بھارت کے شہر حیدرآباد میں انیل کمار چوہان نامی ایک ہندو فنکار حیدرآباد کے آس پاس کی مساجد میں خطاطی کی مختلف اقسام پر کام کرتے ہیں جن میں قرآنی آیات، احادیث اور ان کے اردو تراجم شامل ہیں۔
انیل کمار چوہان پیشے کے لحاظ سے ایک خطاط ہیں اور اردو، عربی، ہندی، انگریزی، تیلگو اور بنگالی میں لکھنا جانتے ہیں۔ ہندو ہونے کے باوجود انہیں نعتیں پڑھنے کا بھی شوق ہے۔
بی بی سی اردو نے مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ میں انیل کمار چوہان سے بات کی۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انیل کمار چوہان نے کہا کہ ’’میں ہندو ہوں اور مذہب میرا ذاتی معاملہ ہے لیکن میں ہر مذہب کا احترام کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ سب بھائی چارے سے رہیں۔ ہمیں پیار کے ساتھ ملک میں رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
انیل کمار چوہان کے مطابق انہیں اردو سیکھنے میں تقریباً آٹھ سال لگے لیکن انہیں عربی زبان پر ابھی تک اچھی عبور نہیں ہے۔ ان کا کہناہے کہ "مجھے سیکھنے کی خواہش تھی اور میں نے مصوری میں ڈپلومہ کرنے کا فیصلہ کیا اور حیدرآباد کے فائن آرٹس کالج میں داخلہ لیا" لیکن آرٹ کا کورس مکمل نہ کر سکا۔
ان کا کہنا ہے کہ 17 سال کی عمر میں خطاطی شروع کی اور مصوری کا فن ورثے میں ملا۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اردو خطاطی کی۔ انیل کمار چوہان نے کہا کہ ان کے دادا بھی ایک بہترین فنکار تھے جنہوں نے نواب میر عثمان علی خان اور دیگر اہم شخصیات کی پینٹنگ بھی بنائی تھی۔
انیل چوہان بتاتے ہیں کہ جب وہ حیدرآباد میں کام کرتے تھے تو ہر بورڈ پر اردو لکھی ہوتی تھی، انہوں نے مساجد میں کلمہ طیبہ لکھنا شروع کر دیا تھا اور اللہ اکبر جیسے جملے لکھنا شروع کر دیے تھے لیکن اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا۔
انیل کمار کے بقول انہوں نے اپنے خرچ پر اپنے عربی خطاطی کی ایک نمائش لگائی تاہم فن پاروں کو زیادہ فروخت نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا میں نے سوچا کہ میرے پاس نیا آرٹ بنانے اور بیچنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ تب مجھے خیال آیا کہ میں مساجد میں قرآنی آیات مفت میں لکھوں۔ انیل چوہان ہندو آرٹسٹ ہونے کے باوجود اب تک 100 سے زائد مساجد میں مفت کام کر چکے ہیں۔
انیل چوہان مسجد کا احترام کرتے ہیں اور مسجد میں داخل ہونے کے لیے خود کو پاک کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مساجد میں کام کرتے ہوئے انہیں مذہبی اجتماعات میں شرکت کا موقع بھی ملا اور اسلامی تعلیمات اور تہذیب میں ان کی دلچسپی بڑھنے لگی۔