڑ وغیرہ۔
- بہت سے لوگ جی پی اے کم ہونے کی وجہ سے اپلائی نہیں کرتے مگر آپ کی ایپلیکیشن اچھی ہے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا جیسا کہ آپ نے اپنی متعلقہ فیلڈ میں کتنا کام کیا ہے، آپ نے کتنا کمیونٹی ورک کیا۔
- ریسرچ پروپوزل لکھنے کے لیے اپنے عنوان پر اچھی طرح ریسرچ کر لیں۔ پھر اس کو دو سے تین لوگوں سے پڑھوا لیں۔
- آئیلٹس کی اچھے سے تیاری کریں اور کوشش کریں کے 6.5 سے کم بینڈز نہ ہوں۔
- موٹیویشن لیٹر یا پھر پرسنل سٹیٹمنٹ لکھتے ہوئے اس بات کو مدِنظر رکھیں کہ کوئی بھی یونیورسٹی باقی طالبہ کو چھوڑ کر اب کو ہی کیوں منتخب کرے گی اور اس پروگرام کے لیے آپ کیوں بہترین امیداوار ہیں۔ آپ نے پروگرام میں اپنی دلچسپی اور اپنے کرئیر سے اس کو جوڑنا ہے۔ اس کو بھی لکھ کر دو سے تین لوگوں سے پڑھوا لیں۔